تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     19-11-2019

کوئی مالی ضمانت نہیں

پاکستان میں ہونے والے سیاسی و قانونی واقعات کی توجیہہ پیش کرنا مشکل کام ہے‘ خاص طور پر جب ان کا تعلق شریف خاندان کے خلاف جاری کرپشن کے مقدمات اور بھٹو/زرداری خاندان کی بے نامی سلطنت سے ہو۔ قانونی لڑائیوں کی اس ناختم ہونے والی داستان کی تازہ ترین قسط‘ نواز شریف کو علاج کے لیے وفاقی حکومت کے طلب کردہ ضمانتی بانڈز یا اس کے بغیر بیرون ملک جانے کی اجازت دِیے جانے سے متعلق پیدا شدہ تنازعہ کے بارے میں ہے۔یہ معمولی سا معاملہ ‘کہ نواز شریف کو بیرون ملک جانے کے لیے ضمانت دینی چاہیے‘ ایک ہفتے سے سارے ملک کے سیاسی بحث مباحثے کا مرکزی نقطہ بنا ہوا تھا۔آئیے اس معاملے کا جائزہ قانون اور نظائر کی روشنی میں لیتے ہیں۔
پاکستان کے علاقائی دائرہ اختیار سے باہر نکلنے پر پابندی کا قانون ایگزٹ فرام پاکستان (کنٹرول) آرڈیننس مجریہ 1981ء ہے۔خاص طور پر 1981ء کے آرڈیننس کی شق 2 وفاقی حکومت کو اختیار دیتی ہے کہ وہ ''کسی بھی فرد یا افراد کے گروہ کے پاکستان سے باہر کسی بھی جگہ جانے پر پابندی عائد کر سکے‘ باوجود اس امر کے کہ ایسے شخص کے پاس جائز سفری دستاویزات موجود ہوں‘‘۔ دوسرے الفاظ میں مرکزی حکومت قانونی طور پر کسی بھی شخص کو‘ اگر اس کے لیے مناسب قانونی جواز موجود ہوتو‘ پاکستان کی علاقائی حدود سے نکلنے سے روک سکتی ہے۔ 1981ء کے آرڈیننس کی شق دوکے مطابق اس کے لیے ''ضروری نہیں ہے ‘‘ وفاقی حکومت متعلقہ ''شخص کو اظہار وجوہ کا موقع فراہم کرے‘‘ یا اس کے سامنے ''ان وجوہات کو بیان کرے‘‘ جن کی بنیاد پر اس نے یہ حکم جاری کیا ہے۔ 
1981ء کے آرڈیننس کی شق 3 کے مطابق وفاقی حکومت کے ایسے امتناعی حکم کے خلاف متاثرہ شخص چاہے تو نظر ثانی کے لیے وفاقی حکومت کے پاس درخواست جمع کرا سکتا ہے۔ایسی کوئی درخواست موصول ہونے کی صورت میں وفاقی حکومت اس شخص کو درخواست کی پیروی کا موقع فراہم کرنے کے بعد جو مناسب سمجھے حکم جاری کر سکتی ہے۔ہم جس حوالے سے بات کر رہے ہیں اس میں قانونِ مذکور کا یہ حصہ ''جو مناسب سمجھے‘‘ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کو ایک اور طریقے سے دیکھ لیتے ہیں‘ وفاقی حکومت کسی شخص کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے یا ہٹانے کے لیے 'جو مناسب سمجھے‘ جیسی شرائط عائد کر سکتی ہے۔
1981ء کے آرڈیننس کی شق 5وفاقی حکومت کو اختیار دیتی ہے کہ وہ اس قانون کے تحت قواعد بنا سکے۔ قواعد بنانے کی اس اجازت کے تحت ہی (اُس وقت کی) پیپلز پارٹی حکومت نے 2010ء میں ایگزٹ فرام پاکستان (کنٹرول) قواعد 2010ء بنائے۔ یہ قواعد ای سی ایل میں ڈالے جانے والے لوگوں کے بارے میں مزید صراحت کرتے ہیں۔ خصوصاً2010ء کے قواعد کی شق 2کے مطابق وفاقی حکومت چاہے تو ''کسی بھی شخص کے پاکستان سے باہر کسی بھی جگہ جانے پر پابندی عائد کر سکتی ہے‘‘ اگر ایسا شخص منجملہ اور چیزوں کے ''دہشت گردی ‘ معاشی جرائم‘‘ یا ''کرپشن اور طاقت یا اختیارکے غلط استعمال ‘ جس سے حکومت کے خزانے و جائیداد کو نقصان پہنچا ہو‘‘ میں ملوث ہو۔اس قانونی نمونے کی موجودگی میں نواز شریف کے مقدمے میں حقائق کی جانب پلٹتے ہیں۔
پانامہ کیس اور اس کے نتیجے میں بننے والی جے آئی ٹی کے بعد انکشاف ہوا کہ نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے ایسے آف شور اثاثے موجود ہیں جنہیں قانون کے مطابق ظاہر نہیں کیا گیا۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ بادی النظر میں نواز شریف کے اثاثے ان کی ظاہر کردہ آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتے‘ اس کے نتیجے میں قومی احتساب بیورو نے سابق وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف ریفرنس دائر کیے۔ ان ریفرنسوں پر سماعت کی نگرانی خود معززسپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوئی اور تین میں سے دو ریفرنسوں میں نواز شریف کوسزا سنا ئی گئی۔بعد ازاں (ایون فیلڈ ریفرنس) میں ان کی ملتوی شدہ اپیل پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کاحکم معطل کر دیا اور انہیں ضمانت پر رہائی کی اجازت مل گئی۔ اس وقت وفاقی حکومت کو خطرہ محسوس ہوا کہ ہو سکتا ہے نواز شریف ملک چھوڑ جائیں اور اپنے خلاف جاری قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے واپس نہ لوٹیں‘ اس کے بعد نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا گیا۔
ایک سال آگے چلتے ہیں۔ قید میں نواز شریف کی صحت خراب ہو گئی اور اس دوران ہی نیب لاہور میں نواز شریف کے خلاف چوہدری شوگر ملز کیس میں تحقیقات شروع کر دی گئیں۔ یوںنواز شریف کم از کم ایک مقدمے میں لاہور میں زیر تفتیش تھے ‘ جبکہ دو دیگر مقدمات میں انہیں اسلام آباد میں سزا سنائی جا چکی تھی۔ ان حالات میں نواز شریف نے طبی بنیادوں پر اسلام آبادکے ساتھ ساتھ لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے درخواست دائر کی۔دونوں جگہوں سے انہیں ضمانت مل گئی‘ تاہم عدالتی احکامات میں نواز شریف کے پاکستان سے باہر جانے کے بارے میں وضاحت موجود نہ تھی‘ خصوصاً جب لاہور ہائیکورٹ نے ضرورت پڑنے پر نواز شریف کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت بھی دے دی‘ کیونکہ وہ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے صرف 'ملزم‘ تھے‘ کسی بھی مقدمے میں (سزا یافتہ نہیں)تھے۔
ان حالات میں وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نہیں نکالے گی۔ اس کے لیے شہباز شریف کو حکومت کو درخواست دینا پڑی کہ وہ نواز شریف کانام ای سی ایل سے نکال دے۔ اس کے جواب میں‘ کابینہ میں طویل مباحثے کے بعد‘ وفاقی حکومت نے مناسب جانا کہ نواز شریف کو پاکستان چھوڑنے کی اجازت دے دی جائے‘ اگر وہ ایک ضمانتی بانڈ اس رقم کے مساوی جمع کرا دیں جس پر انہیں سزا سنائی جا چکی ہے۔ بنیادی طور پر اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے وفاقی حکومت کا انحصار اس قانونی شق پر تھا (1981ء کے آرڈیننس کی شق 3) جو حکومت کو حالات کے مطابق ''جیسے مناسب سمجھے‘‘ حکم جاری کرنے کا اختیار دیتی ہے۔وفاقی حکومت کے نمائندگان کا استدلال تھا کہ اگرچہ وہ نواز شریف کی صحت کے پیش نظر ان کے بیرون ملک جانے پر معترض نہیں‘ تاہم انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ جب انہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے یا عدالتیں طلب کریں گی تو وہ واپس آئیں گے۔ اس کے علاوہ یہ دلیل بھی دی گئی کہ نواز شریف کی عدم موجودگی میںپاکستان میں ان کے خلاف کوئی تحقیق یا کسی ریفرنس پر کارروائی نہیں ہو سکتی‘ اور اس کے نتیجے میں ان کے خلاف جاری احتساب کا سارا عمل ہی رک جائے گا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا جس نے(خصوصی ہنگامی بنیادوں پر) ہفتے کے روز اس درخواست کی سماعت کی۔معزز عدالت نے سارا دن کوشش کی کہ وفاقی حکومت اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کسی باہمی حل تک پہنچ جائیں‘ تاہم وفاقی حکومت کا اصرار تھا کہ نواز شریف کو ہر صورت میں پاکستان چھوڑنے سے پہلے کوئی نہ کوئی مالی ضمانت دینی ہوگی‘ جبکہ مسلم لیگ (ن ) نے نہایت پر زور طریقے سے اس کی مخالفت کی۔ ان حالات میں جب کوئی باہمی معاہدہ سامنے نہیں آ سکا تو لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا موقف تسلیم کیا اور نواز شریف کو بغیر کسی مالی پیمان یا ضمانت کے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ 
سو اب صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف کے پاکستان لوٹنے اور ان کے خلاف احتساب مقدمات میں مزید کارروائی کا انحصار قابل احترام عدالت پر ہے۔ حکومت تو ضمانت چاہتی تھی‘عدالت نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نواز شریف کے بیان پر یقین کرتے ہوئے کہ وہ واپس لوٹیں گے‘ انہیں اجازت دے دی۔ درحقیقت اب نواز شریف کے خلاف مقدمات کی ساری ذمہ داری اور بوجھ معزز عدالت کے کندھوں پر آن پڑا ہے۔یہ ایک معقول فیصلہ ہے اور اسے ایسے ہی قبول کیا جانا چاہیے۔ امید ہے کہ نواز شریف جلد بہتر ہو جائیں گی اور انہوں نے معزز لاہور ہائی کورٹ کے سامنے واپسی کاجو وعدہ کیا ہے وہ پورا کریںگے۔ اور اگر کسی وجہ سے وہ وعدہ ایفا نہیں کرتے تو یقینا پاکستان کے عوام قانونی عمل کی تکمیل کے لیے عمران خان کی بجائے عدالتوں کی جانب دیکھیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved