تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     15-05-2013

دھاندلی کا ’’ٹرن آوٹ‘‘ کتنا رہا؟

’’دشمنوں‘‘ نے پاکستانیوں کے بارے میں مشہور کررکھاہے کہ یہ قوم اتنی کوشش تالہ بنانے پر نہیںکرتی جتنی محنت جعلی چابی تیارکرنے میں صرف کردیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سائنسدان پیدا ہونے کے بجائے چورسوئچ بنانے والے پیدا ہوتے ہیں۔ مینڈیٹ اور ووٹ چرانے کی جمہوری ڈکیتیاں وطن عزیز میںشروع ہی سے ہوتی رہی ہیں‘ مگر ان وارداتوں کے زیادہ تر پلان امریکہ اوربیرونی دنیا سے ہی امپورٹ کئے جاتے رہے ہیں۔ہمارے ہاں عوامی مینڈیٹ چُرانے کا رواج قیام پاکستان کے فوراََبعد سے ہی شروع ہوگیاتھا۔ آغاز 1953ء میں ہوا‘ 54ء میں اسے مزید پروان چڑھایاگیا۔ 1965ء میں جنرل ایوب خان بنیادی جمہوریت کے ذریعے ہمارے سول حکمران بنے اورپھر مادرِ ملت کے حق میں عوامی خواہشات کا خون کر کے حکومت کرنے کے انعام کے طور پر اپنے آپ فیلڈ مارشل بن بیٹھے۔ایوب خان کے بعد جنرل آغا یحییٰ خان آئے اورمشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن کر ہم سے علیحدہ ہوگیا۔ بنگلہ دیش بننے کاعمل اگرچہ ان ریاستی زیادتیوں کا ردعمل تھا جو بنگالیوں سے روا رکھی گئیںمگر اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے اسے سیاستدانوں کا گناہ قرار دیااورایف آئی آر بھٹو کے نام کاٹ دی۔ بھٹو صاحب نے اپنے دور اقتدار میں چھ ماہ قبل عام انتخابات کرائے تھے مگر دھاندلی کاالزام لگا کر نتائج کو مسترد کیاگیا اور بعد ازاں اسے جواز بناکر جنرل ضیاء الحق نے ملک پر مارشل لانافذ کردیا۔ بھٹو اس ملک کے عظیم محسن تھے ٗ انہوں نے ملک کوآئین اورایٹم بم دے کر ناقابلِ تسخیر بنایا۔ اس احسان کا بدلہ یوں چکایا گیا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کا عدالتی قتل کردیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے گیارہ اورجنرل مشرف کے آٹھ سالہ دور اقتدار میں ان کے پیش رو جرنیلوں کا عرصۂ اقتدار جمع کریں تو یہ ہماری تاریخ کی نصف مدت بن جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں35سال فوجی جرنیلوں نے براہ راست حکومت فرمائی اور باقی عرصہ ’آئی جے آئیاں‘بنانے میںمصروف رہے۔آئی جے آئی کے ’’موجد‘‘ اورروس کے خلاف ’’امریکی جہاد‘‘ کے مینوفیکچرر جناب جنرل (ر) حمید گل نے ملک میںدوتہائی اکثریت حاصل کرنے کی تکنیک متعارف کرائی تھی۔سپریم کورٹ اصغر خان کیس میں تاریخی فیصلہ دے چکی ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے بیان حلفی میںتسلیم کیاہے کہ آئی جے آئی اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کے آرڈر پر بنائی گئی تھی جنہیںصدر غلام اسحاق خان کی سرپرستی حاصل تھی۔جنرل حمید گل نے پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ چُرانے اور آئی جے آئی بنانے کے عمل سے کبھی انکار نہیںکیا۔ انہوں نے ہمیشہ کہا کہ آئی جے آئی بنانے کے اغراض ومقاصد وہ سپریم کورٹ میںبیان کریںگے۔ جنرل حمید گل کی سوچ ایک مخصوص مائنڈسیٹ کی نمائندگی کرتی ہے جو عوام کا مینڈیٹ چُرانے اورانتخابات میںدھاندلی کے عمل کو قومی سلامتی اورحب الوطنی کانام دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس وجیہہ الدین نے جنرل مشرف کے پی سی او پر حلف اٹھانے کے بجائے استعفیٰ دے دیاتھا۔ جسٹس صاحب کی حب الوطنی اور ایمانداری پر کسی کو شک نہیںبلکہ قوم ان پر فخرکرتی ہے۔ انہوں نے 2013ء کے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔ فخرو بھائی اور ان کے ساتھیوں نے جس طرح شبانہ روز محنت سے الیکشن 2013ء کو صاف شفاف بنانے کی کوششیںکیں‘ لگتا ہے اس سے زیادہ متحرک مینڈیٹ چُرانے والے رہے جنہوں نے الیکشن میںدھاندلی کے منصوبوں میںبھی ’’سٹیٹ آف دی آرٹ‘‘ کی روایت قائم رکھی۔ دھاندلی کے حوالے سے میڈیا میںبیان کئے جانے والے حقائق دلچسپ اورحیران کن ہیں۔ یورپی یونین نے پاکستان میںہونے والے انتخابات کو اگرچہ شفاف قرار دے دیا ہے لیکن غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئرالیکشن (فافین) کا کہنا ہے کہ کراچی کے کچھ پولنگ اسٹیشنز پر سو فیصد سے بھی زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق کراچی کے بعض حلقوں میں 320 فیصد سے بھی زائد ووٹ ڈالے گئے اوردھاندلی کا یہ ’’ٹرن آئوٹ‘‘ ملک کے دوسرے حصوں میںبھی جاری رہا۔ تجزیہ نگار حالیہ انتخابات اوران کے نتائج کو 2014ء میںخطے میںپیدا ہونی والی صورت حال سے ملاکر بھی دیکھ رہے ہیں۔نذیرناجی صاحب نے لکھا ہے کہ ’’نوازشریف نے 2008ء میں انتخابی مہم شروع کرنے سے کچھ پہلے رائے ونڈ میں سینئر اخبار نویسوں کو غیر رسمی بات چیت کے لئے جمع کیاتھا۔حاضرین کو دعوت کلام دینے کی ذمہ داری جگنو محسن کی پاس تھی۔اچانک انہوں نے مجھے اظہار خیال کی دعوت دی جس پر میںنے واضح طور سے کہاکہ اس مرتبہ نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں نہیںمل سکیں گی لیکن جب امریکہ افغانستان سے رخت سفر باندھے گاتو ان کی ضرورت محسوس کی جائے گی۔تب ان کا وزیر اعظم بننا ناگزیر ہوگا‘‘۔ اب ناجی صاحب کے تجزیے کو جسٹس وجیہہ الدین کے تجزیہ سے ملاکر پڑھتے ہیں۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہاہے کہ انتخابی نتائج پہلے سے طے شدہ تھے جن میںبیرونی طاقتوں کی مدد سے دھاندلی کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کیے گئے کیونکہ بیرونی قوتیں سیاسی جماعتوں کی طرح فوج کو بھی اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھنا چاہتی ہیں ٗ لیکن اب تمام سیاسی جماعتوں کو فہم وفراست سے کام لیتے ہوئے ملک کو انتشار ٗ افراتفری اورپہیہ جام کی بجائے ترقی کی طرف لے جاناچاہیے۔الیکشن تنازعات نمٹانے کے صرف14ٹربیونلز کا قیام کسی بھی طرح مناسب نہیں‘ اس کے لیے کم ازکم 150الیکشن ٹربیونلز قائم کئے جائیں۔