تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     19-11-2019

سرخیاں‘متن‘ مردہ شہر میں زندہ آدمی اور عامرؔ سہیل

نواز شریف کی عدم موجودگی میں مشن جاری رکھیں گے: شہباز شریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی عدم موجودگی میں مشن جاری رکھیں گے‘‘ یعنی میں اور میرے ساتھی یہ مشن الگ جاری رکھیں گے اور مریم نواز اور اُن کا میڈیا سیل الگ‘ جبکہ میری واپسی بھی خاصی مشکوک ہے ‘کیونکہ میں نے بھی اپنی کمر درد کا علاج کروانا ہے‘ جس میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں ‘کیونکہ یہ کمر ہمت ہے‘ جو مکمل طور پر درست ہونی چاہیے‘ اس کے علاوہ لاتعداد نئی بیماریاں بھی شامل ہوں گی‘ جن کا انکشاف وہاں جا کر ہوگا‘ کیونکہ کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں‘ جن کا انکشاف جیل جانے پر ہوتا ہے اور ہسپتال داخلے کی ضرورت پڑ جاتی ہے اور اگر ہم دونوں کی صحت درست نہ ہوئی اور جس کا پورا پورا امکان موجود ہے‘ تو ہم وہاں سیاسی پناہ حاصل کرنے کیلئے بھی درخواست دے سکتے ہیں ۔ آپ اگلے روز نواز شریف کی بیرون ملک روانگی پر مشاورت کر رہے تھے۔
عمران پر کپکپی طاری ہے‘ خیالی پلاؤ نہیں پکا رہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عمران پر کپکپی طاری ہے‘ خیالی پلاؤ نہیں پکا رہے‘‘ اور اب معلوم ہوا ہے کہ یہ کپکپی غصے کی وجہ سے ان پر طاری ہو گئی ہے کہ میں خواہ مخواہ اپنا اور قوم کا وقت ضائع کر رہا ہوں؛ حالانکہ غصے میں مبتلا ہونے کی بجائے انہیں استعفیٰ دے کر اس غصے سے نجات حاصل کر لینی چاہیے تھی اور جہاں تک خیالی پلاؤ کا تعلق ہے تو اسے لے کر گھر سے نکلنے کی بجائے ہم نے دھرنے کے دوران ہی پکانا شروع کر دیا تھا ‘جبکہ شرکاء اسی کے بل بوتے پر ابھی تک چل رہے ہیں ‘بلکہ ہم نے تو خیالی حلوہ بھی کافی مقدار میں پکا لیا تھا کہ نمکین چیز کے بعد میٹھا بھی کھانے کو جی چاہتا ہے اور انہیں یہاں پر حلوہ کھانے کی ریہرسل بھی کرنا تھی‘ کیونکہ شہید ہونے کے بعد جنت میں بھی ان کی حلوے ہی سے تواضع ہونی تھی‘ جبکہ میں تو رات کو اپنے دوستوں ہی کے ہاں سے پیٹ بھر کر حلوہ کھا آیا کرتا تھا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے۔
عمران اور پاکستان اب ایک ساتھ نہیں چل سکتے: قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''عمران خان اور پاکستان اب ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ کیونکہ پاکستان اب ہمارے ساتھ چلے گا اور عمران خان صرف حکومت چلائیں گے اور پانچ سال پورے کر کے اگلے پانچ سال کی تیاری کر رہے ہوں گے‘ جبکہ ہمارے زعماء ایک ایک کر کے اندر ہوتے جائیں گے‘ جو کہ سراسر زیادتی ہے اور جن صاحب نے خورشید شاہ کے اکاؤنٹ میں 25لاکھ روپے جمع کرائے تھے‘ یہ وہ رقم تھی‘ جو انہوں نے شاہ صاحب سے اُدھار لے رکھی تھی اور شاہ صاحب نے بھی کسی اور سے اُدھار لے کر اُنہیں دی تھی اور اس چھوٹی سی بات کا اتنا بڑا بتنگڑ بنا لیا گیا ہے‘ کیونکہ شاہ صاحب تو پیسے سے ویسے بھی سخت نفرت کرتے ہیں ‘جبکہ خود میں نے کئی بار انہیں پیسے سڑک پر پھینکتے دیکھا ہے‘ بلکہ خود وہ پیسے اٹھا بھی لیتا تھا‘ کیونکہ میں پیسوں کی بے ادبی ہرگز برداشت نہیں کر سکتا۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مُردہ شہر کا زندہ آدمی
یہ ناصر حسنی کے افسانچوں کا مجموعہ ہے‘ جسے حسنی کتاب گھر مہاجر کالونی بہاولپور نے شائع کیا ہے۔ انتساب معروف پارلیمنٹیرین ممتاز شاعر تابش الوری کے نام ہے۔ سرورق ذیشان یوسف باجوہ کا تیار کردہ ہے‘ جس میں قبرستان میں ایک زندہ آدمی کو بیساکھیوں کے سہارے چلتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ ابتداء میں خصوصی مطالعہ کے عنوان سے خورشید ناظر نے مصنف کا تعارف کرایا ہے‘ اس کے بعد ''افسانہ نگاری کا رخشندہ ستارہ‘‘ کے عنوان سے مشتمل تحریر ہے‘ جس پر لکھنے والے کا نام نہیں ‘ ہو سکتا ہے‘ یہ مصنف کے اپنے ہی زورِ قلم کا نتیجہ ہو! پس سرورق مصنف کی تصویر ہے ۔ افسانچوں کی تعداد 57ہے۔ افسانچہ افسانے سے بہتر اس لئے ہے کہ یہ افسانے کی نسبت جلدی ختم ہو جاتا ہے‘ تاکہ قاری کوئی اور کام بھی دیکھ بھال سکے‘ جبکہ بعض افسانچے نصف سے بھی کم صفحے پر مشتمل ہیں‘ جو قاری ایسی تحریروں کو پسند کرتے ہیں انہیں یہ کتاب ضرور پسند آئے گی۔
پچھلے ہفتے عامر ؔسہیل کی جو غزل درج کی تھی‘ اس کا بقیہ پیش ہے:
یہ درد ہے کہ کوئی کھانستا ہوا راہب
یا وہ فقیر جسے بوریا نصیب نہ ہو
پڑھیں جو آنکھ تو خالی ہو خانۂ تقدیر 
زمیں پہ فال کھلے‘ زائچہ نصیب نہ ہو
سو بارشیں تو کرو‘ تم گزارشیں تو کرو
کہیں لکھا تو نہیں نینوا نصیب نہ ہو
جو داستانِ جدائی کے بیچ سو جائیں
ہمیں تمہاری گلی کی ہوا نصیب نہ ہو
میں موم موم پگھل کر اسے مناؤں گا
کوئی چراغ‘ کوئی رتجگا نصیب نہ ہو
میں دُلہنوں کو دلاسے کا کون شبد کہوں
اگر جہیز میں رکھی دُعا نصیب نہ ہو
تمہیں بھی حُسن کی قیمت انا بجھا کے ملے
ہمیں بھی قد کے برابر گھٹا نصیب نہ ہو
سو اصل اصل تجھے‘ ہو بہو رکھوں دل میں
سو وصل وصل کوئی پارچہ نصیب نہ ہو
مزا ہو میں بھی سوئمبر میں ہار جاؤں تمہیں
تمہیں بھی حسب گماں دیوتا نصیب نہ ہو
میں اس زمیں پہ کسے آسرا کروں عامرؔ
میں کیا کروں جو کوئی آسرا نصیب نہ ہو
آج کا مقطع
دل میں اس کے موم بتی سی جلائی بھی ظفرؔ
روشنی کے باوجود اتنا اندھیرا رہ گیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved