بھارتی سپریم کورٹ نے لگ بھگ 27 سال بعد‘ 1992ء میں شہید کی گئی‘ تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندوؤں کو متنازع زمین دینے اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر جہاں ہندوؤں کی جانب سے جشن منایا گیا‘ وہیں مسلمانوں کی جانب سے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار بھی کیا گیا۔بہت سارے لوگ؛ اگرچہ بابری مسجد کی شہادت سے کسی نہ کسی طرح باخبر ہیں‘ تاہم کئی افراد کو اس تاریخی مسجد کی مفصل تاریخ کا علم نہیں۔
جنگل کی دنیا سے باہر نکلیں اور انسانوں کے مہذب معاشروں پر نظر دوڑائیں‘ تو نہتے اور بیگناہ لوگوں کو تہ ِتیغ کرنے والا ہی ہلاکوخان‘ چنگیزخان کہلایا ہے۔ منطق کی رو سے؛ اگرچہ ایسے فاتحین اور بھیڑیوں میں کوئی فرق نہیں‘تاہم انسان اور حیوان کے القابات کی حرمت کا خیال مانع ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے میں پانچ رکنی بنچ میں مسلمان جج ایس عبدالنذیر بھی شامل تھے۔جسٹس ایس عبدالنذیر کی دین سے رغبت پر انگلی اٹھانے کا حق نہیں بنتا ‘مگر قیاس ہے کہ نقارخانے میں طوطی کی آواز کس نے سنی ہو گی۔ عدالتی فیصلے میں ایک عجیب منطق گھڑی گئی کہ بابری مسجد کی جگہ مندر نہ بنایا گیا تو مودی سرکار بھی نہیں رہے گی۔انصاف جب حکومتوں کے رہنے یا نہ رہنے کی ضمانت سے مشروط ہو جائے تو پھر خدا کی پناہ۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مسلمانوں کو پانچ ایکڑ متبادل زمین دینے کا حکم دیا ہے‘ لیکن بات زمین کے ٹکڑے کی نہیں‘ حصول ِانصاف کی ہے۔
بابری مسجد مغل سلطنت کے بادشاہ اول محمد ظہیرالدین بابرسے منسوب ہے ۔ 1528ء میں صوبہ اترپردیش کے فیض آباد ضلع میں ایودھیا کے مقام پر وہاں کے گورنر میر باقی اصفہانی کی زیرنگرانی سرکاری خزانہ سے سے یہ مسجد تعمیر کروائی گئی۔ پوری مسجد کو پتھروں اور چھوٹی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا‘جس میں صحن بھی شامل تھا۔ چھت کے ساتھ تین گنبد بنائے گئے ‘جن میں درمیانی گنبد بڑا اوراطراف میںدو چھوٹے گنبد تھے۔ مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو بلند بنایا گیا ۔روشنی اور ہوا کے لیے جالی دار کھڑکیاں نصب تھیں۔ مسجد کے مسقف حصہ میں تین صفیں تھیں اور ہر صف میں ایک سو بیس نمازی کھڑے ہوسکتے تھے۔ صحن میں چار صفوں کی وسعت تھی۔ اس طرح بیک وقت ساڑھے آٹھ سومسلمان نماز ادا کرسکتے تھے۔ اندرونی تعمیر میں ایک انتہائی خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصے میں آسانی سے سنا جا سکتا تھا۔ الغرض یہ اسلامی فن تعمیر کا شاہکار تھا۔
تعمیر مسجد کے بعد سے بلاناغہ مسلسل اذان اور نماز ہوتی رہی۔ امام اور مؤذن بھی مقرر ہوتے رہے۔ساڑھے تین سو سال کے بعد1855ء میں جب ہندوستان پر انگریز قابض ہوئے ‘ ان کے خلاف ہندو مسلم متحد ہوئے۔ انگریزوں نے ایک بدھسٹ نجومی کے ذریعہ ایک کہانی گھڑوائی کہ شری رام چندر جی کی جنم استھان (جائے پیدائش) اور شرمتی سیتا کی رسوئی (باورچی خانہ) بابری مسجد کے احاطہ میں ہے۔ ہندؤوں نے اس مقام پر پوجا کرنا چاہی‘ یہیں سے اختلاف شروع ہوا۔1857ء کے حالات کی وجہ سے علاقہ کے مسلم رہنما امیرعلی اور ہندو رہنما بابا چرن داس کے درمیان ایک معاہدہ ہوا‘دونوں نے مسجد اورپوجا کی جگہ کو تقسیم کرلیا‘ مگر انگریز وںکو یہ بات ناگوار گزری۔ فیض آباد پر قابض ہوتے ہی ا نہوں نے ان دونوں کو ایک ساتھ املی کے پیڑ پر ٹکاکر پھانسی دے دی اور ان کی طرف سے کئے گئے معاہدہ کو کالعدم قرار دے دیا‘ مگر محض دو سال کے بعد ہی1895ء میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی جانب سے عبادت کی جگہ کو جنگلہ لگاکرتقسیم کر دیا گیا۔ اس طرح کے اختلافات کی وجہ سے1860ء بابری مسجد کی باضابطہ طور پر رجسٹریشن کرائی گئی۔
