میاں نواز شریف علاج کیلئے لندن روانہ ہوچکے ‘ تاہم ان کی بیرونِ ملک روانگی سے قبل حتمی فیصلہ کرنے کیلئے بلائے گئے وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں شورٹی بانڈ کی بحث عروج پر رہی؛ اگرچہ یہ بحث اب ہونی نہیں چاہیے‘ کیونکہ انہیں بغیر کسی شورٹی بانڈ جمع کروائے ‘بیرونِ ملک جانے کی اجازت عدالت نے عطا کی ہے‘ تاہم یہ نواز شریف کو عدالت سے اجازت ملنے سے پہلے کی بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے نامور قانون دان ڈاکٹر با بر اعوان سے اس اہم ترین ایشو پر حتمی اورقانونی رائے لینے کیلئے انہیں وزیر اعظم ہائوس طلب کیا‘ تو ڈاکٹر صاحب نے وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیا کہ میاں نواز شریف‘ اگراپنے علاج کیلئے ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں تو آپ انہیں بخوشی اس کی اجا زت دے دیں‘ لیکن یہ اجا زت غیر مشروط نہ دیں‘ بلکہ یہ اجازت اس طرح مشروط ہونی چاہیے کہ وہ عدالتوں میںاپنے زیر سماعت مقدمات کی مالی حیثیت کے کچھ حصوں پر مشتمل رقم کے برا بر شورٹی یا انڈیمنٹی بانڈ حکومت ِ پاکستان کے سپرد کر یں‘ تاکہ کل کو اگر وہ نہیں آ تے تو آپ کو جان بوجھ کر انہیں باہر بھجوانے کا ذمہ دار قرار نہ دیا جا سکے ۔
سابق وزیر قانون اور سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ ڈاکٹر با بر اعوان نے وزیر اعظم عمران خان سے یہ بھی کہا کہ میری آج کی بات یاد رکھئے گا کہ میاںنواز شریف اور میاں شہباز شریف کبھی بھی اس قسم کا شورٹی/انڈیمنٹی بانڈ حکومتِ پاکستان کے حوالے نہیںکریں گے‘ چاہے یہ ایک سو روپے کے اشٹام پر ہی کیوں نہ دیا جانا ہو۔ یہ فقرہ سنتے ہی وزیر اعظم عمران خان کا چونکنا لازمی امرتھا۔ انہوں نے سوالیہ نظروں سے ڈاکٹر با بر اعوان کی جانب دیکھا تو انہوںنے کہا: سر !دنیا میں کسی بھی ملک سے باہر جانے والا عدالتوں سے سزا یافتہ کوئی مجرم‘ اگر اپنے ملک سے کسی دوسرے ملک جانے کیلئے کسی مجاز عدالت یا متعلقہ حکومت کو شورٹی یا ایڈیمنٹی بانڈ دے دیتا ہے تو اس صورت میں وہ دنیا کے کسی بھی ملک میںسیاسی پناہ حاصل کرنے کا مجاز نہیں رہتا۔کابینہ نے میاںنواز شریف کے بیرون ملک جانے کیلئے شورٹی/ انڈیمنٹی بانڈ کی شکل میں دراصل گارنٹی مانگی‘ جو ضروری تھی‘ جس پرسابق وزیر اعظم کی جانب سے سخت موقف اپنایا گیا کہ وہ نہ بانڈ دیں گے‘ نہ رقم۔سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کا بھی یہی موقف تھا انہیں انڈیمنٹی بانڈ کی شرط کسی صورت منظور نہیں۔اب‘ سوال یہ ہے کہ اگر میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے اہم افراد کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں اور ان کے ذاتی معالج کومیاں نواز شریف کی صحت کے حوالے سے اتنی پریشانی تھی‘ تو ان کی زندگی بچانے کیلئے کسی بھی قسم کی شورٹی یا ایڈیمنٹی بانڈ کے کوئی معانی ہی نہیں ہونے چاہیے تھے۔ پانچ دس ارب کا شورٹی بانڈ یا ایڈیمنٹی بانڈ کی یقین دہانی کروانااتنامسئلہ کیوں بنا اور بقول شریف فیملی کے ‘چونکہ پاکستان میں کہیں بھی ان کا علاج ممکن نہیں‘ لہٰذا ان کیلئے لندن جانا اہم ہونا چاہیے تھا‘ نہ کہ شورٹی اور ایڈ یمنٹی بانڈ۔واضح رہے کہ شریف فیملی نے مذکورہ بالا وجوہ پیش کرتے ہوئے ہی تو اسلام آباد ہائیکورٹ سے نواز شریف کی صحت کی تشویشناک صورت حال کی بنا پر8 ہفتوں کیلئے لندن یا کسی بھی دوسرے ملک جا کر ان کے علاج کرانے کی اجا زت حاصل کی تھی ۔
ایسا لگتا ہے کہ شریف فیملی اور نواز لیگ کی پس پردہ سوچ اور مقاصد کچھ او رہیں ۔ کسی ایسے شخص کو ان تمام شرائط کیلئے خود بھی تیار رہنا چاہیے ‘جو اس نے اپنے اقتدار میں باقی سبھی پر لاگو کر رکھی ہوں۔جنرل پرویز مشرف کومیاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ میں قائم کئے گئے '' غداری کیس‘‘ میں مقدمے کا سامنا تھا اور اس سنگین قسم کے کیس کے باوجود ان کی بیماری کی وجہ سے جب علاج کیلئے باہر بھیجنے کی درخواست کی گئی‘ تو نواز حکومت نے ان سے جو سکیورٹی اور شورٹی بانڈ حاصل لیے تھے‘ اس کے تحت ان کے تمام اکائونٹس‘ ان کا فارم ہائوس ان کا ٹریکٹر؛ حتیٰ کہ ان کے فارم ہائوس میں موجود گائے‘ بھینسیں اور بچھڑے تک اس شورٹی بانڈ کی شرائط کے ساتھ تحریر کئے گئے تھے‘ تب کہیں جا کر انہیں باہر جانے کی اجا زت دی گئی تھی اور یہ سب کچھ کسی اور نے نہیں ‘بلکہ میاں نواز شریف اور ان کی حکومت کے ایما اور دبائو پر کیا گیا۔ اس لیے یہ سوال تو بنتا ہے کہ میاں نواز شریف نے تب یہ شرط کیوں عائد کی تھی۔
دُور نہ جایئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی مثال بھی سب کے سامنے ہے ‘جب وہ علاج کیلئے باہر گئیں تو ان سے کسی نے بھی باہر جانے کیلئے کسی قسم کی گارنٹی لینا منا سب نہ سمجھا اور عدالت کو یہی بتایا گیا کہ وہ کوٹیکنا سمیت اپنے خلاف تمام مقدمات کا سامنا کرنے کیلئے واپس آئیں گی‘ لیکن باہر جاتے ہی وہ اس سے مکر گئیں اور اس وقت واپس آئیں جب کونڈ ولیزا رائس کا جنرل مشرف سے محترمہ کی واپسی کیلئے این آر او فائنل ہو چکا تھا‘ لیکن اس دوران جب محترمہ عدالت سے مسلسل غیر حاضر رہیں تو انہیں ان کی غیر حاضری پر تین برس کی سزا سنائی گئی‘ جو ان کی واپسی پر ختم کی گئی۔ گوکہ پاکستان میں ہر قسم کے علاج کی سہولت موجود ہے‘ لیکن ہو سکتا ہے اس پر نواز لیگ یقین نہ کرے ۔آپ زیا دہ دُور نہ جائیں‘ بلکہ ایک ڈیڑھ سال پرانے اخبارات اور تمام سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز کے آر کائیو میں میاں شہباز شریف کی تقاریر تلاش کریں تو آپ یہ تصدیق کر سکیں گے کہ پاکستان میں ہر مرض کا علاج مو جود ہے۔ اور یہ دعویٰ کسی اور کا نہیں‘ بلکہ میاں نواز شریف کو باہر بھجوانے کیلئے مدعی بننے والے میاںشہباز شریف کی جانب سے کیا گیا تھا۔ جب انہوں نے کاہنہ نو میں اپنے سامنے بیٹھے میڈیا‘ عوامی نمائندوں اور بیورو کریسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی ایسا مرض نہیں‘ جس کا پاکستان بھر میں تو کجا ‘کاہنہ میں تعمیر کئے جانے والے اس ہسپتال میں علاج نہ ہو سکتا ہو!
تب میاں شہباز شریف کہہ رہے تھے کہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے ملک کے برابر ہسپتال جیسی سہولیات کاہنہ نو کے اس ہسپتال میں مہیا کی جا چکی ہیں۔ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ دوست میری اس تحریر یا دعوے سے اتفاق نہ کریں‘ لیکن اس وقت میرے سامنے میاں شہباز شریف کی اس ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر کی جانے والی تقریر کی مکمل ویڈیو موجود ہے‘ جو انہوں نے پنجاب کی تیسری مرتبہ وزارت اعلیٰ کے دور میںکاہنہ میں تعمیر کیا تھا۔سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے لوگوں کا یہ اعتراض اور شہباز حکومت کا تمسخر کسی طور منا سب نہیں کہ پیچیدہ قسم کی بیماریوں کے علاج کیلئے انہوں نے دس یا تیس برس کی حکومتوں میں منا سب ہسپتال ہی نہیں بنایا۔سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے27 اپریل2018ء کو اپنے حلقہ انتخاب کاہنہ نو میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا تھا '' کاہنہ والو! میں نے آج‘ جس ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے اسے آپ کیلئے نذرانہ کیا ہے‘ یہ صرف آپ کیلئے نہیں‘ بلکہ یہ پورے ملک کے پاکستانیوں کیلئے ہے ‘چونکہ جو سہولتیں دنیا کے کسی بھی ہسپتال میں میسر ہیں‘ وہ آج میں نے آپ کے حوالے کر دی ہیں۔ یہ عظیم ہسپتال اس لئے ہے کہ کل کو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمارا پاکستان میں علاج ممکن نہیں ‘اس لئے ہمیں علاج کیلئے باہر بھیجا جائے ۔میں بلا خوف و تردید کہہ رہا ہوں کہ وہ ادویات اور سہولیات ‘جو پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک کی بہو بیٹیوں کو میسر ہیں ‘وہی سہولیات آج کاہنہ نو کے اس ہسپتال میں میسر کر دی گئی ہیں‘‘۔
اس تقریر کو مد نظر رکھتے ہوئے میاں برادران خصوصا ًمیاں شہباز شریف سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ انہوں نے کیو ں کہا کہ ان کے بھائی میاں نوازشریف کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں‘لہٰذا انہیں بیرون ملک علاج کروانے کی اجازت دی جائے اور یہ کہ اب وہ باہر جاتے ہوئے پرویز مشرف کی طرح شورٹی بانڈ کیوں نہیں دے کر گئے؟ایسے ہی سوالات کی بنا پر شورٹی/انڈیمنٹی بانڈ کی بحث کی گونج ابھی تک باقی ہے۔