سوشل میڈیا‘میڈیکل اور سائنسی ویب سائٹس پر ایک تحقیق زیرِ بحث ہے ۔ اس تحقیق میں مختلف ممالک میں مختلف مواقع پر ڈاکٹر حضرات کی ہڑتالوں کا شرحِ اموات پر اثر دیکھا گیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب ڈاکٹر ز ہڑتال پر ہوں تو شرح اموات میں اضافہ ہو جائے ۔ ہوا مگر یہ کہ پانچ مختلف ہڑتالوں میں جب ڈیٹاکا جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا کہ شرح اموات یا تو اتنی ہی رہی یا اس میں اضافے کی بجائے قدرے کمی دیکھی گئی ۔( ہمارے سوشل میڈیا پریہ اعداد و شمار مرچ مصالحہ لگا کر شیئر کیے جا رہے ہیں )۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ زندہ رہنا چاہتے ہو تو ڈاکٹرز کی پہنچ سے دور رہو ۔اگر آپ بیمار ہیں تو ڈاکٹر کے پاس نہ جائیں ۔ گھر بیٹھے رہیں‘ اللہ آپ کو گھربیٹھے شفایاب کر دے گا ‘ میڈیکل سائنس ایک نعمت نہیں بلکہ ایک خطرہ ہے ۔ جو لوگ اس تحقیق کو پڑھ کر جوش و جذبے سے پھیلا رہے ہیں ‘ وہ اسے بالکل بھی سمجھ نہیں سکے ۔ اگر آپ بھی اس کارِ خیر میں شریک ہیں تو عین ممکن ہے کہ ایک شدید بیمار شخص کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہو مگر وہ آپ کے دیے گئے بھاشن کے زیرِ اثر گھر پڑا پڑا ہی فوت ہو جائے‘لہٰذا ہاتھ ہولا رکھیں اور اس کالم کو ایک دفعہ پڑھ لیں۔
ہسپتال کا وہ حصہ جہاں مریضوں کی ایک بڑی تعداد زندگی اور موت کی جنگ لڑتی ہے اسے ''ایمرجنسی‘‘ کہتے ہیں ۔ اس تحقیق میں امریکہ سمیت جن ممالک میں ڈاکٹرز نے ہڑتال کی ‘ ان سب کیسز میں ایمرجنسی بدستور کام کر رہی تھی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب ترقی یافتہ ممالک تھے۔ اس ہڑتال کا دورانیہ چند دنوں سے چند ہفتوں پہ محیط تھا ۔ جب ایک شخص کے سر پہ چوٹ لگتی ہے یا وہ ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہوتاہے تو زندگی بچانے کی یہ جنگ ایمر جنسی ہی میں لڑی جاتی ہے ۔ سب سے پہلے جو عملہ بہتا ہوا خون روکتا ‘ بلڈ پریشر چیک کرتا اور فوری طبی امداد دیتاہے ‘ وہ نرسز پر مشتمل ہوتاہے ۔ ان کیسز میں نرسز اپنی ڈیوٹی پر موجود تھیں ۔ دوسری طرف ایک واقعے میں ‘ جب نرسز ہڑتال پر چلی گئیں تو شرح اموات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ یہ بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ اگر ایمرجنسی بند ہو جاتی تو شرح اموات میں کئی سو گنا اضافہ ریکارڈ کیا جاتا‘ لیکن ترقی یافتہ ممالک ہونے کی وجہ سے بہتر طرزِ حکومت اور بہتر طرزِ احتجاج کی وجہ سے کہیں بھی ایمرجنسی بند نہیں ہوئی ۔
اگر ایک شخص کو دل کا دورہ پڑتاہے یا دماغ کو خون لے جانے والی شریان بند ہو جاتی ہے تو چند منٹ کے اندر اند رطبی مدد اس کی زندگی کو بچانے کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہے ۔ اگر ایک مریض کسی نہ کسی طرح ہسپتال پہنچ جاتاہے اوراسے نرسز سے بھی ابتدائی طبی امداد مل جاتی ہے تو اس کی زندگی بچنے کے امکانات کافی روشن ہوتے ہیں ۔کچھ لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ڈاکٹرز گھر وںسے صحت مند لوگوں کو اغوا کر کے ہسپتال لے جا کر قتل کر رہے ہیں ۔یا یہ کہ اچھے بھلے لوگ ٹہلتے ہوئے ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں اور پھر وہاں'' درندہ صفت ‘‘ ڈاکٹرز انہیں قتل کر دیتے ہیں ۔ میڈیا‘ حکومت ‘ عدالت اورسب ادارے اس پر اپنی آنکھیں بند رکھتے ہیں ۔ سب ہپنا ٹائز ہو چکے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ میڈیکل سائنس انسان کو دنیامیں ملنے والی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے ۔ایک زمانہ تھا کہ جب ملیریا اور ہیضہ جیسی وبائوں سے پورے پورے شہر قبرستان بن جایا کرتے تھے ۔ بیسوی صدی کے وسط میں امریکہ میں پولیو ایک قہر بن کے ٹوٹا تھا ۔ یہ کون سا علم تھا ‘ جس نے مختلف بیماریوں کی ویکسینز تیار کرنے میں مدد دی ؟ ایک زمانہ تھا ‘ جب دس میں سے محض تین چار بچّے ہی بلوغت کی عمر کو پہنچتے تھے ۔ ایک وقت تھا ‘ جب زچگی میں شرح ِ اموات آج کے مقابلے میں کئی گناز یادہ تھی ۔
یہی وجہ تھی کہ تین لاکھ سال تک کرّہ ٔ ارض پہ انسانوں کی آبادی انتہائی محدود رہی ۔ آج اگر دنیا میں سات ارب انسان زندہ ہیں اور اوسط عمر اگر ساٹھ ستر سال تک جا پہنچی ہے تو یہ میڈیکل سائنس کی بدولت ہے ۔ مریض پتّے میں پتھری کی حرکت سے تڑپ رہا ہوتاہے ‘ پہلے درد ختم کیا جاتاہے ‘ پھر سوزش ختم کی جاتی ہے ‘ پھر پیٹ میں چار ننھے منے سوراخ کر کے بیماری کا شکار پتہ یوں باہر نکال دیا جاتا ہے کہ ایک کٹ بھی نہیں لگتا۔مریض سوتا رہتاہے اور اس کے سوجے ہوئے ٹانسلزنکال دیے جاتے ہیں ۔ میڈیکل سائنس کی ترقی کی بدولت نہ صرف یہ کہ انسانوں کی آبادی بہت زیادہ ہو چکی ہے بلکہ مختلف بیماریوں کی اذیت سے انسان کو چھٹکارا ملتا ہے ‘ لائف سٹائل انتہائی بہتر ہو چکا ہے ۔
بیماری اپنے ساتھ تکلیف لاتی ہے ۔یہ نہیں ہو سکتا کہ بیمارکو مختلف ادویات کی صورت میں جو کیمیکل دیے جاتے ہیں ‘ ان کے کوئی بھی سائیڈ افیکٹس نہ ہوں ۔ مریض کو ان ادویات کے استعمال سے جو فائدہ ملتاہے ‘ وہ مگر نقصان سے کئی گنا زیادہ ہوتاہے۔ ڈاکٹر حضرات میں نکمے اور لالچی لوگوں کی تعداد اتنی ہی ہوتی ہے جتنی وکالت ‘ افسر شاہی اور کسی بھی دوسرے شعبے میں ۔ آ پ مگر ایک پورے شعبے اور پیشے پر تبرّہ کیسے کر سکتے ہیں‘ جب کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو اس سے راحت مل رہی ہے ۔ پوری میڈیکل سائنس پر ہی اعتراض کرڈالنے والوں کی مثال ایسی ہے ‘ جیسے کوئی کہے کہ انجن ایک بری چیز ہے ۔ جب سے انجن ایجاد ہوا ہے ‘تب سے لوگ ایکسیڈنٹس سے مر رہے ہیں ۔ پہلے لوگ جب جانوروں پر سفر کرتے تھے تو کوئی ایکسیڈنٹ رونما نہیں ہوتا تھا ۔اس لیے دنیا سے گاڑیوں ‘ موٹر سائیکلوں اور جہازوں کا خاتمہ کر دیا جائے ۔یا یہ کہ جب سے انسان نے عمارتیں بنانا شروع کی ہیں ‘ تب سے زلزلوں میں انسانوں کی اموات ہو رہی ہیں ؛چنانچہ انسان کو واپس درختوں اور غاروں میں منتقل ہو جانا چاہیے۔
لیکن جو نہ سمجھنا چاہے ‘ اسے سمجھایا نہیں جا سکتا۔ آپ یہ دیکھیں کہ ایک عام شخص کے لیے سب ستارے ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن ماہرِ فلکیات انہیں جس نظر سے دیکھتا ہے ‘ وہ بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ ایک پرائمری پاس کو ٹرک کے پیچھے لکھا ہوا پھڑکتا ہوا شعر اقبالؔ اور غالب ؔ سے کہیں بہتر محسوس ہوتا ہے ۔ اسی طرح جن لوگوں کو میڈیکل سائنس کی ابجد کی بھی سمجھ نہیں ہے اور جو افواہوں کی دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں ‘ آپ انہیں کچھ بھی نہیں سمجھا سکتے ۔ ایک بند دماغ پر کوئی دلیل اثر نہیں کرتی ۔
سب سے زیادہ مزے کی جو بات ہے ‘ وہ ہم لوگ سمجھ ہی نہیں سکے ۔ جب ڈاکٹر ہڑتال کرتے ہیں تو لوگ انہیں کہتے ہیں کہ آپ کی ہڑتال سے لوگ مرجاتے ہیں ۔ کیاآپ کا ضمیر آپ کو ملامت نہیں کرتا ؟ ان ڈاکٹرز کا جواب یہ ہے کہ یہ تحقیق دیکھیے۔ اگر ایمرجنسی کام کر رہی ہو تو ڈاکٹرز کی ہڑتال سے اموات میں اضافہ نہیں ہوتا ‘لہٰذا اپنے جائز مطالبات کے لیے ہڑتال کرنا ڈاکٹرز کا حق ہے ۔ اگر ڈاکٹرز کے پاس جانے سے شرح اموات میں اضافہ ہوتا تو پوری دنیا میں آج ایک بھی ہسپتال اور ایک بھی میڈیکل کالج موجود نہ ہوتا ۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ سب لوگ خود جب شدید تکلیف سے دوچار ہوتے ہیں تو آخرانہیں خود کو ڈاکٹر کے سامنے پیش کرنا ہی پڑتا ہے ۔