15 جنوری 1858ء کو سب جج فیض آباد کی عدالت میں مسجد سے سو قدم کے فاصلے پر رگھوبر داس نامی شخص نے مندر تعمیر کرانے کی اجازت مانگی‘ جو رد ہوئی‘اسی طرح1934ء میں ایودھیا کے قریب ایک گاؤں میں گاؤ ذبیحہ کی بنیاد پر ہندو مسلم فساد شروع ہوئے۔ ہندؤوں نے مسجد کو نقصان پہنچایا ‘ مگر انگریزحکومت نے سرکاری خزانہ سے اس کی مرمت کر ا دی۔ہندوستان کی آزادی کے محض دو سال کے بعد ہی‘ یعنی22اور23 دسمبر1949ء جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات ایودھیا کے ہنومان گڑھی مندر کے مہنت ''ابھے رام داس ‘‘ نے اپنے کچھ چیلوں کے ساتھ مسجد میں گھس کر عین محراب کے اندر ایک مورتی رکھ دی۔ صبح جب مؤذن صاحب اذان دینے کیلئے آئے تو محراب کے پاس مورتی دیکھ کر حیران ہوگئے‘ پھر دھیرے بات پھیلتی گئی۔ ہندؤوں سے پوچھنے پر ا نہوں نے جھوٹ کا سہارا لیا اور کہا کہ مورتی اچانک نمودار ہو گئی ہے‘ لیکن بااثر لوگوں کے کہنے پر مورتی ہٹادی گئی۔ مسلمانوں نے فجر کی نماز جیسے تیسے ادا کی۔ دن چڑھنے کے ساتھ یہ بات پورے ملک میں پھیل گئی۔
فیض آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے وزیر اعلیٰ اترپردیش پنڈت گووند ولبھ پنت چیف سکریٹری اور ہوم سکریٹری کے نام اس مضمون کو کچھ اس طرح کاغذ پراتارا: ''23 دسمبر کی رات میں جب مسجد میں سناٹا تھا۔ اچانک کچھ ہندو وہاں گھس گئے اور غیر قانونی طور سے ایک مورتی وہاں نصب کردی۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے کے نائر اور سپرنٹنڈنٹ نے فوراً ہی جائے واردات پر پہنچ کر صورتحال کو قابو میں کیا‘‘۔ یہ بیان ایک کانسٹیبل ماتا دین کی عینی شہادت پر مبنی تھا ‘ مگرساتھ ہی نقص ِ امن کے خطرہ کے پیش نظر مورتی کو دوبارہ وہیں پر رکھوادیا اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ جمعہ کی نماز دوسری جگہ پڑھ لیں ۔ وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے وزیر اعلیٰ پنڈت گووند ولبھ پنت کو سخت ہدایت دی کہ مسجد کے ساتھ ناانصافی کو ختم کیا جائے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اس پر عمل کرنے کی بجائے استعفیٰ دے دیا۔9 دسمبر1949ء کوسٹی مجسٹریٹ مارکنڈے سنگھ نے عمارت کو سرکاری تحویل میں لے لینے کا حکم دیا۔ نقص ِامن کا بہانہ بنا کر دفعہ 140 کے تحت مسجد میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی عائد کرد ی گئی۔ مسجد میں تالا لگوادیا گیا۔مورتی اندر رہ گئی۔ دوسری طرف پوجا کیلئے چار پجاری مقرر کردئے گئے اور فیض آباد ایودھیا میونسپل بورڈ کے چیئرمین بابو پریا د رام کو نگران مقرر کردیا گیا اور انہیں اختیار دیا کہ وہ دیکھ بھال کریں اورنظم و نسق کیلئے سکیم بناکر منظوری لیں؛ چنانچہ حکم کے مطابق‘ باہر ہی سے مورتی کی پوجا ہوتی رہی اوریوں مسلمان بابری مسجد میںنماز پڑھنے سے محروم ہوگئے۔
اور اب بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق‘ رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندوؤں کو متنازع زمین دینے اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