تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     23-11-2019

سیاست پیچیدہ مراحل میں داخل

ہماری ارتقا پذیرسیاست میں مزاحمت کا استعارہ سمجھے جانے والے سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف علاج کی غرض سے لندن سدھار گئے ہیں۔انہیں احتساب کی دو عدالتوں نے ایون فیلڈ ریفرنس اور العزیزیہ سٹیل ملزکیس میں بالترتیب دس اور آٹھ سال قید کی سزا سنائی۔انہیں چوہدری شوگرملز کیس میں تفتیش کے لیے جیل سے نکال کے بیس روزہ ریمانڈ پر احتساب ادار ے کے حوالے بھی کیا گیا‘جہاں اچانک طبیعت بگڑ جانے کے باعث انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کرنا پڑا‘جہاںسرکاری ہسپتال کے میڈیکل بورڈ نے انہیں علاج کی غرض سے لندن ریفر کر دیا۔حکومت نے نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کو سات ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈ کے ساتھ مشروط کرنا چاہا‘ مگر لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے حکومت کے تراشیدہ قواعد وضوابط میں ضروری رد و بدل کر کے انہیں شخصی ضمانت پہ چار ہفتوں کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی۔لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے نوازشریف کو علاج معالجے کی خاطر باہر جانے کی راہ میں حائل طریقہ کار کی رکاوٹیں دور کر کے طاقت کے مراکز کو غالباً یہی پیغام دیا ہو گا کہ سیاسی معاملات کا راستہ اب نظامِ عدل سے نہیں گزر ے گا۔اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی العزیزیہ ریفرنس کیس میں طبی بنیادوں پہ نوازشریف کو آٹھ ہفتوں کی ضمانت دے کر اپنے کندھوں سے سیاسی تنازعات کا بوجھ اتارنے کی کوشش کی تھی۔اسی ملفوف پیغام کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے ہزارہ موٹر وے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران سپریم کورٹ کے موجودہ اور متوقع چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے انہیںطاقتور اور کمزور کے لیے انصاف کے الگ الگ پیمانوںکے تاثر کو ختم کرنے کا مشورہ دیا‘جس کے جواب میں اگلے روز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نہایت نپے تلے الفاظ میں ردعمل دیتے ہوئے فرمایاکہ قانون کی نظر میں طاقتور اور کمزور یکساں ہیں۔2009ء کے بعد کی عدلیہ‘جس نے ایک وزیراعظم(یوسف رضا گیلانی) کو توہین عدالت کے مقدمے میں سزا سنائی اور دوسرے (نوازشریف)کواثاثے چھپانے کی پاداش میں نااہل کرنے کے علاوہ اب سابق آرمی چیف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے جا رہی ہے‘ماضی کی جوڈیشری سے یکسر مختلف ہے‘لہٰذا عدالتوں کے بارے لب کشائی میںاحتیاط برتی جائے۔
بیشک سیاسی وقانونی دائروں کے اندر نہایت تیزی کے ساتھ رونما ہونے والی اس پراسرار پیش رفت نے مسلم لیگ (ن) کو طاقتور سیاسی قوت کے طور پہ نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے‘ بلکہ اسی سیاسی و قانونی جنگ کے تال میل نے ریاستی اداروں کوآئینی اصولوں کی پاسداری کا حوصلہ دے کر سیاسی بساط پہ طاقت کی حکمرانی کے لیے جگہ کم کر دی ہے۔اگرچہ آمریتوں کے ہاتھوں پے در پے شکستیں کھانے والے سماج کو فی الحال اس انہونی کے وقوع پذیر ہونے کا یقین دلانا مشکل ہو گا اور اب بھی لوگ اس پیش رفت کو ڈیل یا ڈھیل کی فرسودہ اصطلاحوں سے ماورا سمجھنے کی سکت نہیں رکھتے‘ لیکن حقیقت یہی ہے کہ مسلم لیگ نے نوازشریف کو سیاسی تادیب کے چنگل سے آزاد کرا لیا ہے۔آج سے چند ماہ قبل جب مریم نواز نے ہنگامی پریس کانفرنس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ اقبالی ویڈیو کو افشا کرتے ہوئے نہایت وثوق سے کہا تھا کہ ہم نوازشریف کو مرسی نہیں بننے دیں گے تو اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ناتواں خاتون اس طرح راہ میں حائل ہو جائے گی۔ عین ممکن ہے کہ اب شاہد خاقان عباسی‘رانا ثنا اللہ اورحمزہ شہباز اور خواجہ برادران کو بھی جلد رہائی مل جائے‘ کیونکہ اب انہیں پا بہ زنجیر رکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔نوازشریف کا ڈھیل اور ڈیل کے بغیر سیاسی پنجہ ٔاستبداد سے نکل جانا جہاں بساطِ سیاست پہ طاقت کے توازن کا پتہ دیتا ہے‘ وہاں یہی پیش دستی خود مسلم لیگ کے سیاسی ڈھانچے میں کئی غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموار کردے گی۔ تاہم اس امر کا امکان اس سوال سے جڑا ہوا ہے کہ کیا نوازشریف کی رہائی کے بعد مریم نواز کا کام ختم ہوجائے گایا وہ بدستور سیاسی عمل کا حصہ رہیں گی؟بہرحال اس وقت ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پہ سب سے بامعنی تبصرہ صدر پاکستان جناب عارف علوی نے کیاکہ''ملک پیچیدہ سیاسی حالات میں داخل ہو گیا ہے‘‘۔اس کا مطلب ہے مملکت میں سیاسی تبدیلی کے روایتی طور طریقے متروک ہو چکے ہیں۔ آزادی کے فوری بعد براہ راست فوجی مداخلت کے ذریعے سیاسی تبدیلی کی جو روایت ڈالی گئی 1988 ء تک قوم ان آمریتوںکے تسلط سے اُکتا چکی تھی‘ تاہم جنرل ضیا الحق کی ناگہانی موت کے بعد اُبھرنے والی نومنتخب لیڈر شپ نے جب اپنی تنگ نظری کی بدولت جمہوری سسٹم کو وقفِ اضطراب کیا تو ہمارا سماج جمہوریت سے مایوس ہونے لگا۔جمہوری حکومتوں کی کم مائیگی اورعالمی طاقتوں کے مفادات کے تقاضوں نے اکتوبر انیس سو ننانوے میں ایک بار پھر جنرل مشرف کو براہ راست مداخلت کر کے سیاسی تبدیلی کی راہ ہموار بنانے کا موقعہ دیا‘ لیکن پرویزمشرف کے بعد عہدِ جدید کی فسوں کاری نے زندگی اور جنگ‘دونوں کو زیادہ پیچیدہ بنا دیا؛چنانچہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کی حرکیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وسعت نے سیاسی عمل میں براہ راست فوجی مداخلت کے امکانات کوتقریباً ختم کر دیا تو پاور پالیٹکس کو نظام عدل کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کی راہیں تراش لی گئیں‘ لیکن سوشل میڈیا کے موجودہ عہد میں نظام عدل کے لیے بھی سیاسی تغیرات کا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں رہا‘لہٰذا آئینی طریقوںکے سوا سیاسی تبدیلی کی کوئی راہ باقی نہیں بچی۔شاید اسی لیے اب سیاسی نظام پہ مقتدر حلقوں کی گرفت کمزوراورطاقت کا توازن ایک بار پھر مقبول سیاسی لیڈر شپ کی طرف جھکتا دکھائی دے گا۔
اُدھر طاقت کے مراکز سے وابستہ مذہبی گروپوں کی فیصلہ سازی کے عمل پہ اثر انداز ہونے کی قوت کم ہونے سے سماجی آزادیوں کی راہیں کشادہ ہونے لگی ہیں۔مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا انجام اسی تغیر کی نمایاں مثال تھی۔یہ کیسے ممکن تھا کہ ملکی مقتدرہ اورعالمی برادری سیاسی نظام پہ کسی مذہبی جماعت کی حتمی بالادستی تسلیم کر لیتی۔اس وقت عالمی طاقتیںکشمیر سے لے کر افغانستان اور عراق سے لے کر لیبیا‘شام اور لبنان تک کسی بھی جگہ مذہبی قوتوںکے استبدادکو برادشت نہیں کرسکتیں؛چنانچہ مقتدرہ نے سول سوسائٹی کے تعاون اور سوشل میڈیا کی سائنس کے ذریعے مولانا فضل الرحمٰن کی حکومت مخالف تحریک کو مذہبی عصبیتوں سے طاقت کشیدکرنے سے روک لیا۔ہمارے سماج نے مولانا کو برداشت‘تحمل اورمتوازن جمہوری رویہ اپنانے پہ ستائش سے مخمور رکھا‘بہرحال یہ ایک مشکل ٹاسک تھا لیکن ہماری ریاستی مقتدرہ نے انتہائی نفاست کے ساتھ مولانا کو سنبھال کر نہایت پرامن انداز میں اس نازک مرحلے کو سر کرلیا۔بلاشبہ زندگی کے کھیل میں کچھ ایسے قوانین بھی ہونے چاہئیں جنہیں وہ بھی تسلیم کریں جو ان کی خلاف وردی کرتے ہیں۔امید ہے اب ریاستی ادارے ہموار جمہوری عمل کے ذریعے سیاسی تبدیلیوں کی راہیں کھلی رکھیںگے۔بہرکیف اس امر میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتاکہ موجودہ حکومت عوامی توقعات پہ پورا نہیں اتر سکی‘ لیکن سیاسی تبدیلی کے لیے کسی غیرفطری یا غیرآئینی طریقے کی حمایت بھی نہیں کی جا سکتی‘اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ اپوزیشن آئینی طریقوں کے ذریعے ہی پہلے پنجاب اور پھر مرکز میںعدم اعتمادکی تحریکیں لا کے حکومت بدلنے کی کوشش کرے گی‘ بصورت دیگر وزیراعظم کی مرضی سے مڈٹرم الیکشن کے سوا تغیر وتبدل کی کوئی راہ باقی نہیں بچتی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved