ریاستوں کے درمیان سرحدی جھگڑے ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں ‘ تاہم بھارت کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ موجودہ تنازعات کے پس منظر میں بہت سے امور پیش پیش ہیں۔نیپال کی وزارت ِخارجہ نے چھ نومبر کو پریس ریلیز جاری کی ‘جس میں کہا گیاکہ کالا پانی نیپال کا حصہ ہے۔نیپال کی حکومتی پارٹی اور حزب ِاختلاف کی جانب سے بیان کا خیر مقدم کیا گیا۔مسئلہ نیپالی سوشل میڈیا پر زور پکڑتا چلا گیا۔بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کو اپنے زیر انتظام علاقے بنانے کے بعد نیا نقشہ جاری کیا گیا تھا۔ نیپالی وزیر اعظم نے گزشتہ روز اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ''حکومت اس سرحدی تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرے گی۔ غیر ملکی فوجیں ہماری سرزمین سے واپس جائیں۔ اپنی زمین کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے‘اگر ہم کسی اور کی زمین نہیں چاہتے تو ہمارے ہمسایہ ممالک کو بھی ہماری سرزمین سے فوجیوں کو واپس بلانا چاہیے۔کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ نقشے کو درست کرنا چاہیے‘ یہ ہم بھی کر سکتے ہیںاور یہیں پر کرسکتے ہیں۔ یہ نقشے کی بات نہیں ‘ معاملہ اپنی زمین واپس لینے کا ہے‘ ہماری حکومت زمین واپس لے گی۔ نقشہ تو پریس میں پرنٹ ہو جائے گا‘ لیکن یہ معاملہ نقشہ چھاپنے کا نہیں ہے۔نیپال اپنی سرزمین واپس لینے کا اہل ہے‘ ہم نے ساتھ مل کر یہ مسئلہ اٹھایا ہے اور یہ ساتھ بہت اہم ہے‘‘۔
کالا پانی بھارت کی ریاست اتراکھنڈ کے پتھوڑا گڑھ ضلع میں 35 مربع کلومیٹر اراضی پر محیط ہے۔ یہاں ''انڈو تبت‘ ‘سرحدی پولیس کے اہلکار تعینات ہیں۔ انڈین ریاست اتراکھنڈ کی سرحد نیپال سے 80.5 کلومیٹر اور چین سے 344 کلومیٹر تک ملتی ہے۔نیپال جو کہ اطراف میں پہاڑوں سے گھرا ہواہے‘ صرف بھارت کے ساتھ ہی کاروبار کر سکتا ہے اور اپنے کمزور سرحدی انتظام کی وجہ سے بائیں بازو کی تنظیموں اور ہندو گروہوں پر مکمل نظر نہیں رکھ سکتا‘ جو کھلم کھلا اپنے نظریات کو سرحدوں کے پار پھیلاتے ہیں اور اپنے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کر رہے ہیں۔دریائے کالی کا آغاز کالا پانی سے ہوتا ہے‘ بھارت نے اس دریا کو بھی نئے نقشے میں شامل کیا ہے۔ 1816 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور نیپال کے مابین سگولی معاہدہ ہوا تھا۔ اس وقت دریائے کالی کی مغربی سرحد پر مشرقی انڈیا اور نیپال کے مابین نشاندہی کی گئی تھی ۔ جب 1962ء میں بھارت اور چین کے مابین جنگ ہوئی تو بھارتی فوج نے کالا پانی میں ایک چوکی تعمیر کی تھی۔نیپالی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہند- چین جنگ سے قبل نیپال نے 1961ء میں یہاں مردم شماری کروائی تھی ‘بھارت کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔دوسری طرف کالا پانی میں بھارت کی موجودگی سگولی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دی جارہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی تنازعے کی بنیاد پر ہی وجۂ نزاع ہے۔ دونوں ممالک نے اقوام متحدہ کی قرار داد کے تحت رضا مندی کا اظہار کیا تھا‘ تاہم بھارت ہمیشہ کی طرح اپنے اس معاہدے کی پاسداری سے منحرف ہو گیا۔صرف یہی نہیں آئے روز سرحدی علاقوں میں کشیدہ صورتحال کا ذمہ دار بھی ہے جہاں تک آسام اور تری پورہ کی علیحدگی پسند تحریک کا تعلق ہے ‘وہاں کے رہنے والے لوگ مختلف المذاہب معاشرے کا حصہ ہیں ‘ یہ علاقے بنگلہ دیش سے ملحق ہیں۔ بنگلہ دیش ‘جس کی ایک لمبی سرحد ہندوستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے‘ کا ماسوائے 140ایکڑ دریائی جزیرے کے کوئی بڑا سرحدی تنازع نہیں ہے ۔ اس پر بھی دونوں ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے۔ بنگلہ دیش کی میانمار کے ساتھ پانی کی سرحد ہے ‘جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ہندوستان ان ریاستوں کے درمیان تنازعات کھڑا کر سکتا ہے۔جنوری 2009ء میں ہندوستانی جہاز نے گیس اور تیل کی تلاش کے لیے سروے کیا تھا‘ اسی طرح نومبر2008ء میںمیانمار نے بھی سروے کا کا م کیا تھا‘ جس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میںمعاملہ سنگینی کا شکارہوگا۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیا ن اہم مسائل میںسرحدوں کے آر پار لوگوں کی ہجرت کے امور ہیں۔عموماً یہ امیگریشن سرحدوں کے دونوں اطراف میں رہنے والوں کے عزیز و اقارب کے درمیان ہوتی ہے۔ آسام‘ تری پورہ‘ بودو لینڈ اورمغالی کے علیحدگی پسند سرحدوں کے آر پار آسانی سے آتے جاتے ہیں۔ مزید برآں بنگلہ دیش میں چٹاگانگ ہل ٹریک کے ساتھ بد امنی جو بالآخر 1997ء میں ایک معاہدے کی رو سے اپنے اختتام کو پہنچی تھی‘ ایک بار پھر سراٹھانے لگی ہے‘اسی طرح میانمار کے علیحدگی پسند روہنگیا مسلمان بھی بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان ایک سرد جنگ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
چین‘ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دنیا کے سب سے لمبے سرحدی مسائل ہیں۔ ان تنازعات کی وجہ سے کئی جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔چین اوربھارت کے درمیان صوبہ ارونا چل پردیش اور اقصائے چین جو مقبوضہ کشمیرکے شمالی علاقے میں واقع ہے‘ کی وجہ سے پرانے تنازعات چلے آ رہے ہیں‘ لیکن مذکورہ سرحدوں کو علیحدگی پسند تحریکوںکا سامنا نہیں ہے۔بھارت اور بھوٹان کے درمیان بھی گداز سرحد ہے‘ جو کہ کمزور کمان کے درمیان دوڑ رہی ہے۔ بھارت کئی مرتبہ بھوٹان پر الزام لگا چکا کہ اس نے اپنی سرزمین پر تخریب کاروں کو تربیت دینے کے لیے کیمپ کھول رکھے ہیں‘ جو کہ ہندوستان میں کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ نیپالی نسل کے لوگ ریاست کے لیے مسلسل خطرات کا باعث بنے رہتے ہیں ۔ بھارت کو میانمار کے خلاف بھی ایسی ہی شکایات ہیں ‘جس کی 334کلو میٹرطویل سرحد ہندوستان سے ملتی ہے۔