تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     21-11-2019

عزیمت اور علاج

نواز شریف،کیا فی الواقعہ بیمار ہیں؟ کیا اُن کی بیرونِ ملک روانگی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے؟ علاج کے لیے سفر، کیا عزیمت کے خلاف ہے؟
ہم سب گمان میں جیتے ہیں، الا یہ کہ ہمارا مشاہدہ، تجربہ یا کوئی قابلِ اعتبار گواہی اُس کا پردہ چاک کر دے۔ میں برسوں عمران خان کے بارے میں ایک اچھے گمان کے حصار میں رہا۔ 2002ء کے انتخابات میں، کئی دن ان کے ساتھ میانوالی کی خاک چھانی۔ 2013ء میں بھی انہیں ووٹ دینے کی نیت کے ساتھ گھر سے نکلا۔ 2014ء کے دھرنے نے مگر گمان کا ہر پردہ چاک کر دیا۔ اس ایک واقعے نے میری رائے کو بدل ڈالا۔
نواز شریف صاحب کے بارے میں بھی، میں ایک گمان رکھتا ہوں۔ میں اس کا بارہا اظہار کر چکا۔ میرا خیال ہے کہ کچھ عرصے سے وہ ایک نئی راہ کے مسافر ہیں۔ واقعات ابھی تک میرے اس گمان کی تائید میں کھڑے ہیں۔ انہیں اس ملک کی سیاست کو درپیش اصل مسئلے کا ادراک ہو چکا اور یہی ان کا بیانیہ ہے۔ اس بیانیے کا عَلم اٹھانے کی ایک قیمت ہے جو وہ تا دمِ تحریر ادا کر رہے ہیں۔ بعض لوگ اس بارے میں متشکک ہیں۔ وہ کچھ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ بنیادی سوال، میں نے کالم کے آغاز میں دھرا دیے۔ اب تک دستیاب معلومات کی بنیاد پر، آئیے، ان کے جواب تلاش کرتے ہیں۔
پہلا سوال، سب سے پہلے: سروسز ہسپتال، شوکت خانم اور آغا خان ہسپتال کے ڈاکٹرز متفق ہیں کہ وہ شدید بیمار ہیں اور ان کے مرض کی تشخیص پاکستان میں ممکن نہیں۔ علاج تو بعد کا مرحلہ ہے۔ عمران خان صاحب سے ڈاکٹر یاسمین راشد تک، اُن کے بد ترین سیاسی مخالفین بھی اپنے اپنے ذرائع سے اس کی تصدیق کر چکے اور اپنی رائے کا برملا اظہار کر چکے۔ ایک شریف آدمی کے لیے، کیا اس کے بعد بھی کسی گواہی کی ضرورت باقی ہے؟
دوسرا سوال: ڈیل کے امکان کو تسلیم کرنے کے لیے ایک فریق ثانی کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ وہ فریق خان صاحب تو نہیں ہیں۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ وہ اس کی قدرت رکھتے ہیں نہ خواہش۔ اب فریق ثانی وہی ہو سکتے ہیں جنہیں مقتدر حلقہ کہا جاتا ہے۔ وہ اگر ڈیل کریں گے تو کس بنیاد پر؟ ڈیل ایک دو طرفہ عمل ہے جس میں ہر فریق دوسرے کی کوئی بات مانتا ہے۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ فریق ثانی نے نواز شریف صاحب کی بات مانتے ہوئے انہیں ملک سے باہر جانے کی آزادی دے دی۔ اب جواب میں میاں صاحب نے کیا دیا؟
اُن کے پاس دینے کے لیے ایک ہی چیز ہے: بیانیہ۔ ان سے یہی مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اسے تج دیں اور اقتدار کے اُس بندوبست کو قبول کر لیں جو برسوں سے جاری ہے اور وہ جسے چیلنج کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اب ووٹ کی عزت کو بھول جائیں۔ اس قبولیت کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ اس بندوبست کا حصہ بن جائیں اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے بارے میں خاموشی اختیار کر لیں۔
اب تک کوئی ایسی شہادت سامنے نہیں آئی جو اس کی تائید کرتی ہو کہ نواز شریف صاحب اپنے بیانیے سے دست بردار ہو گئے ہیں۔ اس باب میں جو آخری بات ان کی زبان سے سنی گئی، وہ عدالت میں کی گئی۔ اس میں ان کا کہنا تھا کہ 'وہ‘ مجھے جھکانا چاہتے ہیں مگر میں اس کے لیے آمادہ نہیں۔ اسی موقع پر انہوں نے اکبر الٰہ آبادی کا شعر بھی سنایا۔ اس کے بعد جو کچھ ہے، محض قیاس آرائی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر انہیں جانے کی اجازت کیوں دی گئی؟
اس کا ایک جواب تو قانونی ہے۔ اُن کو عدالت سے ضمانت ملی اور عدالت بھی عمران خان صاحب کی طرح قائل ہو گئی کہ وہ شدید بیمار ہیں۔ جب یہ بات طے ہو گئی کہ ان کا پاکستان میں علاج ممکن نہیں تو بنیادی حقوق کا تقاضا تھا کہ انہیں علاج کے لیے باہر جانے دیا جاتا۔ حکومت انہیں روکتی تو اس کا فیصلہ عدالت میں چیلنج ہو جاتا۔ جیسے اُس وقت ہوا جب حکومت نے ان کے سفر کو مشروط بنانے کی کوشش کی۔ گویا جو کچھ ہوا، وہ قانون کے تقاضوں کے پیشِ نظر ہوا۔
اس کا دوسرا پہلو سیاسی ہے۔ نواز شریف کا جیل میںگزرا ایک ایک دن اُن کے مخالفین پر بھاری تھا۔ ان کی استقامت اور مظلومیت نے ان کے حق میں ہمدردی کی ایک لہر اٹھا دی جو سارے پاکستان میں پھیل چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا اگر اسلام آباد کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع بن گیا تو اس میں اُس ہمدردی کا کردار بنیادی ہے۔ اس کا کوئی تعلق نون لیگ کی بطور جماعت شرکت سے نہیں ہے۔ سماجی سطح پر جب کوئی تاثر پھیل جاتا ہے تو وہ کسی سیاسی نظم کا پابند نہیں رہتا۔
ملک کی اصل حکمران قوتوں کو اس کا اندازہ ہو چلا تھا کہ نواز شریف کو زیادہ عرصہ پابندِ سلاسل رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس سیاسی بندوبست کا مستقبل خطرات میں گھر جائے جو 2018ء کے انتخابی تجربے کے نتیجے میں قائم کیا گیا ہے۔ اب پنجاب میں بھی وہ نعرے سنائی دینے لگے تھے جو کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ تھے۔ اس کا گہرا تعلق نواز شریف صاحب کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک تھا۔ اس پہ مستزاد حکومت کی کارکردگی۔ وہ اگر بہتر ہوتی تو عوام کو مطمئن کیا جا سکتا تھا۔ جو یہ بھی نہ ہو سکا تو مقتدر حلقوں کے لیے بھی معاملات کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔
اس صورتِ حال نے مقتدر حلقوں کو مجبور کیا کہ وہ کسی ایسے حل کی طرف بڑھیں جس کے نتیجے میں نواز شریف صاحب کا علاج ہو اور ان کی مظلومیت کا تاثر کم ہو جو عوامی غصے کی ایک بڑی لہر میں ڈھل چکا تھا۔ اسے ضبط کے کناروں میں رکھنا خود اس سیاسی بندوبست کی بقا کا تقاضا تھا۔ یہاں معلوم ہوتا ہے کہ شہباز شریف صاحب ان قوتوں کی مدد کو آئے اور نواز شریف ملک سے باہر جانے پر آمادہ ہو گئے۔ اس آمادگی کے پیچھے رشتوں اور ان سے وابستہ جذبات کا بھی ایک کردار ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اب آئیے تیسرے سوال کی طرف۔ بیماری کا علاج کرانا کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ عزیمت کے خلاف ہے۔ نواز شریف صاحب نے پہلے دن سے خود کو قانون اور عدالت کے سامنے پیش کیا۔ چوہدری نثار علی بھی ان کو مشورہ دیتے رہے کہ وہ جے آئی ٹی کے سامنے نہ جائیں لیکن وہ گئے۔ شدید شکایات کے باوجود انہوں نے اپنا مقدمہ عدالت میں لڑا۔ اب بھی اگر وہ ملک سے باہر گئے ہیں تو عدالت کی وجہ سے۔ حکومت سے انہوں نے کوئی ایسی رعایت نہیں مانگی جو ماورائے قانون ہو۔ جب تک ان کا معاملہ براہ راست حکومت یا مقتدر قوتوں کے ساتھ رہا، نواز شریف نے انسانی رشتوں اور ان کے جذبات کو نظر انداز کیا۔
عمران خان صاحب نے بھی ہر ممکن طریقے سے ان کی تذلیل کرنا چاہی۔ امریکہ کے جلسے میں انہوں نے جو کچھ کہا، وہ ساری دنیا نے سنا۔ اب تو ان کے حامی بھی مان چکے کہ وہ انتقام کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ اتوار کو انہوں نے جس لب و لہجے میں خطاب کیا، وہ بتا رہا تھا کہ یہ دھواں کہاں سے اٹھ رہا ہے۔ تاریخ نے انہیں اسی جگہ لا کھڑا کیا ہے جہاں نواز شریف کھڑے تھے، لیکن اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔ کہنا یہ ہے کہ نواز شریف نے حکومت سے کوئی رعایت نہیں چاہی۔ ان کے کندھوں پر حکومت کا کوئی احسان نہیں۔ اسی کا نام عزیمت ہے۔
ان کی بیماری کے حوالے سے میری رائے یہی تھی اور اب بھی یہی ہے کہ اگر ان کا علاج یہاں ممکن ہے تو انہیں ملک سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ جب یہ معلوم ہو گیا کہ یہاں علاج نہیں ہو سکتا تو ان کا جانا ایک مجبوری ہے۔ علاج نہ کرانا خود کشی ہے، کوئی عزیمت نہیں۔ سرِدست معلومات کی بنیاد پر میرا گمان یہی ہے کہ نواز شریف اپنی عزتِ نفس کی حفاظت کرتے ہوئے علاج کے لیے گئے ہیں۔ اس مقدمے کی تردید میں کوئی قابلِ ذکر دلیل میری نظر سے نہیں گزری۔ جو کچھ کہا جا رہا ہے، وہ ژولیدہ فکری کے سوا کچھ نہیں۔
اُن کے بیانیے کا مستقبل کیا ہے اور کیا شہباز شریف اس کا بوجھ اٹھا سکیں گے، اس سوال کو میں انشااللہ الگ سے موضوع بناؤں گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved