تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     24-11-2019

ای سی او: ایک نئی مارکیٹ

دنیا کے فاصلے سمٹ رہے ہیں۔ ممالک Economies of Scale ( کم لاگت سے زیادہ نفع کمانا) سے فائدہ اٹھانے کے لیے وسیع تر امکانات کا حصہ بننے کی کوشش میں ہیں‘کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ مسابقت کی نسبت تعاون میں زیادہ فائدہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ علاقائی گروہ بندیوں سے لے کر تجارتی بلاکس تک‘ دنیا ایک دوسر ے سے جڑ رہی ہے۔ اگرچہ زیادہ کامیاب تجارتی بلاکس ترقی یافتہ ممالک میں ہیں‘ لیکن بہت سے چھوٹے الائنس بھی کامیابی کی منازل طے کرچکے ہیں۔
نو نومبر 2019 ء کو اناطولیہ ‘ ترکی میں منعقد ہونے والی چوبیسویں ای سی او کونسل آف منسٹرز بہت اہمیت کی حامل تھی۔ اس اجلاس میں خطے کا جائزہ پیش کیا گیا۔ مجموعی اتفاق ِرائے یہ تھا کہ اگرچہ ترقی کے کچھ اشارے ملتے ہیں‘ لیکن ابھی بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے اور اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن کی کامیابی کے لیے تعاون درکارہے ۔ اس کے لیے ضروری اقدامات وہی ہیں جن کی اسے ضرورت ہے ‘ لیکن تاحال ان کا ادراک نہیں کیا جاسکا۔ مجموعی تاثر یہی ہے کہ وسائل کے اعتبار سے انتہائی مالا مال یہ تجارتی خطہ تنظیمی اعتبار سے انتہائی ناقص ہے۔ یہ ادراک ہورہا ہے کہ خطے کا ہر رکن اُس سنہری موقعے سے فائدہ نہیں اٹھا پار ہا جو چین کے بی آر آئی (بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ) کی صورت سامنے آیا ہے ۔ یہ احساس بھی بڑھ رہا ہے کہ اگر اُنہوں نے ایک دوسرے سے تجارت نہ کی تو وہ دیگر تجارتی بلاکس کے ساتھ تجارتی امکانات سے بھی ہاتھ دھوبیٹھیں گے ۔ اس طرح چوبیسویں ای سی او کونسل آف منسٹرز کے اجلاس میں کچھ تلخ حقائق سامنے لائے گئے ۔ ابھی ای سی او کے بارے میں بہت کچھ بتایا جانا باقی ہے۔ای سی او علاقہ دس رکن ریاستوں پر مشتمل ہے جن میں آذربائیجان‘ افغانستان‘ ایران‘ قازقستان‘ کرغزستان‘ پاکستان‘ ترکی‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور ازبکستان۔ پاکستان‘ ایران اور ترکی اس علاقائی بلاک کی بانی ریاستیں ہیں۔ ای سی او بلاک کی تشکیل کا مقصد رکن ریاستوں کے درمیان معاشی‘ ثقافتی اور فنی تعاون کو فروغ دینا ہے ۔بے شمار قدرتی وسائل اور تجارت اور ترقی کے امکانات رکھنے والا ای سی او ایشیا کے مرکز میں ایک مثالی جگہ پر ہے ۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل کا شعبہ مضبوط ہے اور یہ دنیا میں دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ ایران‘ آذربائیجان‘ قازقستان اور ترکمانستان تیل اور گیس کے ذخائررکھتے ہیں ۔ افغانستان قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں سے مالا مال ہونے کے علاوہ قالین بافی کی صنعت رکھتا ہے ۔ ازبکستان میں سونے اور معدنیات کے ذخائر ہیں۔ کر غزستان میں یورینیم اور دیگر نایاب دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ تاجکستان کے پاس بھی قدرتی وسائل اور معدنیات موجود ہیں۔ ترکی خطے میں سب سے زیادہ ٹرانسپورٹ کے پرزہ جات بنانے اور برآمد کرنے والا ملک ہے ۔
قدرتی وسائل کے اس تنوع کے ہوتے ہوئے خطے میں وسیع پیمانے پر عالمی تجارتی سرگرمیاں ہونی چاہئیں ‘ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے ۔ ای سی او خطے سے ہونے والی تجارت عالمی تجارت کا صرف دو فیصد ہے ‘ باوجود اس کے کہ یہ خطہ دنیا کی 6.2فیصد آبادی رکھتاہے ۔ خطے میں اندرونی طور پر ہونے والی تجارت بھی عالمی تجارت کا محض 8.4 فیصد ہے ‘ جو کہ معیار سے بہت کم ہے ۔ اس وقت ای سی او کی رکن ریاستوں کی کل تجارت کا حجم 804بلین ڈالر ہے ۔ 2012 ء میں یہ حجم 836 بلین ڈالر تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ تجارتی حجم میں گراوٹ کا رجحا ن نمایاںہے ۔ تزویراتی طور پر وسطی ایشیا کے داخلی راستے پر موجود پاکستان کی ای سی او ممالک کے ساتھ تجارت اور بھی کم ہے۔ پاکستان کا شمار ایران اور ترکی کے ہمراہ ای سی او کے بانی ممالک میں ہوتا ہے ‘ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس کی تجارت کا حجم سمٹ رہا ہے ۔ اس وقت پاکستان کی ای سی او ممالک کو برآمدات محض 1.8بلین ڈالر ہیں۔ 2014ء میں ان کا حجم 2.3بلین ڈالر تھا۔ دوسری طرف ای سی او ممالک سے پاکستان درآمدات 2014 ء میں 791 ملین ڈالر سے بڑھ کر 1.2 بلین ڈالر ہوچکی ہیں۔یہ تجارتی خسارہ ناقص منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے ۔ 
وزرا کی موجودہ چوبیسویں کونسل ایک ای سی او فورم اور خطے کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے اور اپنی راہیں درست کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے ۔اس میں پاکستان نے اپنا کیس پر زور طریقے سے پیش کیا کہ اسے اور خطے کے دیگر ممالک کو کیا کرنا چاہیے ۔ اس کے لیے مندرجہ اقدامات تجویز کیے گئے ہیں:ـ
1۔ تجارت جتنی بھی زیادہ ہو ‘ کم ہے: مسابقت کی برق رفتار دنیا میں جتنی بھی تجارت ہوسکے ‘کم ہے ۔ ٹیکنالوجی میں جدت آنے سے فاصلے سمٹ رہے ہیں‘ اشیا کی نقل و حمل آسان‘ تیزاور ہمہ وقت ہوگئی ہے ۔ تیار شدہ اشیا کا حجم بھی سمٹ رہا ہے ۔ وہ لیپ ٹاپ جس کے پرزے جڑنے میں چار ماہ لگتے تھے‘ اب صرف چار منٹ درکار ہوتے ہیں‘ جبکہ اس پر اٹھنے والی لاگت میں بھی نمایاں کمی واقع ہوچکی ہے ۔ ای سی اوممالک میں دنیا کی کل نوجوان آبادی کا 6.2 فیصد پایا جاتا ہے ۔ اس طرح یہ نوجوان اور متحرک افراد کا خطہ ہے ‘ لیکن عالمی تجارت میں اس کا حصہ صرف 2.1فیصد ہے ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ممالک کے درمیان ایسی اشیا کی فہرست مرتب کی جائے جنہیں کسی دقت اور رکاوٹ کے بغیر دوسرے ملک میں کی سرحد سے پار لے جایا جاسکے ۔ ای سی او ٹریڈ ایریا (ECOTA)کو فعال کرنا ضروری ہے ۔ رکن ممالک کچھ معاہدوں کی ترجیحی بنیادوں پر توثیق کررہے ہیں ۔ ان معاہدوں کو مزید مؤثر اور فعال بنائے جانے کی ضرورت ہے ۔ 
2۔ تصور سے عمل تک: 2015 ء میں ای سی او اسلام کانفرنس میں رکن ممالک نے ویژن 2025کے خدوخال طے کیے تھے۔ یہ ایک شاندار تصور ہے جو ای سی او کی سمت کا تعین کرتا ہے ‘ اس بیان کے مطابق'' ای سی اوخطے میں مربوط اور دیر پا معاشی سرگرمیاں بڑھانے اور تعلیم یافتہ معاشرے اور بہتر گورننس کے قیام سے آزاد تجارت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرے گا‘‘۔ یہ ایک شاندار بیانیہ ہے ‘تاہم عمل کے بغیر بیانیہ بے کار ہے ۔ اس سے یہ خواب ایک ڈرائونے خواب میں تبدیل ہوسکتاہے ۔ اس کے مطابق تجارت کو دگنا ہوجانا چاہیے تھا‘ لیکن ایسا نہ ہوسکا؛ چنانچہ اس کے لیے ایک قابل ِعمل منصوبے کی ضرورت ہے تاکہ خوابوں کو عملی شکل دی جاسکے ۔ 
3۔ رابطے میں خوشحالی کار از ہے : ای سی او کی جغرافیائی قربت اور مرکزیت تجارت اور مواصلات کے روابط کے لیے انتہائی اہم ہے ۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ دور دراز کے ممالک کو باہم ملا رہا ہے ۔ شمال اور جنوب کی ٹرانسپورٹ راہداری‘ ٹرانس کیسپیئن روٹ‘ سی پیک‘ چاہ بہار اور گوادر بندرگاہیں یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک کے لیے آسان اور سستی تجارتی گرزگاہیں ثابت ہوں گی ‘ لیکن ای سی او ممالک میں اس ضمن بہت سی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے‘ اور نہ ہی یہ ممالک اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لیے منصوبوں کی توثیق کے قابل ہیں۔ 
عالمی جنگوں کے بعد یورپ 1950 ء کے Maastricht معاہدے کے ذریعے کساد بازاری سے نکل آیا تھا۔اس کے بعد خطے کے ممالک یکساں کرنسی اور دیگر مربوط پیش رفت کی جانب بڑھنے لگے ۔ ای سی او کو اسی راہ پر چلنے کی ضرورت ہے ۔ یہاں پاکستان کے پاس ایک سنہری موقع موجود ہے‘ یہ ترکی کے ساتھ اپنے شاندار تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے وسطی ایشیائی ریاستوں تک سڑکوں کے جال بچھا سکتا ہے ۔ تجارت اور سیاحت ہی میں ترقی اور خوشحال کا راز مضمر ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved