12۔ آپ اس سے پیشتر کل اور پرسوں ممبئی حملوں بارے لکھی گئیں دو قسطیں پڑھ چکے ہیں۔ مضمون کی طوالت کو مختصر کرتے ہوئے تیسری اور آخری قسط پیش خدمت ہے۔ ملک کے اندر اور بیرونِ ملک پڑھنے والوں نے جو پذیرائی بخشی ہے اس پر ان سب کا ممنون ہوں اور ایک پاکستانی کی حیثیت سے یہ میرا فرض تھا کہ جو بات دکھ اور تکلیف دیتی ہے وہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے جو لوگ آج پاکستان میں بیٹھ کر چھبیس گیارہ کے ممبئی حملوں پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کی بات کرتے ہیں انہیں چاہیے تھا کہ وہ بلوچستان ، کراچی اور قبائلی علا قوں میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور علیحدگی کی کارروائیاں کرنے والوں کی بھی بات کرتے۔ بنگلہ دیش کی بات کرتے، سیا چن کی بات کرتے اورکشمیر کی ستر ہزار سے زائد بیٹیوں کی بھارتی فوج کے ہاتھوں لُٹی ہوئی عزتوں کی بات کرتے‘ ایک لاکھ کشمیری بیٹوں کے وحشیانہ قتل و غارت کی بات کرتے‘ بھارت جو پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کا ایک ایک قطرہ روک کر پاکستان کے کھیتوں کو برباد اور نہروں کو خشک کر رہا ہے اس پر کوئی کمیشن بنانے کی بات کرتے تو قوم ان کی تعظیم میں اٹھ کھڑی ہوتی لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ دوسری طرف اس کے مقابلے میں کبھی کسی نے سنا ہو کہ بھارت کی کسی سیا سی جما عت یا سیا سی لیڈر نے کبھی بھی یہ مطالبہ کیا ہوا کہ بھارت کی RAW پاکستان میں دہشت گردی کروا رہی ہے‘ اس پر کمیشن بنایا جائے؟۔ بہر حال یہ پاکستانیوں کے سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے جسے ان پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ کیا سوچتے ہیں۔ اس وقت میرا موضوع ممبئی حملوں بارے اصل حقائق تک پہنچنا ہے ۔ ممبئی کی کرائمز برانچ نے عدالت میں اجمل قصاب کے خلاف مقدمہ کا چالان پیش کرتے ہوئے جو لکھا اور جس کی بنیاد پراجمل قصاب کو سپیشل کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ کی جانب سے سزائے موت سنائی گئی جس پر عمل درآمد بھی ہو چکا ہے اس کی تہہ تک پہنچنا اور حقائق کو جاننا سب کا حق بنتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ممبئی کے یہ حملہ آور جن کے بارے میں امریکہ اور بھارت کی طرف سے کہا گیا کہ یہ لوگ کراچی کیٹی بندر گاہ سے کشتی میں بیٹھ کرممبئی پہنچے لیکن اجمل قصاب کی جو تصویر دنیا بھر کے میڈیا میں پہلے دن سے دکھائی گئی اس میں اجمل قصاب کے بال کسی بہترین شیمپو سے دھوئے ہوئے نظر آ رہے تھے اور اس تصویر میں اس کی شیو بھی تازہ تازہ کی ہوئی تھی اوراجمل قصاب نے جو لائٹ گرے ٹرائوزر پہنا ہوا ہے وہ بھی استری کیا ہوا ہے۔ اگر کہا جائے کہ ان لوگوں نے ممبئی کے ساحل پر اترنے سے پہلے یا بعد میں اپنے کپڑے تبدیل کیے تو بھارتی حکومت نے جو کشتی اور سامان میڈیا کو دکھایا اس میں ان کے اتارے ہوئے کپڑے بھی ہونے چاہیں تھے جو کہیں بھی نظر نہیں آئے۔ اگر ہم تصویری حقائق کو سامنے رکھیں تو پھر ہمیں شیوا جی اسٹیشن کے فوڈ سٹال مینجر ششی کمار سنگھ کے بیان کو بھی سامنے رکھنا ہو گا جس نے تفتیشی اداروں کو چشم دید گواہ کے طور پر بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان حملہ آوروں نے اپنے چہرے نقاب سے ڈھانپنے ہوئے تھے اور یہ بیان بھی کرائمز برانچ کے چالان میں شامل ہے تو دیکھنا ہو گا کہ پھر یہ تصویر کہاں سے آ گئی؟۔ وہ سوال جو دنیا بھر کا میڈیا بھارت سے پوچھتا رہا کہ آپ نے اجمل قصاب کی CST پر بنائی گئی تصویر تو دنیا بھر میںدکھا دی لیکن تاج ہوٹل، اوبرائے اور نریمان ہائوس میں ساٹھ گھنٹوں تک پورے ممبئی کو یرغمال بنانے والے ان8 حملہ آوروں کی تصاویر کہاں ہیں؟۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ سب مارے گئے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ان مرنے والوں کی تصویریں کد ھر گئیں؟۔ ان کی شکلیں دنیا سے کیوں چھپائی گئیں جبکہ ان جگہوں پرنصب سی سی ٹی وی کیمرے صحیح حالت میں کام کر رہے تھے۔ 13 ۔کرائمز برانچ ممبئی کی طرف سے2مارچ2009ء کوآفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات3,5,7کے تحت بھارت کے ٹی وی چینلNDTV,IBN-7,AAJ TAK TV,TV9 کے خلاف مقدمات درج کراتے ہوئے الزام لگایا گیا کہ ان چینلز نے کمشنر ممبئی پولیس کی طرف سے اس آپریشن میں شامل پولیس افسران سے وائر لیس پر ہونے والی گفتگو کے کچھ حصے سنائے تھے جس سے 26/11 کو پولیس کی آپریشنل موومنٹ کے اصل پوائنٹ اور ہدف سامنے آنے سے پولیس کی اب تک کی شیواجی اسٹیشن،CAMA HOSPITAL, RANGABHAVAN, LANEتمام کہانیاں جھوٹی ثابت ہو جاتی ہیں۔ 14 ۔ ممبئی کرائمز برانچ نے اور نہ ہی آج تک بھارتی حکومت کے کسی بھی ادارے نے یہ بتایا کہ سکوڈا کار نمبر MH-01-BA-5179 میں پولیس فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دو افراد کون تھے؟۔ان دو افراد کی ہلاکت کے بارے میں پولیس کنٹرول وائر لیس پر اسسٹنٹ کمشنر پولیس جرگم ڈویژن اور سائوتھ کنٹرول کی مراٹھی میں کی گئی بات چیت ملاحظہ فرمائیں ’’دونوں آدمی ماردیئے گئے ہیں اور ان کی لاشیں نائر ہسپتال پہنچا دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے پولیس پر فائر بھی کیا تھا‘‘ اب یہ سوال اگر بھارتی میڈیا سے کیا جائے تو وہ وہی کچھ کہے گا جو اس کے ملک کی ایجنسیاں اسے فراہم کریں گی یا سمجھائیں گی لیکن بھارتی عوام اور خاص طور پر ممبئی کے لوگ اور بھارت کے چیف جسٹس تو جانتے ہیں کہ ولی پارلی فلائی اوور اور شیواجی اسٹیشن کے درمیان کتنا فا صلہ ہے؟ 15 ۔بھارت کے چیف جسٹس کی خدمت میں ممبئی پولیس کے کمشنر( کوڈ نام۔۔۔کنگ) اور ممبئی کرائمز برانچ کے درمیان پولیس کنٹرول وائر لیس پر10.45 p.m to11.30pm ہونے و الی گفتگو کا وہ حصہ پیش خدمت ہے جس میں پولیس کمشنر ممبئی پولیس کے دہشت گردی سکواڈ کے چیف آنجہانی ہیمنت کرکرے( کوڈ نام۔۔۔وکٹر) اور اشوک کامتے ایڈیشنل کمشنر پولیس ایسٹ ریجن کے بارے میں پوچھتے ہیں۔۔۔۔۔ کنگ (کمشنر ممبئی پولیس)‘ وکٹر ( ہیمنت کر کرے )کہاں ہیں؟ جائنٹ کمشنر ممبئی پولیس اطلاع دیتے ہیں کہ وکٹر چترپاٹھی اسٹیشن میں ہیں اور اشوک کامتےSBI آفس آ رہے ہیں۔ اب چھبیس گیارہ ممبئی حملوں بارے۔کمیشن کی باتیں کرنے والوں یا یہ کمیشن بنانے کی ترغیب دینے والوں سے گذارش ہے کہ وہ 26/11 کو ممبئی پولیس کے افسران اور ممبئی پولیس کے کنٹرول روم کے درمیان وائر لیس پر ہونے والی گفتگو کی آڈیو ٹیپس اور سی ڈیز کے علا وہ ممبئی پولیس کے افسران اور خصوصی طور پر انصاف کے نام پر جان قربان کرنے والے ممبئی پولیس کی دہشت گردی سٹاف کے چیف ہیمنت کرکرے کے موبائل فونز کا مکمل ریکارڈ اپنے قبضہ میں لے لیں اور کمیشن بنانے والوں سے گزارش ہے کہ وہ انڈین سول سروس کے اعلیٰ افسر بھوشن گجرانی کے ڈرائیور ماروتی فید جس نے ہیمنت کرکرے، سالسکر اور اشوک کامتے کو ہلاک کرنے والے حملہ آوروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس کے اس وقت کے بیان کو سامنے رکھیں‘ تاکہ 26/11 کے اصل کردار سب کے سامنے آ سکیں۔ ممبئی حملوں بارے اگر سچ جاننا چاہتے ہیں تو سچ یہ ہے کہ یہ وہی اقوام متحدہ میں نا قابل تردید ثبوتوں کے ساتھ پیش گیا ’’ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروںجیسا‘‘ ایک ڈرامہ تھا جس کے ذریعے امریکہ نے عراق پر حملہ کرنے کے بعد اس کے تمام وسائل پر قبضہ کر لیا اور بھارت بھی اسی حملے کی آڑ میں پاکستان پر جارحیت کا ارادہ کر چکا تھا۔ اگر کسی کو شک ہے تو چھبیس گیارہ کے بعد نئی دہلی میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا بولا ہوا وہ فقرہ سامنے رکھیں جس میں اس نے کہا تھا’’ آئندہ اگر پاکستان نے بھارت میں اس قسم کی کوئی بھی دہشت گردی کی کارروائی کی تو امریکہ بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے سے نہیں روکے گا‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved