برادرِ عزیز ظہیر احمد کا شمار پاکستان کے ان بہادر اخبار نویسوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کئی عشرے پوری جرأت اور ہمت کے ساتھ رپورٹنگ کا حق ادا کیا ہے۔ بھٹو صاحب کے دورِ اقتدار میں سندھ میں جو کچھ ہوتا رہا کسی کی بھی پروا کئے بغیر ان کا قلم اس کی تصویر کھینچتا رہا۔ میرے زیر ادارت شائع ہونے مختلف ہفت روزوں کے وہ خصوصی نمائندے رہے۔ برادرم محمد صلاح الدین شہیدکا ہاتھ بھی بٹایا۔ وہ حیدر آباد سے اپنا مجلہ ''تحریر و تصویر‘‘ 1990ء سے شائع کر رہے ہیں۔ وسائل کے اعتبار سے وہ کوئی بڑا ادارہ تو کھڑا نہیں کر سکے لیکن چراغ بہرحال جلائے چلے جا رہے ہیں۔ تازہ شمارے میں انہوں نے ہفت روزہ ''زندگی‘‘ کا اڑتالیس سال پرانا اداریہ شائع کیا ہے، جو میرے دستخطوں کے ساتھ چھپا تھا، اس پر 23 دسمبر 1971ء کی تاریخ درج ہے۔ بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ''نیا پاکستان‘‘ بنانے کا وعدہ کیا تھا، آج ہم عمران خان کے نئے پاکستان سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بھٹو مرحوم نے جب اقتدار سنبھالا تو ان کی خدمت میں کیا عرض کیا گیا تھا، مذکورہ اداریے کے چند اقتباسات کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا:
بر صغیر کی تاریخ نے ایک نئی کروٹ لی، کرسیٔ صدارت پر قبضہ جمانے کا پنج سالہ منصوبہ بنانے والے یحییٰ خان عوامی احتجاج کے سامنے نہ ٹھہر سکے، انہیں جانا پڑا اور جانے سے پہلے وہ اپنے دونوں منصوبوں کی چابیاں جناب بھٹو کے حوالے کر گئے... بھٹو صاحب نے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدوں کے حلف اٹھائے۔ صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو تلخ اور سنگین صورتِ حال ورثے میں ملی ہے۔ وطن عزیز کا بڑا حصہ دشمن کے پائوں کے تحت جا چکا ہے۔ چاروں طرف اضطراب ہی اضطراب ہے، بے اطمینانی ہی بے اطمینانی ہے، دکھ ہی دکھ ہے، مصائب ہی مصائب ہیں۔ ایسے عالم میں بھٹو صاحب نے حکومت کی ذمہ داری سنبھال کر ایک بہت بڑا چیلنج قبول کیا ہے اور اسی لئے وہ مبارک باد سے زیادہ ہمدردی کے مستحق ہیں۔
دنیا جانتی ہے ہم ماضی میں بھٹو صاحب کی مخالف صفوں میں رہے ہیں، آئندہ بھی جہاں ضرورت ہوئی، ہمارا قلم ضمیر کی آواز کو بلند کرنے میں کوتاہی نہیں کرے گا؛ تاہم اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے صدر کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ بد قسمتی سے حالات اس رُخ پر جا رہے ہیں کہ نئے حکمرانوں کے ساتھ ان کا اپنا نہیں، وطن عزیز کا مستقبل بھی وابستہ دکھائی دیتا ہے۔ ہم وطن کی قیمت پر بھٹو صاحب کی ناکامی کی دعا نہیں کر سکتے۔ یہ کشتی کنارے لگنی چاہیے اور آج جو ہاتھ اس مقصد کے لئے منتخب کئے گئے ہیں، اس جدوجہد میں ان کا ہاتھ بٹانا اشد ضروری ہے۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہاتھ کو نہ جھٹکے، اسے بڑھ کر تھام لے اور آج جبکہ پوری قوم شکست خوردہ ہے، شکست خوردہ اور غیر شکست خوردہ کی بحث ختم کر دے...
نئے صدر موجودہ منصب تک اس لئے نہیں پہنچے کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل یا میجر جنرل تھے، وہ فوج کے نہیں، عوام کے جرنیل کی حیثیت سے ایوانِ صدر میں پہنچے ہیں۔ وہ عوام سے واقف ہیں، اس لئے ان سے بجا طور پر توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے پیشہ روئوں سے الگ ہٹ کر اس راستے پر چلیں گے، جو ان کے لئے بھی عزت اور وقار کا باعث ہو اور قوم کے ہر ہر طبقے اور ہر ہر مکتب فکر کے لئے بھی۔ اسی لئے ہم ان کے سامنے چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔
1۔ اب تک پاکستانی فوج کے دس جرنیل ریٹائر کئے جا چکے ہیں، ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جنہیں جناب صدر خود اپنے بقول جانتے ہی نہیں، نہ انہوں نے ان کی شکل دیکھی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے سات جرنیلوں کی برخاستگی کی سفارش کس نے کی، جناب صدر نے تو نیو یارک سے سیدھے ایوان صدرپہنچ کر عہدے کا حلف اٹھایا، کمانڈر انچیف اور چیف آف سٹاف جانے والوں میں تھے۔ پھر کس کی سفارش پر اس طرح اعتماد کیا گیا کہ شکل سے واقف نہ ہونے اور انہیں نہ جاننے کے باوجود ریٹائر کر دیا گیا اور با عزت ریٹائر کر دیا گیا۔ ہمارے خیال میں صدر کو اس ضمن میں ایک اعلیٰ اختیاراتی عدالتی ٹریبونل قائم کرنا چاہیے، جو دوران جنگ فوجی ہائی کمان کی کارکردگی کا جائزہ لے کر مجرموں کی نشاندہی کر سکے۔ اس ٹربیونل کو بند کمرے میں نہیں، کھلے عام کام کرنا چاہیے۔
2۔ ماضی ہمارے ہمارے سیاسی اور معاشرتی ڈھانچے میں بے شمار خرابیاں صرف اسی وجہ سے پیدا ہوئیں کہ حکومت کے عہدہ داروں نے اپنی سیاسی جماعت کی قیادت پر بھی قبضہ کئے رکھا۔ اس طرح صحت مند سیاسی اقدار جنم ہی نہ لے سکیں۔ اس سلسلے میں اگر جناب صدر خود روشن مثال قائم کر دیں تو مناسب ہو گا۔ انہیں پیپلز پارٹی کی قیادت سے مستعفی ہو جانا چاہیے اور پارٹی کے جو جو عہدے دار حکومت کی ذمہ داریوں میں شریک ہوں، ان کو بھی پارٹی کے عہدوں سے استعفے دے دینے چاہئیں۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے استحکام کے راستے کھلیں گے اور وہ حکومتی عہدے داروں اور عوام کے درمیان ایک آزاد رابطے کی حیثیت اختیار کر سکے گی۔
3۔ اخبارات کو ہر صورت آزاد رہنا چاہیے، انہیں ایک ضابطۂ اخلاق کے اندر رہ کر حکومت کی کارگزاریوں پر نظر رکھنے کی اجازت دی جائے۔ اس طرح جناب صدر کو ملک کی صحیح صورتِ حال اور خود اپنی پارٹی اور انتظامیہ کی کارروائیوں سے مکمل آگاہی ہوتی رہے گی۔ آزاد پریس سے جناب صدر آنکھوں اور کانوں کا کام لے سکیں گے۔ معاشرے کو کسی رنگ کے بغیر دیکھ سکیں گے اور عوام کی مشکلات کی لاگ لپٹ کے بغیر سن سکیں گے۔ اب محکمہ اطلاعات کے منجمد ذہنوں کو اخباروں پر کسی طور مسلط نہ کیا جائے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے کردار میں بھی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ انہیں درباری راگ الاپتے رہنے کے بجائے عوام کے مسائل اور مشکلات کی نشاندہی کرنی چاہیے۔
4۔ مارشل لاء جلد سے جلد اٹھا لیا جائے اور اس کے لئے فی الفور تاریخ کا اعلان کر دیا جائے۔ جناب صدر عوامی رہنما ہیں، عوام کے ووٹوں نے انہیں سر بلند کیا ہے، اب حکومت کرنے کے لئے بھی انہیں عوام ہی کی قوت استعمال کرنی چاہیے، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنا انتقالِ اقتدار کے لئے ضروری تھا، لیکن اب جلد از جلد آئینی خلا پُر کر کے مارشل لاء اٹھانا ضروری ہے۔
5۔ یحییٰ خان کے دور میں اخلاقی اقدار کو بالکل تہہ و بالا کر دیا گیا۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ ان دنوں ایوانِ صدر ''بازارِ حسن‘‘ کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ عوام و خواص کے لبوں پر یحییٰ صاحب کی حُسن پرستی اور مدہوشی و مخموری کے چرچے رہتے تھے۔ اسی وجہ سے جنگ بندی کے بعد لاہور میں نکلنے والے بڑے جلوس میں یہ کتبہ نظر آ رہا تھا: ''زانیوں اور شرابیوں کی قیادت ہمیں لے ڈوبی‘‘... یحییٰ صاحب کے مشیروں کے بارے میں بھی یہ تاثر عام تھا۔ نئی انتظامیہ کا فرض ہے کہ بد اخلاقی کے اس طوفان کا منہ موڑ دے اور صاحبانِ اختیار کے گرد مضبوط اخلاقی دیواریں کھڑی کرے۔
اگر ان گزارشات کی طرف توجہ دی گئی تو جناب بھٹو نے جن مقاصد... اسلام، جمہوریت، احتساب اور خوش حالی... کا اعلان اپنی نشری تقریر میں کیا ہے، ان کے حصول میں بڑی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی اور نیا پاکستان جلد تعمیر ہو سکے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)