تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     26-11-2019

سیاست کا گرداب گھر

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی تازہ ترین سیاسی صورتحال گزشتہ سے پیوستہ ہے۔ جیسا کہ 22 نومبر کو تحریر کیا گیا تھا کہ جڑواں شہروں؛ اسلام آباد اور راولپنڈی کا سیاسی موسم ابر آلودہے اورمطلع صاف ہونے میں چند روز اور لگیں گے‘ لیکن خلافِ توقع یہ موسم اندازے کے برعکس کْچھ پہلے ہی صاف ہوگیا اورپرواز کی بحفاظت لینڈنگ بھی ہوچکی۔ پائلٹ ‘معاون پائلٹ ‘ عملے کے ارکان اور تمام مسافر خوش ہیں کہ موسم صاف ہوتے ہی نارمل لینڈنگ ہوئی اور فی الوقت کسی قسم کا کوئی نقصان بھی نہیں ہوا۔سب لوگ اپنی اپنی منزل پر روانہ ہوچکے ہیں؛البتہ باہم رابطوں کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔پائلٹ اور معاون پائلٹ کے درمیان ہونے والی آخری ملاقات کے مندرجات کو بیان کرنے کیلئے پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ 
مولانا کا دھرنا اور آزادی مارچ کوختم ہوئے دو ہفتے ہونے کو ہیں‘ لیکن اس کے آفٹر شاکس مسلسل محسوس کئے جارہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ شاکس کا سلسلہ تھم گیا ہو۔چھوٹی چھوٹی سیاسی بغاوتوں کے اٹھنے کی خبریں آرہی ہیں‘ گو کہ بظاہر ان سیاسی بغاوتوں کو پی ٹی آئی کی حکومت غیر سنجیدہ لے رہی ہے اور راوی چین لکھ رہا ہے ‘لیکن چودھری پرویز الٰہی اور مولانا فضل الرحمن نے ایک دوسرے کو جو امانت سپرد کی ہے اس کی پُراسراریت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔دونوں رہنما اس بات پر قائم تھے کہ دونوں کے پاس جو امانت ہے‘ اسے راز میں رکھنا بھی ایک امانت ہے اور وہ دونوں اس امانت کے امین رہیں گے؛تاوقتیکہ مناسب وقت نہ آجائے اوریہ امانت عملی طور پر وقوع پزیر نہ ہوجائے‘ تاہم مولانا فضل الرحمن نے پہلے اپنی جماعت کے شوریٰ کے اجلاس میں سارے راز مزے لے لے کر بیان کئے اور اپنی جماعت کو بتایا کہ وہ آزادی مارچ شروع کرنے سے پہلے تنہا تھے اور نہ جانے کے بعد تنہا ہیں اور یہ کہ دھرنا ختم کرنے کیلئے بھی ان کی جھولی میں میں کافی کْچھ ڈالا گیا۔ مولانا نے اب اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیاہے کہ وزیراعظم عمران خان کے استعفیٰ کے ہم وزن وہ کیا چیز تھی ‘جو انہیں دی گئی۔مولانا نے برملا بتا دیا کہ دھرنا ختم کرنے سے پہلے انہیں اِن ہاؤس تبدیلی یا پھر آئندہ سال مارچ سے پہلے نئے انتخابات کی مضبوط یقین دہانی کروائی گئی ہے۔قبل ازیں مولانا یہ بھی دعوی کرچکے ہیں کہ انہیں گورنر بلوچستان بنانے‘ بلوچستان میں جے یو آئی کی حکومت سازی اور مولانا کو قومی اسمبلی کا رکن بنانے کی بھی پیشکش کی گئی‘ جو انہوں نے مسترد کردی۔
یہ خبریں اور مولانا کے دعوے وزیراعظم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں تک پہنچے تو انہوں نے ورطۂ حیرت میں ایک دوسرے کے چہروں کی طرف دیکھا اور سوال کیا کہ یہ تمام پیشکشیں اور یقین دہانیاں کس نے کروائیں؟کیاحکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے کروائیں؟ اگر کروائیں تو کس کے کہنے پر کروائیں؟حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ایک ایک رکن نے واضح طور پر کہا کہ ان کی طرف سے مولانا کو ایسا کچھ پیش نہیں کیا گیا۔بات وزیراعظم عمران خان تک بھی پہنچ چکی ہے‘ وہ بھی پہلے پہل تو غصے میں آئے‘ لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ مولانا بلّف کررہے ہیں ‘کیونکہ پرویز خٹک‘ اسد عمر‘شفقت محمود اورجناب نورالحق قادری کی طرف سے ایسی کوئی پیشکش اور یقین دہانی نہیں کروائی گئی‘ جس کا وہ دعوی کررہے ہیں‘پھر پوچھا گیا کہ کیا حکومتی مذاکراتی ٹیم یا کسی حکومتی اتھارٹی نے چودھری پرویز الٰہی کو ایسا کوئی پیغام مولانا کو پہنچانے کے لیے دیا؟ کیا مصلحتاًایسا کیا گیا؟وزیراعظم کو جواب دیا گیا کہ ہرگز ایسا نہیں کیا گیا۔اور جب حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے مذاکرات ختم ہوگئے تھے ‘تو اس کے بعد کوئی باضابطہ رابطہ یا ملاقات نہیں ہوئی ؛البتہ پرویز خٹک اور اکرم درانی باہم رابطے میں رہے‘ لیکن پروز خٹک نے اس دوران بھی کوئی پیشکش نہیں کی‘پھر وزیراعظم عمران خان کی طرف سے پوچھا گیا کہ کیا کسی حکومتی رکن نے چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین کومولانا سے مذاکرات کرنے کو باضابطہ طور پر کہا؟اس کاجواب بھی نفی میں دیا گیا۔چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے یہ پُراسرار امانت سپرد کرنے کا معما حل ہونے کو نہیں آرہا۔ وزیراعظم نے اپنے معتمد خاص کو بلایا اور پوچھا کہ اپنے اس کورس میٹ سے پوچھو‘ جنہیں ان کی سفارش پر اہم عہدہ دیا گیا کہ وہ اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کررہے‘ جن کا کام ہی ایسی خبروں پر نظر رکھنا ہے‘ معتمد خاص خاموش رہے‘ تاہم انہوں نے اصل حقائق سامنے لانے کے لیے کْچھ وقت مانگ لیا ہے‘کہ مولانا کی ان خبروں اور دعووں اور یقین دہانیوں کے پیچھے کون ہے اور کیا یہ خبریں حکومت کو پریشان کرنے کے لیے تو نہیں پھیلائی جارہی ہیں؟کیا یہ محض ڈس انفارمیشن ہے‘ جس کا واحد مقصد عدم استحکام پیدا کرنا ہے؟ ان تمام سوالوں کا مفصل جواب بہت جلد وزیراعظم کو دے دیا جائے گا؛بشرطیکہ ان سوالوں کا جواب تلاش کرلیا جائے۔
مولانا کے نئے دعووں کے سامنے آتے ہی چودھری پرویز الٰہی بھی اسلام آباد پہنچ گئے ہیں اور مولانا سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے‘ جبکہ مولانا نے اپوزیشن کا سربراہی اجلاس بھی بلا لیا ہے‘ جس میں بلاول بھٹو زرداری خود شریک ہوں گے؛ البتہ شہباز شریف نے راجہ ظفرالحق کی قیادت میں اپنا وفد بھیجنے کا اعلان کیا ہے اور مریم نواز کو مولانا کی خواہش کے باوجود اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔ مریم بی بی نے شہباز شریف کا حکم بھی مان لیا ہے؛ البتہ پہلے کل جماعتی اجلاس میں مریم بی بی نے شرکت کی تھی۔ مریم نواز کی عدم شرکت سے ایسی اطلاعات کو تقویت ملی ہے کہ مریم نواز کا غیر فعال رہنا اس مفاہمتی پیکیج کا حصہ ہے ‘جس کے تحت شریف فیملی انتہائی آرام دہ ماحول میں چلی گئی ہے۔
دھرنے کے آفٹر شاکس کے ساتھ ساتھ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ستارے مسلسل گردش میں ہیں۔ ایک افتاد سے نکلتے ہیں تو کوئی دوسری افتاد سامنے سینہ تانے کھڑی ملتی ہے ۔عمران خان کے بارے میں انہی کے قبیلے کے شاعر منیر ؔنیازی کا ارشاد فرما گئے تھے۔؎
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو 
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا 
انہی میں سے ایک افتاد غیر ملکی فنڈنگ کیس ہے‘ جسے ٹالتے ٹالتے نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب یہ کڑوا گھونٹ اگلا جارہا ہے‘ نہ نگلا جارہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ آن پہنچی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے نامزد کردہ سردار رضا خان انہی اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کے مطالبے پر پی ٹی آئی کے مقدر کا فیصلہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔گو کہ ایک ڈھیلا ڈھالا سا بیان جاری کرکے کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے پندرہ روز میں فیصلہ کرنے کا نہیں کہا ‘لیکن اگر وہ ایسا کرنا چاہیں تو ایسا کرنے سے انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔اس لیے پانچ دسمبر تک یہ تلوار لٹکتی رہے گی۔
لیکن ان تمام چیلنجز سے بے نیاز وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کو اب بھی ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں اور ہر روز باؤنسر پر باؤنسر مار رہے ہیں۔اپنی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہیں ‘مضبوط معیشت کی نوید سناتے ہیں‘تاہم اس سب کے باوجود انہیں ان کے خیر خواہ گورننس کو بہتر کرنے کے لیے وفاق ‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سیاسی اور انتظامی تبدیلیاں کرنے کو ناگزیر قرار دے رہے ہیں ۔وزیراعظم نے ملاقاتوں اور مشوروں کا سلسلہ شروع کردیا ہے‘ تاہم ابھی بھی وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے کپتانوں کو تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔وقت گزرتا جارہا ہے اور عمران خان معمولی تبدیلیوں سے کام چلانا چاہتے ہیں‘ جبکہ تیزی سے بدلتی صورتحال کْچھ زیادہ کا تقاضا کررہی ہے۔سیاست میں بار بار دھوکہ کھانااچھی علامت نہیں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved