معلوم نہیںآپ اس منظر کو المیہ کہیں گے یا طربیہ کہ پیپلز پارٹی کا کوئی ’عظیم رہنما‘ تاریخی شکست کے بعد ایک پریس کانفرنس میں اپنی ان طویل خدمات کا ذکر کرے جن کے بغیر اس پارٹی کی شکست ممکن نہ تھی۔ پھرفی الوقت پارٹی کے اس عہدے سے مستعفی ہو جائے جو کبھی منفعت بخش رہا ہو۔ عہدہ بھی ایسا جوکئی دُور اندیش تاجروں اور سرخ رُو دلالوں کو سرمایہ کاری پر اکساتا ہو،جو ایک درجن سے زیادہ نیک دلوں کو آپ اور آپ کے گھر والوں کا کفیل بنا دے جو آپ کو قیمتی گھڑیاں ہی نہیں سلے سلائے سوٹ، گاڑیاں،گھر،پلاٹ اورمعقول روزینہ کے علاوہ پانچ وقت کی روٹی بھی فراہم کریں۔ ’عظیم رہنما‘ کے کچن کا ’بارا اٹھانے ‘ کے دعوے داروں میں سے ایک دو کی باتیں سن کر مجھے دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر نوالے گننے والے آپ کے آس پاس ہوں تو سرائیکی وہم کے مطابق کھایا پیا ہضم نہیں ہوتا یا ’لگتا‘ نہیں۔ اسی طرح سائیں کی جگہ امتحان دینے والے کمّی جو فراخ دل نظامِ تعلیم کے باوجود احتراماً اپنے آقا کی لیاقت سے آگے نہ بڑھنا چاہتے ہوں‘ جنہوں نے یونیورسٹی میں سائیں کے والد ماجد کی تصویر ان کے مبارک ہاتھوں سے ایک بلاک میں آویزاں کرائی ہو ،تاریخ اور مطالعہ پاکستان کے استاد کو ہدایت کی ہو کہ تصویر کے نیچے جی کڑاکر کے ان کی قومی خدمات بھی تفصیل سے لکھ دی جائیں‘ اُسی یونیورسٹی کے کرتا دھرتا طوطا چشم ہو جائیں کہ بعد میں سائیں کی اولاد اور ان کے ہونہار دوستوں کی تعلیمی اسناد کی توثیق میں ٹال مٹول کریں۔ ایسے ہر موقعے پر فردوسی کے شاہنامے کا وہ مصرع یاد آتا ہے جو ہمارے ’عرب اسلاف‘ کی توہین کی نیت سے کہا گیا تھا: ’’تفوبر تُو، اے چرخِ گرداں تفو!‘‘۔ میرا خیال تھا کہ سائیں کے مستعفی ہوتے وقت ان کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے کچھ لوگ آب دیدہ ہو جائیں گے، مگر اس کے برعکس ان سب کے چہروں کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں،آنکھیں خشک اور ہونٹ جواریوں جیسے تھے۔میرے خیال میں ان کے اندیشے بے بنیاد نہیں ہوں گے۔ قدریں بدل گئی ہیں،غرض مند اب بے دید ہو چکے ہیں،جن کے کاموں کے لئے ’پیشگیاں‘ لی جا چکی ہیں اوران کے ہونے کا دُور دُور تک کوئی امکان نہیں، وہ دھاوا بول سکتے ہیں۔ دوسرے ہمارے فاتحین یعنی میاں صاحبان مستحق لوگوں کے جگر ٹرانسپلانٹ کرنے میں تو مدد گار ہو سکتے ہیں، مگر نیب جیسے ادارے کا محافظ کسی اپنے ’’جگر‘‘ کو ہی بنا سکتے ہیں۔ پی پی پی کے مستعفی ہونے والے وائس چیئر مین کی سادہ دلی کے تو اہلِ ملتان ایک عرصے سے قائل ہیں، جنہوں نے ملتان کی ایک مصروف سڑک پر واقع اپنے محل کی بیرونی دیوار کا ویسا ہی ہار سنگھار کرایا تھا،جیسا وہ خود کر کے سیلاب زدگان کی دل جوئی کے لئے شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ جاتے تھے۔ تب مصیبت زدوں کی سمجھ میں آتا تھا کہ بھٹو کی سیاسی وراثت کس بے دردی سے اور کن ہاتھوں لُٹ چکی ہے۔