سابق وزیر اعظم نواز شریف کی علاج کی غرض سے لندن روانگی تحریک انصاف کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ ملکی سیاست ہیجان کا شکار نظر آ رہی ہے اور وزیر اعظم کی میانوالی میں تقریر اس ہیجان کی عکاس ہے۔ انہوں نے میانوالی جلسے میں بھی کنٹینر جیسی تقریر کی اور نواز شریف کی بیماری کے حوالے سے ان کا حالیہ بیانیہ حکمرانوں پر سیاسی دباؤ کا ثبوت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب میں نے نواز شریف کو جہاز پر چڑھتے دیکھا تو میں نے ڈاکٹروں کی رپورٹ سامنے رکھ لی، رپورٹ میں لکھا تھا کہ ان کے دل، گردے اور دیگر ساری چیزیں انتہائی خراب حالت میں ہیں اور کسی بھی وقت کچھ ہو سکتا ہے۔ میں کبھی نواز شریف کی طبی رپورٹ کو دیکھتا اور کبھی مسلم لیگ (ن) کے قائد کو جہاز پر چڑھتے دیکھتا۔ جہاز دیکھ کر مریض ٹھیک ہوا یا لندن کی ہوا لگنے سے، تحقیقات ہونی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان نے نواز شریف کی صحت پر ان کی لندن روانگی سے پہلے جو موقف اپنایا وہ غلط تھا یا جو باتیں وہ اب کہہ رہے ہیں وہ غلط ہیں؟
نواز شریف کی صحت کے متعلق چھان بین کے لیے کراچی سے ڈاکٹر شمسی کو خصوصی طور پر بلایا گیا۔ ان کی رپورٹ کے بعد بھی تسلی نہ ہوئی تو شوکت خانم سے ڈاکٹر فیصل کو سروسز ہسپتال بھجوایا گیا۔ ان کی رپورٹ کے بعد عمران خان نے نواز شریف کی بیماری پر ہمدردی کا اظہار کیا اور ان کے علاج کے لیے موقف میں نرمی کی۔ کیا وزیر اعظم اب ڈاکٹروں کی رپورٹس پر ملبہ ڈال کر سیاسی دباؤ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر ڈاکٹروں نے غلط رپورٹس تیار کیں تو ان کے خلاف کارروائی کریں، یہ بھی یاد رکھیں کہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد، جو حلقے کی سیاست کے حوالے سے نواز شریف کی براہ راست حریف ہیں، سروسز ہسپتال میں ڈاکٹروں کے بورڈ کی بذات خود نگرانی کرتی رہی ہیں۔ وہ خود بھی نامور ڈاکٹر ہیں۔ نواز شریف کی طبی رپورٹس ڈاکٹر یاسمین راشد کے توسط سے ہی وزیر اعظم تک پہنچیں۔ کیا وزیر اعظم اب اپنی پارٹی کی اہم ترین شخصیت کی وفاداری پر سوال اٹھا رہے ہیں؟
وزیر اعظم عمران خان حکومتی کارکردگی سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس جلسے میں انہوں نے مہنگائی کا اعتراف بھی کیا اور کہا کہ اللہ کا کرم ہے کہ ہمارا روپیہ صرف 35 فیصد گرا، ابھی تو 155 روپے کا ڈالر ہے، روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 250 سے 300 روپے تک جا سکتا تھا کیونکہ ہمارے پاس ڈالر ہی نہیں تھے اسے روکنے کے لیے۔ وزیر اعظم نے مہنگائی کے اعتراف میں بھی اپنی حکومت کا کارنامہ تلاش کر لیا کہ ڈالر کو تین سو روپے تک پہنچنے سے روکنے میں کامیاب رہے۔ تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد ڈالر نے اڑان بھری تو حکمرانوں کا موقف تھا کہ اسحاق ڈار نے ڈالر کو مصنوعی طور پر کم قیمت پر رکھا، ہم روپے کی قدر کو آزاد چھوڑ کر برآمدات کو بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، پیداواری لاگت کم ہونے سے بین الاقوامی منڈی میں ہماری مصنوعات مقابلے کے قابل ہو جائیں گی۔ برآمدات تو نہ بڑھیں‘ الٹا غریب کا جینا دوبھر ہو گیا۔ اس پر اب یہ وضاحت، عوام کڑھنے کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔
دھرنے اور نواز شریف کی لندن روانگی سے دباؤ میں آئی حکومت کو جے یو آئی ایف، ابھی تک سکھ کا سانس نہیں لینے دے رہی۔ جے یو آئی کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ اسلام آباد سے بلا وجہ نہیں چلے گئے‘ بااعتبار لوگوں نے کچھ یقین دہانیاں کرائی ہیں، ہمیں یقین دہانی چوہدری پرویز الٰہی نے کرائی ہے، پرویز الٰہی ہمیں کہہ چکے ہیں کہ جو بات کہہ رہا ہوں اس کا ضامن ہوں، صبر کریں استعفیٰ بھی آئے گا‘ اسمبلیاں بھی تحلیل ہوں گی۔ ان کے اس بیان سے حکومت کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ حیدری صاحب نے اس بیان میں حکمران اتحاد میں دراڑوں کی دوبارہ نشاندہی کی ہے۔ اپوزیشن کا کام ہی حکومت کو دباؤ میں رکھنا ہوتا ہے، لیکن کیا حکمرانوں کو ملکی معیشت کی بہتری اور علاقائی صورتحال کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ صرف ایک دن کے اخبارات میں شائع پانچ خبریں خطے میں سٹریٹیجک اور معاشی صورتحال کے متعلق تشویشناک حالات کا پتہ دے رہی ہیں۔
پہلی خبر امریکا کی معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز کے ولسن سنٹر سے خطاب کی ہے۔ واشنگٹن کا ایک تھنک ٹینک سی پیک پر خصوصی نشست میں امریکی حکومت کے خیالات جاننا چاہتا تھا۔ ایلس ویلز نے اس نشست میں جو کچھ کہا اگرچہ نیا نہیں لیکن امریکی تھنک ٹینک کی طرف سے سی پیک پر خصوصی نشست اور ایلس ویلز کی طرف سے امریکا کا مستقل موقف دہرایا جانا خطے میں امریکی ترجیحات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ امریکا کی معاون وزیر خارجہ نے ناصرف سی پیک منصوبوں کی شفافیت پر سوال اٹھائے بلکہ ان منصوبوں پر چین کے قرضوں کو پاکستان کی معیشت کیلئے خطرہ قرار دیا۔ ایلس ویلز نے بہترین سفارتکار ہونے کی حیثیت سے پاکستان کو امریکی موقف پہنچا دیا اور لہجے میں تلخی بھی نہیں لائیں۔ انہوں نے پاکستان کو چین اور سی پیک کو چھوڑ کر دوبارہ امریکی کیمپ میں بیٹھنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے کہا: امریکا کے پاس اس سے بہتر اقتصادی ماڈل موجود ہے، امریکا کی نجی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور حکومتی امداد سے پاکستان کو معاشی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان کو سی پیک منصوبوں پر چین سے سخت سوالات پوچھنے چاہئیں۔ سی پیک کے تحت چینی کمپنیاں اور مزدور پاکستان آرہے ہیں، حالانکہ پاکستان میں بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں چینی سفیر نے ایلس ویلز کے بیان پر ردعمل دیا اور امریکا کو طعنہ دیا کہ جب پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت تھی اس وقت امریکا کہاں تھا؟2013 میں پاکستان میں توانائی کا شدید بحران تھا اور چین ملک میں پاور پلانٹس لگا رہا تھا تو اس وقت امریکہ کہاں تھا؟ امریکی کمپنیوں نے اس وقت وہاں پر پاور پلانٹ کیوں نہیں لگائے؟ امریکہ نے پاکستان کو امداد اپنی سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر معطل کیوں کی؟ چینی سفیر کی وضاحت کے ساتھ ایک خبر اور شائع ہوئی کہ ورلڈ بینک نے پاکستان کی بجٹ سپورٹ کی منظوری دے دی ہے اور پاکستان کو پچاس کروڑ ڈالر دیئے جانے کا امکان ہے۔ عالمی بینک نے اس منظوری کے ساتھ کہا کہ پاکستان کو بیروزگاری میں کمی کیلئے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے، یہاں بیروزگاری کی شرح چھ فیصد ہے اور کوالٹی آف ایمپلائمنٹ بھی اچھی نہیں۔ ورلڈ بینک کے بیان میں اسی طرف اشارہ کیا گیا جو ایلس ویلز کہہ رہی ہیں۔ یہ اتفاقیہ نہیں ۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ورلڈ بینک کے صدر ڈیوڈ ملپاس ہیں جو یہ عہدہ سنبھالنے سے ٹرمپ کابینہ میں انڈر سیکرٹری خزانہ تھے۔
ایلس ویلز کا سی پیک پر بیان امریکا چین تجارتی تنازع کی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے۔ امریکا نے چین کی اربوں ڈالر مصنوعات پر اضافی پچیس فیصد ٹیکس عائد کئے ہیں اور مزید مصنوعات کو ان ٹیکسوں کی زد میں لانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس حوالے سے صدر شی جن پنگ کا بیان بھی شائع ہوا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ تجارتی مذاکرات کے پہلے مرحلے میں باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر معاہدہ کرنا چاہتے ہیں‘ ہم تجارتی جنگ کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
سیاسی افراتفری کی خبروں کے ڈھیر میں چھپی ایک اور خبر اہمیت کی حامل ہے جو ہمارے ٹی وی مباحثوں میں جگہ نہیں پا سکی۔ خبر ہے‘ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کی صورت میں بھارت کو کردار دینے کی۔ امریکی محکمہ خارجہ میں افغان امور کی ذمہ دار نینسی ایزو جیکسن نے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کیا۔ اس سیشن کا عنوان تھا: افغانستان میں بھارت کا کردار۔ نینسی ایزو جیکس نے کہا کہ امریکا، افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری اور تعاون کا خیر مقدم کرتا ہے۔ ہم افغانستان میں پائیدار اور باعزت حل کی کوششوں کی حمایت جاری رکھیں گے جو افغانستان کے مستقبل میں ہماری سرمایہ کاری کو محفوظ کرے۔
ان پانچ خبروں سے خطے میں نئی بین الاقوامی کشمکش، پاکستان کو ایک کیمپ سے دوسرے میں کھینچنے یا دھکیلنے کی کوشش صاف نظر آ رہی ہے لیکن حکمرانوں کو نواز شریف کی بیماری کے سوا کوئی قابل توجہ ایشو نظر نہیں آتا اور سیاسی سر پھٹول پوری شدت سے جاری ہے۔ سیاسی ماحول گرم رکھ کر عوام کی توجہ اہم ایشوز سے بھٹکائی جا رہی ہے، ایسے میں ملکی سلامتی کے ضامن ادارے خلا کو پُر کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ نظام کو چلنا نہیں دیا جا رہا۔ بقول شاعر
ہنگامۂ آفات ادھر بھی ہے ادھر بھی
بربادیٔ حالات ادھر بھی ہے ادھر بھی