ناروے میں مقیم ایک پی ایچ ڈی پاکستانی خاتون کو یکا یک احساس ہوا کہ اسے اپنے چار بچوں کو اسلام اور اسلامی اقدار سے روشناس کرانے کے لیے پاکستان منتقل ہو جانا چاہیے۔ ان کے شوہر نے اس خواہش کے عملی پہلوؤں پر روشنی ڈالی تو بات کچھ دب گئی لیکن خاتون کو یہ احساس ستانے لگا کہ وہ اپنی مذہبی ذمہ داریاں پوری نہیں کر پا رہی ہیں۔ اسی شش و پنج میں انہوں نے بغیر کسی رہنمائی کے انٹرنیٹ پر اسلامی کتب پڑھنا شروع کر دیں جن کی روشنی میں انہیں لگا کہ پاکستان منتقل نہ ہونا ایک گناہ ہے جس کا وہ مسلسل ارتکاب کر رہی ہیں۔ وہ ناروے کے ایک سرکاری ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھیں۔ اپنے فہم دین کے مطابق انہوں نے نوکری بھی چھوڑ دی اور خود کو مذہبی تعلیم کے لیے وقف کر دیا۔ وہیں پر رہتے ہوئے انہیں خواب میں بزرگ ملنے لگے جو انہیں پاکستان جانے پر مائل کرتے۔ شوہر نے بیوی کی اس ذہنی کیفیت کے پیشِ نظر وطن واپسی کا ارادہ کر لیا۔ اچھی خاصی زندگی چھوڑ کر یہ خاندان پاکستان منتقل ہو گیا۔ یہاں آنے سے بیگم صاحبہ کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھنے لگے۔ مذہبی خیالات کے زیر اثر انہوں نے بچے بھی نظر انداز کر ڈالے۔ یہاں آ کر شوہر کے لیے مالی مسائل بھی پیدا ہو گئے جن سے نمٹنے کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں اپنے دوستوں اور خاندان کی مدد لینا پڑی۔ کچھ عرصہ مزید گزرا تو محترمہ کے خیالات جنون میں بدل گئے اور انہیں اپنے خوابوں کی دنیا ہی اصل دنیا لگنے لگی۔ خاندان والوں نے پیروں فقیروں سے لے ڈاکٹروں تک سب کو دکھایا‘ آسیب سے لے کر پاگل پن تک‘ ہر چیز کا علاج ہوا لیکن شفا ندارد۔ نا چار ان خاتون کے شوہر بمشکل انہیں واپس ناروے لے گئے جہاں کی شہریت بھی انہیں حاصل تھی۔ وہاں کے محکمہ صحت کے سامنے جب اس خاتون کا مسئلہ آیا تو یوں لگا کہ سارے نظام میں بھونچال آ گیا ہے۔ خاص طور پر جب انہیں یہ علم ہوا کہ اس خاتون کے شوہر ایک طویل عرصے سے اس کرب میں مبتلا ہیں تو ہر کام بجلی کی سی رفتار سے ہونے لگا۔ خاتون کا نفسیاتی علاج ہوا اور جیسے ہی کامیابی کے آثار نمودار ہوئے انہیں اسی نوکری پر بحال کر دیا گیا‘ جو انہوں نے تین سال پہلے چھوڑ دی تھی۔ ان کے خاندان کے لیے بہتر مکان کا انتظام ہوا اور شوہر صاحب بھی یکسوئی کے ساتھ اپنے روزگار پر لگ گئے۔ خاتون سے کہا گیا کہ آپ جب تک چاہیں گھر رہیں، دفتر جانے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد ایک ڈاکٹر صاحب متعین کیے گئے جو گھر آ کر ان کی ذہنی و جسمانی صحت کا خیال رکھتے رہے۔ صرف تین مہینے کے اندر اندر وہ خاتون زندگی کی طرف لوٹ آئیں۔ ان کا خاندان بھی سکون سے آشنا ہوا اور زندگی ہموار انداز میں چلنے لگی۔
جن صاحب نے مجھے یہ واقعہ سنایا وہ مذکورہ خاتون کے با ہمت شوہر کے بھائی تھے‘ جو کئی سالوں سے گھر کے سکون سے محروم تھا مگر وفا شعاری بیوی کو چھوڑنے سے روکے ہوئے تھی۔ ان کا سوال تھا کہ کیا ناروے کی حکومت کا اپنے شہری کے ساتھ یہ سلوک ریاست مدینہ کے خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی یاد نہیں دلا دیتا جو اپنی پیٹھ پر کھانے کا سامان لاد کر ایک غریب کے گھر چھوڑ کر آتے تھے۔ جب ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم اس تاریخ کے وارث ہیں تو ہمارے ملک میں ریاست کی جانب سے اپنے شہریوں کے ساتھ یہ سلوک کیوں نہیں ہوتا؟ اس سوال کے جواب میں تاریخ کھنگالی جا سکتی ہے، شرعی عذر بھی تراشے جا سکتے ہیں، عزیمت و مصلحت کے فرق سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے اور خلافت و ملوکیت کا موازنہ پیش کر کے بھی سوال پوچھنے والے کو خاموش کیا جا سکتا ہے۔ اگر سوال کرنے والا کسی معقول جواب پر مصر ہو تو حکومت کے زور پر اپنے وزیر اعظم عمران خان کا دعویٰ بھی پیش کیا جا سکتا ہے جو وہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے لیے ہر تقریر میں کرتے ہیں۔ طاقت کے زور پر اس لیے کہا کہ عقل و منطق کی کسوٹی پر یہ دعویٰ اب تک تو کھرا نہیں اترا۔ سوال پوچھنے والے پر اگر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنا دیا جائے تو شاید وہ مان جائے۔
اگر جناب وزیر اعظم عمران خان واقعی پاکستان کو ریاست مدینہ میں ڈھالنا چاہتے تھے تو انہیں اقتدار سنبھالنے کے دن سے ہی اس پر کام کرنا شروع کر دینا چاہیے تھا۔ یہ کام مشکل تو تھا لیکن نا ممکن نہیں تھا۔ ریاست مدینہ کا جوہر تو وہی سلوک ہے نا جو ناروے میں اپنے شہریوں کے ساتھ روا رکھتا ہے۔ بس کرنا یہ تھا کہ بیوروکریسی کو پیار سے بتاتے کہ ہر وہ شخص جو پاکستان میں رہتا ہے وہ عزت و محبت کا مستحق ہے۔ پولیس میں اصلاح کرنی تھی کہ یہ سڑکوں پر شہریوں کو مارتی نہ پھرے بلکہ ان کے جان ومال کے تحفظ کے لیے خون پسینہ ایک کردے۔ تعلیم عام اور نصاب یکساں کرنا تھا کہ امیر و غریب چاہے الگ الگ اداروں میں پڑھیں مگر پڑھیں تو ایک سا۔ ان میں سے کوئی کام بھی ایسا نہیں جس کے لیے پیسے کی ضرورت ہو۔ بس رہنمائی اور مسلسل نگرانی چاہیے۔ لیکن یہ سب دعویٰ تھا، ارادہ نہیں۔ ارادہ ہوتا تو اس مقصد کے حصول کے لیے اصلاحات کی جاتیں، افسران کی تربیت کا نظام ٹھیک کیا جاتا، وعدے کے مطابق بیوروکریسی میں سیاسی عمل دخل کا خاتمہ کیا جاتا اور پہلے قدم کے طور پر مخالفین کو احتساب کی ٹکٹکی پر کس دینے کے اعلانات کی بجائے ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی جاتی۔ الیکشن سے پہلے جو خواب خان صاحب نے دکھائے تھے‘ ان کی تعبیر یہ نکلی کہ گزشتہ پندرہ ماہ میں مارو، پکڑو، جانے مت دیجیو کے آوازے لگا لگا کر خود کو بڑا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ خان صاحب مخالفین پر ایک فقرہ اچھالتے ہیں تو ان کے وزراء یکے بعد دیگرے دہن دریدگی اور آداب نا شناسی کا ایک سے ایک اعلیٰ نمونہ پیش کرنے لگتے ہیں۔ کام تو یہ بے چارے کر نہیں سکتے اور ان سے اب کوئی امید بھی نہیں، افسوس یہ ہے کہ جب سرکاری سطح پر درشت کلامی کو بیان، ڈھٹائی کو استقامت اور بد تمیزی کو خود اعتمادی قرا ر دیا جاتا ہے تو زوال کا احساس کچھ زیادہ ہو جاتا ہے۔ امید ان سے کیا رکھنی لیکن کوئی نہ کوئی امید بندھی رہے تو زندگی گوارا رہتی ہے۔
ایک امید چند دن پہلے لگی تھی کہ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے اور اتحادیوں کے نخروں نے تحریک انصاف کو کم از کم کچھ سیاسی حقائق کا ادراک تو کرایا ہو گا۔ یہ بھی خیال تھا کہ جنابِ وزیر اعظم کو ان کے دوست وقتاً فوقتاً مخالفین کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے کے نتائج و عواقب سمجھاتے رہے ہیں تو ہو سکتا ہے یہ سب کچھ دیکھ کر ان اسباق پر یقین بھی آ جائے۔ مولانا اسلام آباد سے چلے گئے اور چودھری پرویز الٰہی نے حریفانہ بیانات سے رجوع کر لیا تو یہ بھی سوچا کہ تحریک انصاف کے دوستوں نے اسے ایک بار پھر تختی صاف کر کے دے دی ہے تاکہ اب یہ نالائق دوبارہ سے کام کا آغاز کرے۔ اس سوچ سے یہ گمان بھی ابھرا کہ اب عمران خان ٹھوکر کھا کر سنبھل جائیں گے۔ لیکن نہیں، ہر گز نہیں۔ اگلے روز ہزارہ موٹر وے کے ایک حصے کا افتتاح کرتے ہوئے جو کچھ آنجناب نے فرمایا‘ اس کے بعد اس گروہِ انصافیان کے سدھر نے کی توقع رکھنا ہی فضول معلوم ہوتی ہے۔ یہ طے ہے کہ ان کے ہوتے ہماری قسمت نہیں بدلنے والی، جن کی اچھی ہوتی ہیں وہ ناروے جیسے ملکوں میں رہتے ہیں۔
اگر عمران خان واقعی پاکستان کو ریاست مدینہ میں ڈھالنا چاہتے تھے تو انہیں اقتدار سنبھالنے کے دن سے ہی اس پر کام کرنا شروع کر دینا چاہیے تھا۔ یہ کام مشکل تو تھا لیکن نا ممکن نہیں تھا۔ ریاست مدینہ کا جوہر تو وہی سلوک ہے نا جو ناروے میں اپنے شہریوں کے ساتھ روا رکھتا ہے۔ بس کرنا یہ تھا کہ بیوروکریسی کو پیار سے بتاتے کہ ہر وہ شخص جو پاکستان میں رہتا ہے وہ عزت و محبت کا مستحق ہے۔