جسٹس صاحب نے روزنامہ ’’دنیا ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ملک میںبڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی لیکن دھاندلی کا طریقہ کار قدرے مختلف نوعیت کارہا۔اس سے محسوس ہوتاہے کہ دھاندلی سے غیر ملکی قوتوں نے مرضی کے نتائج حاصل کیے‘ جس میںمرکزاورصوبوں میںمختلف جماعتوں کی حکومتوں کا فیصلہ کیاگیا۔الیکشن کمیشن جدید طریقہ کار اختیارکرکے دھاندلی کاسراغ لگاسکتاہے۔لیکن اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ پاکستان میںانتخابات میں حلقہ سسٹم ناکام ہوچکاہے۔ چنانچہ یہاں جرمنی اوراسرائیل کی طرز پر انتخابی سسٹم رائج کیاجاناچاہیے۔ یہ بات طے ہے کہ ہمارے ہاں عوام کے مینڈیٹ کو عزت واحترام دینے کی کوئی روایت موجود نہیںہے۔بھٹو ہویا شیخ مجیب الرحمان،بے نظیر ہویامیاں نوازشریف یا پھر عمران خان‘ انتخابات ہمارے ہاں قومی سلامتی کی ٹیکسال اور فونڈریوں میں ہی ڈھالے جاتے ہیں۔اس سے مراد ہرگز یہ نہیںہے کہ مینڈیٹ ان جماعتوں یا قوتوں کو سونپ دئیے جاتے ہیںجن کی عوام میںپسندیدگی یا جڑیں نہیںہوتیں۔اس بات کو یوں سمجھنے کی کوشش کریں کہ بعض اوقات پری انجنئیرنگ اورپری میڈیکل کا امیدوار امتحانی نتائج کے مطابق ایک یادونمبر سے یونیورسٹی اورمیڈیکل کالج میںداخل ہونے سے رہ جاتاہے۔طالب علم محنتی اورلائق توہوتاہے مگر اس کے مینڈیٹ میںپائی جانے والی کمی ’’جنرل حمیدگل گیس پیپر‘‘اور بعض دوسری بیرونی بوٹیوںسے پوری کرلی جاتی ہے۔ یہ توطے تھاکہ پیپلز پارٹی نے انتخابات میںبری طرح ہارنا ہے مگر اس بار عالمی اورقومی جیب تراشوں نے عمران خان اورتحریک انصاف کے مینڈیٹ کی جیب بھی کاٹ لی ہے۔ آخر میں مجھے عمران خان کی چوہدری نثار علی خان کے بارے میںکی پیش گوئی یاد آرہی ہے۔ اسلام آباد سے نشر ہونے والے ایک ٹاک شو میںعمران خان نے چوہدری نثار کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا: ’’چوہدری نثار آپ تو صرف وزارت پٹرولیم کی مار ہو‘‘۔ یکایک میری نظر ٹی وی سکرین پر نمودار ہونے والے ٹکر سے جالڑی۔ٹکر کے مطابق چوہدری نثار نے میاں صاحب کی نئی کابینہ میںجس وزارت کیلئے دلچسپی کا اظہار کیاہے وہ پٹرولیم ہی ہے‘ اس کے علاوہ چودھری نثار نے خادم اعلیٰ کے عہدے میں بھی اپنی بھرپور دلچسپی کا اظہار فرمایا ہے۔ میاں صاحب سے چوہدری نثار کی فرمائش سے مجھے مہدی حسن اورناہیداختر کا گایا ہوا ایک گیت یاد آگیاجو چاکلیٹ ہیرووحیدمراد اورنیلوبیگم پر عکسبند ہوا تھا ۔یوں تو مذکورہ گیت کا چوہدری نثار کی فرمائش سے براہ راست کوئی تعلق نہیںلیکن منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے آپ بھی یہ گیت سن لیں: بانٹ رہا تھا جب خدا سارے جہاں کی نعمتیں اپنے خدا سے مانگ لی میں نے تیری وفا صنم

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved