عوام پریشان ہیں کہ جن چیزوں سے پیٹ بھرتا ہے‘ اُن چیزوں کے دام بڑھانے سے تاجروں کا دل نہیں بھرتا... اور شکایت کہاں جاکے کیجیے کہ انتظامیہ کی مشینری کا کوئی پُرزہ دھیان نہیں دھرتا۔ قوم پیاز اور ٹماٹر کے پھیر میں پڑگئی ہے۔ یہ ڈور ایسی الجھی ہے کہ سلجھنے کا نام نہیں لے رہی...!
ایک طرف بارش نے قیامت ڈھائی تھی اور اب سخت سردی ہے کہ فصلوں کے درپے ہے۔ ایک طرف امیدوں کی فصل ہے‘ جس کے بیج ڈالے جاچکے ‘مگر اُگنے کا نام نہیں لے رہی اور پھر جن کے ہاتھوں میں اقتدار ہے ‘اُن کی بے حسی کی فصل ہے کہ کھیت میں لہریں مار رہی ہے اور زمینی حقیقت کا روپ دھاری ہوئی اناج اور سبزی کی فصلیں ہیں کہ پک بھی جائیں تو ہاتھ نہیں آتیں۔ ان فصلوں کا پھل کوئی اور کھا جاتا ہے اور غریبوں کے ہاتھ میں دام بڑھائی ہوئی چیزیں رہ جاتی ہیں۔
سندھ کا معاملہ کچھ ایسا ہے‘ جیسے کسی نے مسائل اور الجھنوں کو اِس کے گھر کا پتا بتادیا ہے۔ کچھ دن قبل صوبے کے متعدد اضلاع میں کھڑی فصلوں پر ٹڈی دَل حملہ آور ہوئے۔ اس پریشان کن حملے کے سامنے صوبائی حکومت ٹڈی دِل ثابت ہوئی۔ اول تو خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے اور پھر رونا اس بات کا رویا کہ ''کراپ پروٹیکشن‘‘ کا شعبہ‘ اب تک وفاق کے پاس ہے۔ وفاق نے ایسا کچھ دیا ہی نہیں کہ ٹڈی دَل کے حملے روکے جاسکتے۔
یہاں تک تو بات درست تھی۔ حد یہ ہوئی کہ صوبائی وزیر خوراک نے عوام کو مشورہ دیا کہ اگر ٹڈی دَل حملہ آور ہو ہی گئے ہیں تو اُنہیں مزا چکھائیں‘ یعنی اُن کا مزا چکھیں! اسماعیل راہو کا عوام کو مشورہ تھا کہ کسی مصیبت کے نازل ہونے پر پریشان نہ ہوا کریں‘ بلکہ اُس کا تیا پانچا کرڈالیں۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ ٹڈی دَل کی کڑاہی بنائیں۔ جو ستم گر فصلوں سے اپنا پیٹ بھرنے آئے ہیں ‘اُنہیں اپنے پیٹ میں ڈال لیں۔
یہ مشورہ عوام نے سُن تو لیا‘ مگر کانوں سے دِل (یا پیٹ!) میں نہ اُتر سکا۔ اُترے بھی کیسے؟ عوام اقدامات چاہتے ہیں‘ مشورے نہیں۔ اور مشورے بھی وہ جنہیں سن کر دل کی یہ کیفیت ہو جائے کہ ع
جل کے دل خاک ہوا‘ آنکھ سے رویا نہ گیا
عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدگی درکار ہے۔ جگتیں مارنے سے گریز لازم ہے۔ لوگوں کی کھڑی فصلیں تباہ ہو رہی ہوں اور اُن پر نازل ہونے والی مصیبت کے حوالے سے جگتیں ماری جائیں! سِتم ظریفی اور کیا ہوتی ہے؟
سیلاب بڑے پیمانے پر تباہی لاتا ہے۔ کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں‘ بستیاں اُجڑ جاتی ہیں۔ لاکھوں لوگ اِدھر سے اُدھر ہو جاتے ہیں۔ حکومت اچانک امڈ آنے والے ریلوں کے سامنے فوری طور پر کوئی بند بھی نہیں باندھ سکتی مگر خیر‘ ریلیف کے اقدامات تو کرنا ہی پڑتے ہیں۔ اب ایسا تو نہیں ہے کہ سیلاب نے پوری آبادی کو بے گھر کردیا ہو اور حکومت یا انتظامیہ یہ کہتے ہوئے اپنی جان چُھڑائے کہ یہ سب تو قدرت کا کیا دَھرا ہے۔ حالات کے ستائے ہوئے انسانوں کو جب ٹھوس جواز کے ساتھ کی جانے والی کسی شکایت کے جواب میں ایسی کوئی بات سُننے کو ملتی ہے تو ذہنوں میں یہ خیال بے ساختہ ابھرتا ہے کہ ہم پر جنہیں اختیار بخشا گیا ہے وہ بھی تو پھر قدرت ہی کے کیے دَھرے ہوئے۔
مسائل جب ٹڈی دَل کی صورت حملہ آور ہوں تو اُن کے سامنے ڈٹا جاتا ہے۔ اگر خاطر خواہ اقدامات نہ کیے جائیں تو لوگ یہ سمجھنے میں ہر اعتبار سے حق بجانب ہوتے ہیں کہ جنہیں عوامی مسائل کے حل کرنے کا مینڈیٹ اور اختیار بخشا گیا ہے اُن کے سینے میں ٹڈی کا دِل ہے!
باقی ملک کے حالات کا ذکر پھر کبھی سہی۔ سندھ کا یہ حال ہے کہ کئی عشروں سے مسائل کو نظر انداز کرکے توانا کیا جارہا ہے۔ کسی بھی مسئلے کو ابتدائی مرحلے میں حل کرنے پر متوجہ ہوا جائے تو وہ شہ پاکر توانا نہ ہو اور اگلی بار زیادہ دم لگاکر حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ مسائل کو زیادہ سے زیادہ توانا ہوکر منصۂ شہود پر آنے دیا جاتا ہے ‘تاکہ اُن کے سنگین ہونے کا رونا روکر ذمہ داری کو ٹالا جاسکے۔ ٹڈی دَل کا حملہ بلا مبالغہ کسی کے اختیار نہیں ہوتا مگر خیر‘ مزید حملوں سے بچاؤ کی تدابیر تو اختیار کی جاسکتی ہیں۔ جن کسانوں اور زمینداروں کی فصلوں کو نقصان پہنچا ہو‘ اُن کی مدد کرنا تو حکومتی مشینری کا فرض ٹھہرا۔
ٹڈی دَل نے ایک قیامت اور بھی ڈھائی ہے اور وہ قیامت خاصی ذاتی نوعیت کی ہے۔ گھٹنے سے اوپر کا پٹھا چڑھ جانے کے باعث ہم تین دن سے بستر پر دراز ہیں۔ ایک دن تو ایسا گزرا کہ کالم لکھنے میں بھی بڑی دقت محسوس ہوئی اور دفتر فون کرکے بتانا پڑا کہ کالم آئے گا‘ مگر تاخیر سے۔ بھائی سجاد کریم شائستہ مزاج ہیں کہ ہماری تاخیر برداشت کرلیتے ہیں‘ مگر خر سے وہ بذلہ سنج بھی واقع ہوئے ہیں۔ ہم نے بتایا کہ ع
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی ہے!
پھر اُنہیں پٹھا چڑھنے کے بارے میں بتایا۔ خودی کو تو ہم بلند کر نہ سکے۔ پٹھا بلند ہوگیا‘ یہ بھی غنیمت ہے۔ جواب میں بھائی سجاد کریم نے سوال داغ دیا ''کہیں آپ نے ٹڈی دَل کی بریانی تو نوش نہیں فرمائی تھی؟‘‘۔
دیکھا آپ نے؟ فکاہیہ چیزیں لکھنے کا یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ بھائی سجاد نے بہت پیار سے وہی کام کیا‘ جو اسماعیل راہو نے کیا تھا! تلافیٔ مافات کے کھاتے میں بھائی سجاد نے اپنے تین سالہ بیٹے محمد رویفع سے بھی بات کرائی۔ یہ گفتگو کیا تھی‘ ہمیں ورطۂ حیرت میں ڈالنے کا اہتمام تھا۔ ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی ‘جب مُنے میاں نے انتہائی سنجیدگی سے پوچھا ''انکل! ہاؤ آر یو؟‘‘ اچھی بات یہی ہے کہ معصوم بچوں کو (ابوؤں کی طرح) ٹڈی دَل کی کڑاہی اور بریانی وغیرہ کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہو پائے!
اِس سے ایک دن قبل ہم نے بھائی کاظم جعفری سے بات کرکے اُنہیں پٹھا چڑھنے کا بتایا تو اُنہوں نے ایسی غضب ناک سنجیدگی اختیار کی کہ ہمارے دل میں پیدا ہونے والے خوف سے پٹھا مزید چڑھ گیا اور مزید بھی اِتنا کہ ہمارے لیے بستر سے باتھ روم تک کا سفر جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا! گویا ؎
دعا بہار کی مانگی تو اِتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو!
تفنن برطرف ... ہمارا چڑھا ہوا پٹھا آج نہیں تو کل سہی‘ اُتر ہی جائے گا۔ ہمیں تو یہ غم ستاتا رہتا ہے کہ عوام کے نصیب کب جاگیں گے اور ہر سطح کی حکومت پر چڑھا ہوا بے حسی کا رنگ کب اترے گا۔ ع
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
عوام کے نصیب میں لکھے ہوئے بلند نرخ کب نیچے اُتریں گے؟ ستارے تو خیر بہت دور کی چیز ہیں‘ اب تو اِن کم بخت بلند نرخوں پر کمند ڈالنا بھی اِتنا مشکل ہوگیا ہے کہ بڑے دل گُردے والے ہی یہ کام کیا کرتے ہیں!
جن کے ہاتھ میں اقتدار و اختیار ہے اُن سے بس یہی گزارش ہے کہ عوام کے سر سے مسائل کے پوٹلے کا بوجھ کچھ کرنے پر متوجہ ہوں۔ کوئی بھی مسئلہ ٹڈی دَل ثابت ہوسکتاہے ‘اگر ہمارے سینے میں ٹڈی دِل ہوں! لوگ اَدھ مُوئے ہوئے جاتے ہیں۔ ایسے میں جگتوں کی نہیں‘ خلوص سے مزیّن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ؎
بے نیازی حد سے گزری‘ بندہ پرور! کب تلک؟
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے کیا!