تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     25-11-2019

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا…

کائونٹ ڈائون شروع ہوا تھا، پہلے 100 دن ختم ہونے سے پہلے، حکومت کے چلے جانے کا۔ پھر دھرنا ''وَن‘‘ آیا اور گیا۔ پھر کہا گیا بجٹ پاس کرنے کے بعد رخصتی ہو جائے گی۔ بجٹ کے صرف 3 ماہ بعد ''لاہوری ٹارزن‘‘ کی واپسی کی تاریخ دے دی گئی۔ یہ تاریخ دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ وہی تھا جس نے شہباز شریف کے نام پر نقدی وصول کی‘ جس کی ویڈیو لیک ہو گئی۔ کائونٹ ڈائون کا چوتھا مرحلہ 100 دن بعد اِن ہائوس تبدیلی کا اعلان تھا۔ 5واں فیز، لاک ڈائون اور چھٹا، 9 ستاروں کا مشترکہ آزادی مارچ۔ 7واں کائونٹ ڈائون‘ 35 لاکھ لوگوں کا دھرنا۔ 8واں اتحادیوں کی وفاق اور پنجاب میں حکومت سے علیحدگی۔ 9واں، اداروں کا تصادم۔ 10واں، پی ٹی آئی میں patriot پیدا کر کے قومی حکومت کا قیام۔ 11واں، صدارتی نظامِ حکومت کی آمد آمد۔ 12واں، سلامتی کے ضامنوں کے ذریعے خلا کو پُر کرنا۔ 13واں، الیکشن کمیشن کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کی بحیثیت سیاسی جماعت فوری تحلیل (dissolution) والا کائونٹ ڈائون۔
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی پیش گوئیوں کی wish list اتنی طویل ہے کہ وکالت نامہ صرف اسی کے ذکر سے بھر جائے گا لہٰذا، چلتے ہیں آخری 2 دلیلوں کی طرف۔ پہلی، عمران خان تھک ہار کر سیاست کو تیاگ دیں گے، پھر گوشۂ تنہائی میں کسی پروہت والی راہبانہ زندگی گزاریں گے۔ دوسری دلیل، وہ بہت جلد بوڑھے ہو جائیں گے اتنے بوڑھے کہ نواز شریف، شہباز شریف، سیاسی مولانا، سرحدی گاندھی کے پوتے سمیت دوسرے نوجوان لیڈرز، اُن کے سامنے پوتوں پھلیں گے اور دودھوں نہاتے نظر آئیں گے۔ 
بندگانِ شکم کی طرف سے کائونٹ ڈائون جاری ہے۔ لفافے، لفافیاں، 11 سالہ نوکریوں کی یادیں، نئی ڈیوٹیوں پر پہلی نظر کے خیالی مناظر ایک طرف لیکن ڈاکٹر مہاتیر بن محمد دوسری طرف۔ یہ کائونٹ ڈائون سیاسی سلسلۂ نجیبیہ، رزاقیہ کا فلسفہ دکھائی دیتا ہے‘ جس نے ملائیشیا کی سیاست میں سارے مَلائی ڈکیت اکٹھے کیے۔ پھر قومی وسائل سے ذاتی محلات اور خاندانی اثاثہ جات بناتے چلے گئے۔ یہ سوچ کر کہ ساڑھے 91 سال کا ڈاکٹر مہاتیر بن محمد کسی کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ مگر آسمانی خبریں دینے والے زمینی فرشتہ صفت مخبر دیکھتے ہی رہ گئے۔ قدرت کا قانون حرکت میں آیا۔ 92 سال کا صاف ستھرا مہاتیر محمد 35 سالہ تجربہ کار پارٹی کو روتے، پیٹتے، پیچھے چھوڑ کر ایک بار پھر ملائیشیا کا وزیر اعظم بن گیا۔ یہ ایک چنار اور پائن کے اونچے درختوںکا جھنڈ تھا اور ملائیشین وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر بن محمد کا سہ روزہ پاکستانی دورہ 21 تا 23 مارچ سال 2019۔ میں نے مارگلہ کی ایک چوٹی پر مہاتیر بن محمد صاحب کو گاڑی سے اترتے دیکھا تو وہ اس وقت زندگی کی 92 بہاریں مکمل اور ایک نصف بہار دیکھ رہے تھے۔ 
موت و حیات، رزق کی تنگی اور فراخی، عزت و ذلت صرف اور صرف مالکِ ارض و سما کے علم اور اختیار کا معاملہ ہے۔ انسان کے اس دنیا میں آنے کی تاریخ سب جانتے ہیں‘ لیکن اس جہانِ رنگ و بُو کو چھوڑ کر جانے کی تاریخ صرف ربِ کائنات جانتا ہے۔
ماجھے کے سکھ ذیلدار کا پڑوسی ماجھو میراثی تھا۔ گائوں کے سٹیج پر، چمکتے دمکتے میک اپ میں۔ بھڑکیلے زنانہ کپڑے پہن کر سوانگ رچاتا اور ذیلدار سے بات بے بات مار کھاتا رہتا۔ مسلسل مار کٹائی سے تنگ آ کر ایک دن اُس کی بیوی نے کہا، ماجھا چھوڑ کر مالوہ چلے چلتے ہیں۔ ماجھو میراثی حیران ہو کر بولا، کیوں بھلیے لوکے؟ بیوی نے کہا، کم از کم تم روز روز کی مار سے تو بچ جائو گے۔ ماجھو میراثی نے رازدارانہ لہجے میں اپنی بیوی کو تسلی دی: فکر نہ کرو، میرے پاس پلان ''اے‘‘ ہے۔ میں ہر روز آدھی رات کے بعد ذیلدار کی حویلی کی بڑی دیوار کی جڑ میں بَول کر آتا ہوں‘ چند دنوں میں بنیادیں ہل جائیں گی‘ ہم سکون کی نیند سوتے رہیں گے اور ماجھے کا ذیلدار دیوار تلے آ کر مارا جائے گا۔
اب کائونٹ ڈائون کا بزنس آسمانی خبروں تک آن پہنچا ہے۔ ہم آسمانی کائونٹ ڈائون چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں کیونکہ آسمان والا جانے اور آسمانی خبریں۔ آئیے ذرا، الیکشن کمیشن میں پینڈنگ کائونٹ ڈائون والے کیس کا قانون دیکھ لیتے ہیں۔ یہ ہے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر مجریہ 2002‘ جس کے آرٹیکل 13 کی ذیلی شق (1) میں لکھا ہے:
ہر سیاسی جماعت، (in such manner and in such form as may be prescribed or specified) ہر مالی سال کے اختتام پر 60 دن کے اندر الیکشن کمیشن کو چارٹرڈ اکائونٹنٹ سے آڈٹ شدہ پارٹی اکائونٹس کا حتمی بیان جمع کروانے کی پابند ہو گی‘ جس میں سیاسی جماعت کی سالانہ آمدنی اور اخراجات‘ اس کے فنڈ کے ذرائع‘ پارٹی کے اثاثہ جات اور واجبات کی تفصیل دینا ہو گی۔ ان تفصیلات کے ساتھ پارٹی لیڈر کے دستخط شدہ بیان پر مبنی سرٹیفکیٹ بھی جمع ہو گا۔ متعلقہ قانونی شق کی زبان درج ذیل ہے:
{(2) (a) No funds from any source prohibited under this order were received by the party} 
قانون آپ نے دیکھا‘ جس میں فارن فنڈنگ کا لفظ تک موجود نہیں مگر اس کے ٹِکر اور سرخیاں ٹڈی دَل کی طرح سچ پر حملہ آور ہیں۔ اب آئیے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے آرٹیکل 14 کی طرف‘ جس کا عنوان ہے: Eligibility of party to obtain election symbol۔ اس آرٹیکل میں شرط لگائی گئی ہے کہ statement of accounts اور اُوپر درج شُدہ سرٹیفکیٹ ہر سال داخل کروانے کے بعد ہی سیاسی جماعت انتخابی نشان حاصل کرنے کی اہل ہو گی۔ 
پی ٹی آئی کیس کے حوالے سے بنیادی نکتہ یہی ہے کہ اکائونٹس درست پائے جانے پر ہی اُسے 2018 کے عام انتخابات میں ''بَلے‘‘ کا نشان دیا گیا تھا جبکہ سارے ضمنی الیکشنز میں بھی یہی الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو مسلسل انتخابی نشان الاٹ کرتا آ رہا ہے۔ فیک نیوز پروپیگنڈے کا دوسرا حصہ پی ٹی آئی پر الیکشن کمیشن کے ذریعے پابندی لگوانے اور اُسے dissolve کروا دینے کا ہے۔ PPO, 2002 کے چیپٹر III میں آرٹیکل 15 کے نیچے، یہ اختیار صرف وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس ہرگز نہیں۔ آرٹیکل 15 کی ذیلی شق (1) کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
{15(1) Where the Federal Govt is satisfied that a political party is a "foriegn -aided" party or has been formed or is operating in a manner prejudicial to the sovereignty or integrity of Pakistan or is indulging in terrorism, it shall make such declaration by a notification in the official Gazette.}
اس آرٹیکل کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے۔ جب وفاقی حکومت کو اس بات کا اطمینان ہو جائے کہ کوئی سیاسی پارٹی فارن ایڈ سے چلتی ہے یا پاکستان کی ساورنٹی (Sovereignty) اور سالمیت کے خلاف کام کرنے یا دہشت گردی کے لئے بنائی گئی تو ایسی صورت میں وفاقی حکومت پارٹی تحلیل کرنے کا ایک نوٹیفکیشن آفیشل گزٹ میں چھاپے گی۔
مزید یہ کہ ایسا ہر ڈیکلریشن یا اعلامیہ 15 دن کے اندر وفاقی حکومت ریفرنس کے طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھجوانے کی پابند ہے۔ سپریم کورٹ کا ایسے ریفرنس پر فیصلہ فائنل ہو گا۔ سپریم کورٹ ایسے ریفرنس پہ سماعت کے بعد اگر اعلامیہ کو up-hold یعنی برقرار رکھتی ہے تو صرف ایسی صورت میں ہی متعلقہ سیاسی جماعت فوری طور پر تحلیل یعنی dissolve ہو جائے گی۔
پلٹ لیٹس کے کائونٹ ڈائون والے مریض کی لندن سے تازہ تصویر ابھی سوشل میڈیا پر پہنچی ہے۔ موصوف اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک بڑے شاپنگ مال میں داخل ہو رہے ہیں۔ پلیٹ لیٹس کے کائونٹ ڈائون کے ماہر ڈاکٹر تصویر بنانے والے کو کہہ رہا ہے No Pictures Please.
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا...

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved