تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     21-11-2019

کامیابی کے اصول

کامیابی کے اصول کیا ہیں ؟ انسان کس طرح کامران ہو سکتاہے ؟ رہنمائی کون کرے گا ؟ پہلے کچھ اورگزارشات۔
چالیس پچاس ہزار سال پہلے کی بات ہے ‘ جب انسان نے اس زمین پر ہوش کی آنکھ کھولی ۔ ان سب انسانوں کی عقل ایک جیسی نہیں تھی ۔سینکڑوں ہزاروں لوگوں میں سے ایک آدھ ایسا ضرور تھا ‘ جس کا انتباہ بعد میں سچ ثابت ہوتا۔پیشین گوئی سچ نکلنے پر اپنے اپنے قبیلے میں ایسے لوگوں کی دھاک بیٹھ جاتی تھی ۔ انسانی دماغ اس طرح سے کام کرتاہے کہ ایک دفعہ جس سے وہ مرعوب ہو جائے‘جس کی کچھ باتیں سچ ثابت ہو جائیں‘ اس کی ہر بات کو وہ بہت زیادہ اہمیت دیتاہے ۔اس زمانے میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تو دور کی بات‘ پرنٹنگ پریس بھی نہیں تھا۔ کاغذ بھی نہیں تھا کہ انسان اپنے دماغ پر وارد ہونے والے خیالات کو فوراً لکھ کر محفوظ کر لے۔یوں اَن گنت انتہائی قیمتی تصورات دانشوروں کے دماغ سے محو بھی ہوتے رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا‘ جب انسان فصیح نہیں تھا۔ زبانیں ابھی تشکیل پا رہی تھیں ۔
کسی حد تک زبانوں کی تشکیل آپ آج بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ وہ بچّہ جو نیا نیا بولنا سیکھ رہا ہو۔ اس بیچارے کے پاس الفاظ کی شدید کمی ہوتی ہے ۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ گاڑی کا دروازہ کھولو‘ بلکہ کہتا ہے کہ گاڑی کھولو۔ اسی طرح ''مالٹا چھیلو ‘‘ کی بجائے وہ مالٹا بھی ''کھولنے ‘‘ کاحکم صادر کرتا ہے ۔ گوشت کسی بھی جانور کا ہو‘ وہ اسے ''بوٹی ‘‘ ہی کہتا ہے ۔ ہر بچّے کے نزدیک درجنوں افراد ایسے ہوتے ہیں ‘ جو اسے زبان سیکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ آپ اس انسان کی تہی دامنی کا تصور کریں ‘ جس میں زبان کے جینز تخلیق ہو چکے تھے ‘لیکن ابھی وہ الفاظ تشکیل دے رہا تھا ۔یہ ہزاروں برسوں پر مشتمل ایک عمل تھا ۔ انسان میں زبان کے جینز نہ تخلیق کیے جانے کے بعد دنیا کے ہر خطے میں انسانوں نے اپنی ایک الگ زبان تشکیل دی ۔ 
یہ وہ وقت تھا ‘ جب انتہائی بڑے پیمانے پر ڈیٹا ضائع ہو رہا تھا۔ شروع شروع میں ‘ جب انسان خود کو سنبھالنے کے قابل نہیں تھا تو قدم قدم پر اسے الوہی رہنمائی میسر آتی تھی ۔ انسانی نگاہوں نے بہت کچھ دیکھ رکھا تھا‘ مگر بے شمار سخن ہائے گفتنی خوفِ فسادِ خلق سے بھی ناگفتہ رہ گئے ۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسان جو کچھ جانتا ہے ‘اکثر اوقات وہ اس قدر بھیانک ہوتاہے کہ اسے بیان نہیں جا سکتا ۔ سیاست دان ‘ افسر شاہی اور فوج کے لوگ اپنے اندرونی حلقوں میں جو کچھ ڈسکس کرتے ہیں ‘ میڈیا میں تو اس کا دس فیصد بھی نہیں آتا ۔
عام لوگوں کا سچ اور ہے ‘ خاص لوگوں کا بالکل مختلف۔ عام لوگ جذباتی باتوں کو پسند کرتے ہیں‘ عقل کی بات کو نہیں ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پہلے افتخار چوہدری اور بعد میں جنرل راحیل شریف نے اپنے جذباتی بیانات سے کیسی فضا ملک میں پیدا کر دی تھی ۔ اس دوران‘ جو وعدے اور جو نعرے لگتے رہے ‘جن پر ہر بندہ دل و جان سے ایمان لے آیا تھا‘ ان میں سے ایک فیصد پر بھی بعد میں عمل درآمد نہ ہوا ۔ہو سکتا ہی نہیں تھا ‘ پھر بھی پوری قوم کافی دیر تک ان حضرات کے جھنڈے لہراتی رہی ‘ کیونکہ لوگ جذباتی باتوں کو پسند کرتے ہیں۔ 
دوسری طرف روحانیت سے متعلق معاملات ہیں ‘ جسے انسان کی روح ہی محسوس کرسکتی ہے‘ اس کے ثبوت پیش نہیں کیے جا سکتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو عقل دے کر خدا نے خود حجاب میں رہنا پسند کیا ۔انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے عبادت کی اور میرا وزن دو کلو بڑھ گیا ۔جو شخص خدا پہ ایمان نہیں رکھتا‘ اسے آپ کیا حج اور حفظ کی روحانی جہات بتائیں گے۔ وہ تو یہ کہہ کر آگے بڑھ جائے گا کہ مولوی صاحب میں فلاں اور فلاں خرابیاں ہیں ‘ جو کہ واقعتاً اس میں موجود ہیں ۔ 
بات لمبی ہو گئی ۔ خیر پرانے زمانے میں انسان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ موجود نہیں تھا‘ جس سے وہ اپنی دانشمندی کی باتیں دور دور تک پھیلا سکے۔ پچھلی ایک ڈیڑھ صدی میں صورتِ حال تبدیل ہو کر رہ گئی ہے ۔ پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا۔ انٹرنیٹ‘ آواز اور ویڈیو کی ریکارڈنگ اور سوشل میڈیا ۔ پہلے لوگ دوردراز کے سفر طے کر کے کسی عقل و دانش رکھنے والے شخص سے علم حاصل کرنے جایا کرتے تھے ۔ آج ہر بندہ سقراط بنا بیٹھا ہے ۔ آپ یہ دیکھیں کہ اظہارِ خیال کرنے والے لوگ اب برساتی کیڑوں کی طرح باہر نکل آئے ہیں ۔ ان کی باتوں پر سر دھننے والے بھی ؛البتہ اس میں فائدہ مند علم کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ الٹا غیر محتاط اظہارِ خیال کی وجہ سے ہر جگہ فساد ہی فساد ہے ۔ سیاسی اور مذہبی نظریات کی بنیاد پرایک دوسرے کی غیر ضروری تذلیل بھی عام ہے ۔
سرکارﷺ نے فرمایا تھا : من صمت قد نجا۔ جو خاموش رہا‘ اس نے نجات پائی۔ ہر معاملے پر اپنی رائے شتابی سے پیش کرنے اور پھر اس پر دوسروں سے اپنی چھترول کروانے میں کیا مزہ آتا ہے ‘مجھے اس بات کی کبھی سمجھ نہیں آئی ۔ اگر تو ایک شخص صحافی ہے ‘ رائے عامہ کی تشکیل اس کا پیشہ ہے تو پھر تو بات سمجھ میں آتی ہے ‘لیکن وہ لوگ بھی روزانہ کی بنیاد پر باہمی چھترول میں مصروف رہتے ہیں‘ جنہیں اس کی کوئی تنخواہ نہیں ملتی ۔ 
سوال یہ تھا کہ کامیابی کیسے حاصل کی جائے ؟ مارکیٹ میں کتابیں موجود ہیں : کامیابی کے چھ اصول ۔ مشہور شخصیات اپنی کامیابی کے گُر بتاتی ہیں ۔ یہ سب اصول غلط ہیں ۔ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں ‘ جو شہرت‘ دولت اور کامیابی کے عروج پر پہنچے‘ لیکن بعد میں آہستہ آہستہ وہ صفر ہو تے چلے گئے۔ اصل میں یہ عروج وزوال کے مراحل ہوتے ہیں ‘ جو مختلف لوگوں پر‘ مختلف قوموں پر آتے ہیں۔ یہ تو خیر سفید جھوٹ ہے کہ آپ گھر بستر پر آرام کرتے رہیں اور آپ کے مسائل خودبخود حل ہونا شروع ہو جائیں ‘ لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب خدا نے کسی مسئلے کو حل کرنا ہوتاہے تو وہ اپنے اس بندے کو اس مسئلے کا حل سجھا دیتاہے اور اس حل کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی توفیق بھی اس کے دل پہ نازل کر دیتاہے ۔ 
کامیابی کے جو اصول کتابوں میں پڑھائے جاتے ہیں ‘ وہ درست نہیں ۔دنیا میں ہر شخص کی ایک منفرد(Unique)پوزیشن ہے ۔ uniqueحالات ہیں ۔ اس کے مطابق‘ اسے تگ و تاز کرنا ہوتی ہے ‘مثلاً: ایک کامیاب شخص کہتاہے کہ میں روزانہ صبح اٹھ کر آدھا گھنٹہ ورزش کرتا ہوں ۔ اب ایک ایسا بندہ ‘ پیدائشی طور پر جس کی ٹانگیں اور بازو سرے سے موجود ہی نہیں ‘ وہ کیا اس اصول پر عمل کرے گا‘ اسی طرح ایک بندہ ‘ جو شدید غربت سے نکل کر شدید جدوجہد کے مراحل طے کرتا ہوا امارت تک پہنچا‘ وہ اپنے بیٹے کو کیسے اس راستے پر چلا سکتاہے ‘ جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا ۔ ہر شخص کے والدین مختلف ہیں ‘ بہن بھائی مختلف ہیں ‘ دماغ کی صلاحیت مختلف ہے ‘ حالات مختلف ہیں ‘ اساتذہ مختلف ہیں ۔ اس لیے ہر بندے کی زندگی مختلف ہے ۔میں تو یہ کہتا ہوں کہ زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ بات درست ہے کہ آپ نے جس مقام پر پہنچنا ہوتاہے ‘ آپ پہنچ چکے ہیں ۔کم ہی لوگ ہوتے ہیں ‘ جو بڑی عمر میں جا کر کسی انقلابی تبدیلی اور کامیابی سے روشناس ہوتے ہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved