تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     24-11-2019

ہر کوئی صاحبِ توفیق کہاں ہوتا ہے

روز واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر کی پوسٹس سے موبائل لبالب بھر جاتا ہے۔ عمران خان صاحب کے مخالفین کی طرف سے بھیجی جانی والی ویڈیوز، بیانات کی تعداد زیادہ ہے۔ ان کے سابقہ وعدے، دعوے، بیانات، مختلف شخصیات کے ساتھ تعلقات۔ کیمروں کی یہ دنیا دراصل دنیا نہیں، روزِ محشر جیسی کوئی چیز ہے جہاں آپ سب گزشتہ باتیں سن سکتے اور واقعات دیکھ سکتے ہیں‘ اس فرق کے ساتھ کہ قیامت کے دن آپ کو کسی اور کے اعمال اور نامۂ اعمال دیکھنے کی فرصت نہیں ہوگی اور یہاں یہ فرصت ہی فرصت ہے۔
عمران خان نے یہ کہا تھا، وہ کہا تھا۔ یہ کیا تھا، وہ کیا تھا۔ وہ تمام لوگ جن کے پاس دھیلہ بھر اخلاقی اصول بھی کبھی نہیں رہے ‘ جن کی ساری زندگی کو ایک عنوان دیا جائے تو وہ ''کہہ مکرنی‘‘ ہو گا‘ جن کو کبھی کوئی عہدہ ملا تو انہوں نے زیادہ سے زیادہ بددیانتی کے نئے ریکارڈ قائم کردئیے‘ وہ بھی خان صاحب کی اصول شکنی کا روز ٹھٹھا اڑاتے ہیں۔ جیسے ان کی اپنی شکل کے لیے آئینہ ٹوٹ چکا ہو۔ سو ان سے تو کیا بات کرنی‘ لیکن ہاں مجھ جیسے لوگ بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ نہ کٹر حامی، نہ شدید مخالف۔ میری طرح وہ لوگ جو ہر ایک کی اصول شکنی سے دل برداشتہ، وعدوں اور دعووں کے ڈسے ہوئے ہیں اور کچھ سوچنا سمجھنا چاہتے ہیں، کیا حرج ہے کہ وہ کچھ دیر خود کو عمران خان کی جگہ رکھ کر دیکھیں۔ کوئی حرج نہیں چشم تصور سے یہ منظر دیکھنے میں۔ مخالفت یا حمایت بعد میں طے کر لیجیے گا۔ 
آج تک یہی ہوا ہے کہ ہر پارٹی کے انتخابات سے پہلے کے وعدوں اور حکومت سنبھالنے کے بعد کی پالیسیوں اور کارکردگی میں ہمیشہ زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی تین تین بار برسر اقتدار آئیں لیکن ان کے وعدوں کو پورا کرنے کی بات ہو تو ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اچھا اگر کچھ نہیں ہے تو کم از کم شرمندگی تو ہوتی۔ بدقسمتی سے شرمندگی بھی نہیں ہے۔
عمران خان صاحب کے معاملے میں یہ قبل از حکومت وعدے اور دعوے اس لیے زیادہ ہو گئے کہ انہیں کرسی تک پہنچنے کے لیے 22 سال جدوجہد کرنی پڑی۔ جدوجہد بھی مختلف اور مشکل ادوار میں۔ ان ادوار میں جہاں ہر کچھ عرصے کے بعد حالات، برسر اقتدار جماعت اور سربراہِ حکومت اپنی اپنی شکلیں بدلتے رہتے تھے۔ ان میں سول حکمرانی کے دور بھی تھے اور پرویز مشرف جیسے طالع آزما کا بدترین دور بھی۔ ان دنوں عمران خان کی یہ مجبوری تھی کہ کبھی کسی جماعت کے ساتھ کھڑا ہونا لازمی اور حالات کا تقاضا تھا اور کبھی کسی دوسری جماعت کے ساتھ۔ اس پر طرہ یہ کہ اقتدار کی دوڑ میں پی ٹی آئی کے سارے حریف تگڑے اور اس کے قد سے بڑے تھے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعتوں کے مقابل کھڑے ہونا ہرگز آسان نہ تھا۔ یہ جماعتیں سیاسی جوڑ توڑ سے لے کر کردار کشی تک ہر قدم روا رکھتی تھیں۔ صرف عمران خان صاحب کے لیے نہیں ہر ممکنہ مخالف کے لیے۔ ان دو بڑی جماعتوں کے ساتھ ساتھ بعض جماعتیں سخت حریف بھی تھیں۔ مثلا سابقہ دور والی ایم کیو ایم۔ یاد رہے کہ اس وقت واحد عمران خان کی ذات تھی جس نے اس جبر کو للکارا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس زمانے کی ایم کیو ایم ایک جابر بادشاہ کی طرح اپنے مخالفوں کے خون کی بو سونگھتی پھرتی تھی۔ وہ جو بادشاہوں کا دور تھا جس میں ممکنہ حریف شہزادوں کو کسی بھی طرح موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ کیا آپ نے اور ہم نے اپنی زندگیوں میں یہ سب شکلیں نہیں دیکھ رکھیں؟
جے یو آئی اور اے این پی کے بھی اپنے اپنے مضبوط حلقے تھے اور ان میں سرایت کرنا کسی بھی طرح آسان نہیں تھا۔ پھر یہ کہ ملک بھر میں انتخابی تجربہ رکھنے اور جیتنے والے امیدوار سب مخالف پارٹیوں میں تھے اور خان صاحب کے ہاتھ میں زریں اصولوں اور پُرجوش نوجوانوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ انہی کے ساتھ سر ٹکراتے رہے، بیان داغتے رہے اور ایک دو یا چند نشستوں کے ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھتے رہے۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔
ذرا ایک منٹ یہاں رک کر اوپر کے منظر نامے پر ایک نظر ڈالیں اور انصاف سے خود کو عمران خان کی جگہ رکھ کر سوچیں۔ ان سب مسائل کے ساتھ ساتھ عمر ڈھل رہی ہے اور مٹھی سے ریت تیزی سے پھسل رہی ہے۔ اگر کچھ کر گزرنے کا وقت ہے تو توانائی کے انہی بچے کھچے چند سالوں میں ہے۔ یہ منظر بالکل سامنے ہے کہ آپ تھک ہار کر سیاست سے ریٹائر ہو کر ایک طرف بیٹھ جائیں گے اور یہ گیت بار بار سنتے سنتے ایک دن سو جائیں گے:
جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا
یہ وہ وقت ہے جب پی ٹی آئی اور عمران خان کو اپنی پرانی پالیسیاں ترک کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ 2013 سے پہلے بدلتی سوچ غالب آ گئی تھی۔ ان تبدیلیوں کا آغاز ہو گیا تھا اور 2013 کے انتخاب میں ایک بھرپور لہر کے باوجود اور جیت سامنے کھڑی ہونے کے باوجود ناکامی نے یہ تبدیلیاں تیز تر کر دیں۔ عمران خان نے وہی راستے اختیار کرنے شروع کر دئیے جن پر چل کر پاکستان میں اقتدار تک پہنچا جاتا تھا۔ اب سوچ یہ ہو گئی کہ یہ سب طریقے اختیار کرکے اقتدار حاصل کیا جائے۔ ایک بار پہنچ جائیں تو پھر سب ٹھیک ہو جائے گا اور غیر ضروری بوجھ سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیا جائے گا۔ انہی کی وکٹ پر کھیل کر انہی کو شکست دینا نصب العین قرار پایا۔
خواب دکھانے اور بیچنے کا عمل تو ہر جماعت کی طرح پی ٹی آئی بھی کرتی تھی اب اس بارہ مصالحے کی چاٹ پر مزید گرم مصالحہ چھڑکا گیا۔ سخت مخالفوں کے کارآمد مخالفوں کے بارے میں طے کیا گیا کہ وہ ہمارے دوست ہیں خواہ ان کا عام تاثر کچھ بھی ہو اور خواہ ان کے بارے میں پہلے کچھ بھی کہا جا چکا ہو۔ مثلا شیخ رشید صاحب۔ دھرنا دیا گیا جو شروع سے آخر تک غلط ہی غلط اور ناکامی ہی ناکامی تھی۔ ناتجربہ کار نوجوانوں کے بجائے منجھے ہوئے اور آزمودہ الیکٹ ایبلز سے رابطہ شروع ہوا۔ مشرف دور، قاف لیگ، پیپلز پارٹی، نون لیگ‘ ان سب کے ان لوگوں کے لیے دروازے کھول دئیے گئے جو اس مرحلے پر کرسی نشین ہونے تک کام آسکتے تھے۔ اس اصول پر خاموش مفاہمت کر لی گئی کہ فلاں امیدوار کا عوام اور سنجیدہ طبقے میں تاثر کیا ہے۔ تین باتیں مدنظر رکھی گئیں۔ امیدوار نامور ہو، کارآمد ہو اور کرپشن کا کوئی بڑا کیس اس پر نہ ہو۔ نامور اور بدنام کا فرق بھی بھلا دیا گیا۔ اب پارٹی کو ہر صورت میں اسمبلیوں میں اکثریت چاہیے تھی۔ بہت سے ان لوگوں کو ٹکٹ دیا گیا جن کے نام سن کر پی ٹی آئی کے حامیوں کو سخت جھٹکا لگا اور وہ دل برداشتہ ہوئے۔ کراچی کے بازی گر اینکر صاحب کو ٹکٹ کا کیا جواز تھا۔ یہی کہ ایک نشست مل جائے گی۔ جو لوگ شروع سے پی ٹی آئی کے پرجوش کارکن تھے اور اس کے لیے قربانیاں دے چکے تھے، انہیں نظر انداز کیے جانے کی شکایتیں شروع ہوئیں۔ سچ یہ ہے کہ ان کارکنوں کی دل شکنی بھی بجا تھی اور شکایتیں بھی‘ لیکن یہ سب اسی اصول کے تحت ہو رہا تھا۔
یہیں سے وہ راستہ بھی کھلا جس کے ذریعے مقتدر اداروں کی در پردہ حمایت سے اپنے نصب العین تک پہنچا جا سکتا تھا۔ عمران خان یہ کہتے رہے اور یہ سوچ ان کے ذہن پر حاوی بھی ہو چکی تھی کہ ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کا راستہ صرف کرسی ہے اور کرسی کا راستہ وہی ہے جو مروج ہے۔ ایک اچھے مقصد کے لیے کچھ اصولوں کی قربانی دے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ سوچ کتنی بھی نقصان دہ رہی ہو، اتنا ضرور ہے کہ اس نے پی ٹی آئی کو کرسی تک پہنچا دیا۔
یہ کہنے کے بعد یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ میں اس طریق کار، اس سوچ کا کبھی بھی حامی نہیں تھا۔ لیکن اپنے آپ کو اس جگہ پر رکھ کر دیکھوں تو بہت سی مجبور کن مفاہمتیں سمجھ آتی ہیں۔ ورنہ راستہ تھا کیا؟ میں اس بات کو بھی درست مانتا ہوں کہ اگر یہ سب طریقے، ہتھکنڈے اور قلابازیاں، نون لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے ٹھیک ہیں تو عمران خان کو کس بنیاد پر مطعون کیا جائے؟ بات یہی ہے کہ کتابی اصولوں پر بات کرنا آسان ہے، چلنا بے حد مشکل۔ خاص توفیق والے تھے وہ جو اعلیٰ ترین اصولوں پر چلے بھی اور سرخرو بھی گزر گئے۔ لیکن شاید وہ زمانہ بھی ختم ہو گیا اور وہ لوگ بھی۔ 
ہر کوئی صاحب توفیق کہاں ہوتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved