وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انہیں نوازشریف پر رحم آگیا اور کابینہ میں اختلافِ رائے کے باوجود انہیں علاج کے لیے باہر جانے دیا۔ وزیراعظم نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ وزیراعظم کی چیف جسٹس سے اپیل معنی خیز قرار دی جارہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے وزیراعظم اپنے حکومتی اداروں سے غیر مطمئن اور مایوس ہوکر عدالتوں سے مداخلت اور معاونت کی اپیل کر رہے ہیں۔ اسمبلیوں میں قانون سازی کے بجائے آرڈیننس پر آرڈیننس لائے جارہے ہیں اور یہ تاثر دن بدن تقویت پکڑتا چلا جارہا ہے کہ حکومتی ادارے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ نواز شریف کی بیرون ملک روانگی پر انصاف سرکار کے چیمپئنز کا واویلا دیکھ کر لگتا ہے کہ ''اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘‘ کے مصداق کچھ بھی اُن کی منشا اور توقعات کے مطابق نہیں ہوا۔ نواز شریف سے ریکوری کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ علاج معالجہ سے شروع ہونے والے ریلیف کا ڈراپ سین بالآخر نوازشریف کی روانگی پر ختم ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کا علاج کتنا عرصہ جاری رہتا ہے اور وہ صحت یاب ہوکر کب وطن واپس لوٹتے ہیں۔
حکومتی وزرا لکیر پیٹتے نظر آرہے ہیں۔ کوئی خطائیاں نہ کھلانے کی ہدایت کر رہا ہے تو کوئی انہیں ہشاش بشاش قرار دے کران کی بیماری پر سوال اُٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہسپتال سرکاری‘علاج سرکاری‘ تشخیصی رپورٹس سرکاری‘ تعجب ہے اگر نواز شریف بیمار ہیں اور اُن کا علاج پاکستان میں ممکن ہے تو انہیں باہر کیوں بھجوایا گیا ہے؟ اُن کے باہر بھجوانے اور ای سی ایل سے اُن کا نام نکلوانے کے فیصلے کے خلاف حکومت نے اپیل کیوں نہیں کی؟ اب ان کے جانے کے بعد کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق حکومتی ترجمان اور وزرا کیوں آسمان سر پہ اٹھائے ہوئے ہیں؟
اپنی زبانوں سے شعلے اگلتے انصاف سرکار کے سقراطوں اور بقراطوں نے بالآخر عمران خان کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ حکومت وہ سارے اقدامات کرنے پر مجبور نظر آتی ہے جن کا ذکر سننا بھی انہیں گوارا نہ تھا۔ وہ سبھی کچھ جن سے وہ گھن کھایا کرتے تھے‘ جن کے ذکر سے ہی وہ آگ بگولہ اور آپے سے باہر ہو جایا کرتے تھے‘ آج اپنی سرکار میں اپنے ہی ہاتھوں کرتے نظر آتے ہیں۔ بڑے بول اور بلند بانگ دعوؤں پر مبنی سارے بیانیے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ برسرِ اقتدار آنے سے پہلے تحریک انصاف کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ عمران خان کے پاس ماہرین کی ایسی ٹیم موجود ہے جو برسرِ اقتدار آکر نہ صرف ملک و قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دے گی‘ بلکہ ان چیلنجز اور مسائل سے بھی بخوبی نبردآزما ہو سکے گی جو عوام کے لیے جونک بنے ہوئے ہیں۔ خصوصاً سماجی انصاف‘ معیشت کی بحالی اور استحکام کے حوالے سے عوام امیدوں کے جو چراغ جلائے بیٹھے تھے وہ ایک ایک کر کے بجھتے چلے جارہے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ ناامید‘ مایوسی اور غیر یقینی صورتحال عوام کو ہلکان اور بے حال کئے ہوئے ہے۔ صفر تیاری کے ساتھ برسرِ اقتدار آنے والے تحریک انصاف نے ابتدائی چند ماہ میں ہی ثابت کر دیا تھا کہ دھرنا اور انتخابی مہم میں دئیے جانے والے بھاشن اور بلند بانگ دعوؤں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ سبھی جھانسے اور دلاسے ہی تھے۔ اب چھوڑوں گا نہیں‘ این آر او نہیں دوں گا سمیت سارے دعوؤں کا دھڑن تختہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ نہ تو نوازشریف کو روک سکے اور نہ ہی ٹکے کی ریکوری کر سکے۔
رہی بات نوازشریف کی تو وہ کئی حوالوں سے قسمت کے دھنی ثابت ہو چکے ہیں۔ اس ملک کی سیاست میں طویل ترین اور بھرپور اننگز کھیلنے کے ساتھ ساتھ تاحال بھر پور طور پر موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ بحران پیدا کرنے سے لے کربحرانوں کے بھنور میں پھنس کر نکلنے تک‘ قسمت ہمیشہ ان کا ساتھ دیتی رہی ہے۔ جنرل ضیاالحق نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کروائے تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے بڑے بڑے نامی گرامی‘ حسب نسب والے اور قد آور سیاستدان امیدوار تھے۔ اس دور کی پنجاب اسمبلی پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ فیصلہ کرنا انتہائی کٹھن تھا کہ کس کو کس پر فوقیت اور برتری دی جائے۔ ایک سے بڑھ کر ایک امیدوار غیر معمولی سماجی حیثیت اور اثر ورسوخ کا مالک تھا‘لیکن جب قرعہ نواز شریف کے نام نکلا تو ارکان اسمبلی ہکا بکا بلکہ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ان کے لیے انتہائی مشکل اور کٹھن مرحلہ تھا کہ ان کے سیاسی اور سماجی قد کاٹھ کو نظرانداز کرکے ایک ''بابو ٹائپ‘‘ ایم پی اے کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا جا رہا ہے ‘جس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔یہ صورتحال پوری پنجاب اسمبلی کے لیے سوالیہ نشان بن گئی‘ اونچے شملے والی قد آور سیاسی شخصیات اکٹھی ہوگئیں کہ وزارتِ اعلیٰ کے لیے ہم نہ سہی‘ لیکن کوئی ہم سا تو ہو‘ یہ بابوٹائپ نواز شریف تو ہرگز نہیں۔نواز شریف کوبطور وزیراعلیٰ قبول کرنا ارکان اسمبلی کے لیے مشکل مرحلہ تھا۔
ایک وہ وقت بھی آیا کہ جنرل غلام جیلانی کی آنکھ کا تارا و راج دُلارا نواز شریف نہ صرف وزیراعلیٰ بنا بلکہ ارکانِ اسمبلی نے اسے اعتماد کا ووٹ بھی دیا۔ واقفانِ حال یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ وزارتِ اعلیٰ کی تقریبِ حلف برداری کے بعد گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی نے چائے کی ٹرے اٹھائے جاتے ہوئے ویٹر (بیرا)کو آواز دے کر بلایا اور اس کے سر سے کلاہ اتار کر نواز شریف کے سر پر رکھ دیا۔ حاضرین محفل کے لیے یہ ایک کھلا پیغام تھا کہ جاود کی چھڑی بہرحال ان کے ہاتھ میں ہے‘ کسی کو خاک بنا دے‘ کسی کو زر کردے۔
پنجاب حکومت کے قیام کے باوجود اپنی خو سے مجبور اکثر ارکانِ اسمبلی نواز شریف کو دل سے وزیراعلیٰ تسلیم نہیں کر پارہے تھے اور اکثر پنجاب اسمبلی ڈیڈ لاک کا شکار رہتی تھی۔ اس صورتحال کے پیش نظر جنرل ضیاالحق کولاہور آنا پڑا۔ انہوں نے ارکان اسمبلی پر واضح کیا کہ وزیراعلیٰ نواز شریف ہی رہیں گے۔ ان کی تبدیلی اور متبادل قیادت کی کوشش کرنے والے سن لیں کہ انہیں ہر صورت نواز شریف سے تعاون کرنا ہوگا۔ جنرل ضیاالحق کے دورۂ لاہور سے وزارت اعلیٰ کی کوششیں جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں۔ بالمقابل بالآخر بغل گیر ہوگئے اور پھر نواز شریف کا جادو ایسا سر چڑھ کر بولا کہ ضیاالحق نے ایک موقع پر یہ بھی کہہ ڈالا کہ میری عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے۔ ضیاالحق کے ان دعائیہ کلمات کے بعد ان کی زندگی نے زیادہ وفا نہ کی اور وہ ایک فضائی حادثے کا شکار ہوگئے۔
نواز شریف کو ضیا الحق کی دعا ایسی لگی کہ نواز شریف نے کسی کو ساتھ نہیں لگنے دیا اور راج نیتی کے وہ سارے گُر سیکھ لیے‘ کیا حریف کیا حلیف سبھی کو آگے لگائے رکھا۔ بے نظیر کے دورِ حکومت میں بھرپور محاذ آرائی سے لے کر ذاتی مخاصمت تک کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسی طرح غلام اسحاق خان سے لے کر فاروق لغاری تک‘ چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے لے کر پرویز مشرف تک‘ سبھی کو اپنے مطابق چلانے اور تابع رکھنے کے لیے آخری حد تک گئے۔ زرداری سے نورا کشتی کی داستان علیحدہ ہے۔ اس کھیل میں کبھی عرش پر تو کبھی فرش پر‘ کبھی قصرِ اقتدار میں تو کبھی پابندِ سلاسل بھی رہے۔ کبھی عزتِ سادات داؤ پر لگی تو کبھی جان کے لالے بھی پڑے ۔
اس بار بھی نااہل ہوکر جب قصرِ اقتدار سے نکلے تو اس طرح دربدر ہوئے کہ بیمار بیوی کو چھوڑ کر ملک واپس آئے اور پابندِ سلاسل ہوئے۔ اس دوران کئی بار بیمار ہوئے اور کئی بار ضمانت ملی‘ لیکن اس مرتبہ بھی وہ سارے بحرانوں کو جُل دے کر نکلنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ان کے بھائی شہباز شریف کی بیک ڈور ڈپلومیسی اور معنی خیز آنیاں جانیاں نتیجہ خیز ہو چکی ہیں اور وہ اپنے بڑے بھائی کو بچا کر لندن پہنچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ان کے لندن جانے پر انصاف سرکار کے چیمپئنزکے تلملانے اور پیچ وتاب کھانے پر بے اختیار ایک باورچی کا قصہ یاد آرہا ہے: ''چاولوں کی دیگ میں پانی زیادہ ڈل گیا تو باورچی نے میزبان سے کہا: بارات والوں نے پٹاخے چلائے تو کھانا خراب ہو سکتا ہے۔ بارات آئی تو لوگ پٹاخے روکنے کے لیے بھاگے‘ مگر پٹاخے چلانے والوں نے پٹاخے چلا دئیے۔ باورچی نے پٹاخوں کی آواز سنتے ہی صافہ کندھے پر ڈالا اور یہ کہتے ہوئے چل پڑا کہ'' جڑ گئے جے سارے چول‘ ہن تسی جانو تے جنج جانے‘ میں چلیا جے‘‘۔ حکومتی وزرا بھی ساری ذمہ داری پٹاخے چلانے والوں پر ڈالتے نظر آتے ہیں۔