ان کے تین عشروں پر محیط سیاسی کیریئر کا جائزہ لینا میرا کام نہیں تاہم میں مصر کے نوبل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ کے ایک یادگار ناول ’’عام سے لوگ‘‘ کے کچھ جملے نقل کرنا چاہتا ہوں: ’’وہ بڑا ہوا تو صوفیوں کی خانقاہ کے دروازے جیسا پُرشکوہ ہو گیا،لمبا چوڑا۔اس کے بازو اتنے ٹھوس تھے جیسے پرانے شہر کی دیوار اور ٹانگیں جیسے برگ ریز کے درخت کا تنا۔ اس کا سر بڑا اور متوازن تھا اور اعضا میں تناسب،جس میں قوتِ جسمانی فراوانی سے بہہ رہی تھی۔اس کی قوتِ برداشت اور لبوں پہ مسکراہٹ قابلِ دید ہوتی تھی۔ شیخ اکثر اس سے کہا کرتا‘ تمہاری طاقت لوگوں کی خدمت کے لئے ہونی چاہیے، شیطانوں کے لیے نہیں‘‘۔ ان سے پہلے گورنر پنجاب احمد محمود مستعفی ہوئے ہیں۔ میری یادداشت اچھی نہیں،ممکن ہے کہ میں کچھ واقعات اور کرداروں کو گڈ مڈ کر رہاہوں؛ تاہم ایک مدھم سا تاثر ایک پرانی خبر کا میرے حافظے میں بھنبھنا رہا ہے کہ کوئی لاہور کے والٹن ائر پورٹ پر شہری ہوا بازی کے کسی طیارے سے گرا تھا، ان کے ساتھ پی ٹی وی کی کوئی اداکارہ بھی تھیں۔وہ خود تو محفوظ رہے تھے مگر میری پسندیدہ اداکارہ اور میرا دل کچھ کچھ زخمی ہو گیا تھا۔احمد محمود تنہا جانے کے قائل نہیں،وہ اس مرتبہ گیلانی صاحب کو ساتھ لے کر گئے ہیں۔ میرے ساتھ یہ مسئلہ بھی ہے کہ عام آدمی ہونے کی وجہ سے خاندانی لوگوں سے میں کچھ نفسیاتی اور کچھ درسی اسباب کے کارن چڑتا ہوں،کیونکہ ارسطو کی بوطیقا کے حوالے سے المیے اور طربیے کی فنی نزاکتوں کے فرق پر بات کرتے ہوئے میں ہمیشہ شاگردوں سے کہتا تھا کہ یہ طبقاتی مسئلہ ہے۔ ممکن ہے کہ بعض جیالوں کے لئے احمد محمود اور یوسف رضا گیلانی کا مستعفی ہونا المیہ ہو اور جمشید دستی کی علیحدگی ایک طربیہ۔ یہ اور بات کہ جمشید دستی بھی اب عام آدمی نہیں رہا،جب وہ حنا ربانی کھر کے حلقے میں چیلنج کرنے پہنچا تھا تووہ اس علاقے کے ایک بر گزیدہ شخص کے نام کی مالا جپ رہا تھا،اس لئے جب وہ ایک مرحلے پرنااہل ہوا تھا تو میں نے ’گونگا پہلوان اور نازو بگھیلا‘ کے لازوال کرداروں کے حوالے سے لکھا تھا کہ آپ دیکھتے جائیے،جمشید دستی کا مستقبل بڑا روشن ہے۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ وہ جس کی مالا جپتے ہیں،وہ عارضی طور پر اپنے بیٹے سے ناراض ہوئے تھے مگر خدا کا شکر ہے کہ قومی یک جہتی کے دن میں نے انہیں اپنے بیٹے کے ہمراہ ووٹ ڈالتے دیکھا تو احساس ہوا کہ مریدوں کی دعائیں بھی باریاب ہو سکتی ہیں۔جمشید اپنے علاقے میں رابن ہڈ کا مقامی ایڈیشن ہے،مگر اس نے کوشش کی کہ اپنی فکری سطح کو اتنا بلند کر لے کہ مسلم لیگ ن کے دروازے اُس پر کھل جائیں۔مظفر گڑھ میں میرے بہت سے پیارے رہتے ہیں،اس لئے مسلم لیگ ن کے لئے عبد القیوم جتوئی کے شوق وصال کا ذکر نہیں کرتا۔ ویسے آپ کو یاد تو ہو گا کہ جس دن اسمبلی کے ارکان کی حلف برداری ہونی تھی،اس سے ایک رات پہلے وہ کہاں سے پکڑے گئے تھے اور پھر دفاعی پیداوار کا وزیرِ مملکت بن کر وزارت چھنوا بیٹھنے والا وہ بیان تو آپ کو یاد ہو گا جو نیم مدہوش یا اسلم رئیسانی اسلوب میں دیا گیا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved