تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     26-11-2019

نوازشریف کتنے بیمار ہیں؟

مسلم لیگ(ن) کو کسی جواب آں غزل یا کسی جوابِ دعویٰ میں پڑنے‘ کسی بحث مباحثے میں الجھنے کی ضرورت نہیں‘ شہبازشریف کا مختصر سا جواب کافی وشافی ہے۔ لندن میں اخبار نویسوںنے میاں نوازشریف کی صحت کے حوالے سے جنابِ وزیر اعظم کے تازہ ریمارکس پر تبصرہ چاہاتوشہبازشریف کا جواب تھا‘ میں میاں صاحب (نوازشریف) کے علاج کے لیے آیا ہوں‘ اور یہاں پاکستانی سیاست پر بات نہیں کرناچاہتا۔(وزیر اعظم صاحب کے ریمارکس کے حوالے سے یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ)انہیں ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں‘ ان غیر ذمہ دارانہ بیانات سے انہوں نے اپنی ہی حکومت اور اپنے ہی شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹروں کو رسوا کیا۔
جمعرات(21نومبر کو)جناب وزیر اعظم سے طویل ‘غیر رسمی اور بے تکلف ملاقات کرنے والے اخبار نویس کا کہناتھا کہ انہوں نے وزیر اعظم صاحب کو احساس دلایا کہ اپوزیشن کو چور‘ ڈاکو‘ لٹیرے‘ بے ایمان اور بدعنوان قرار دینے ‘ انہیں این آر او نہ دینے اور کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے بہت ہوچکے‘ اب انہیں عام آدمی کی حالت بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اخبار نویس کے بقول ‘جناب وزیر اعظم نے وعدہ کیا کہ وزارتِ عظمیٰ کے باقی ماندہ ساڑھے تین سال میں ان کا فوکس ڈیلیوری اور گورننس پر ہوگا‘ لیکن ا گلے ہی روز میانوالی کے جلسے میں جناب وزیر اعظم کا اپوزیشن کے بارے میں وہی روایتی لب ولہجہ تھا‘ البتہ نئی بات نوازشریف کی صحت (اور بیرون ملک جانے) کے حوالے سے تھی... فرمایا ‘میں نے انہیں جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھا‘ تو ڈاکٹرو ں کی رپورٹس نکالیں‘ جن میں پندرہ بیماریوں کا ذکر تھا۔ دل بھی خراب ہے‘ گردے بھی خراب ہیں‘ شوگر کا مسئلہ بھی ہے‘ بلڈ پریشر بھی ہے اور پلیٹ لیٹس کا معاملہ بھی ہے(وزیر اعظم صاحب کے بقول‘ پلیٹ لیٹس کے الفاظ انہوں نے پہلی بار سنے تھے) ان رپورٹس کے مطابق حالت اتنی خراب تھی کہ کسی بھی وقت مرسکتا تھا۔ اللہ کی شان اب وہ ٹھیک تھا‘ وہ جہاز دیکھ کر ٹھیک ہوگیا‘ یا لندن کی ہوا نے اثر دکھایا‘ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ 
اس تقریب میں پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بھی‘ پہلی قطار میں موجود تھیں۔ یہ ڈاکٹر صاحبہ ہی تھیں‘ جو جنابِ وزیر اعظم کی ہدایت پر سروسز ہسپتال میں نوازشریف کے ''قیام‘‘ کے دوران ان کے علاج معالجے کی نگرانی کرتی رہیں۔ اس حوالے سے تازہ ترین ''ہیلتھ بلیٹن‘‘ بھی ‘ وہی میڈیا بریفنگ میں جاری کرتیں۔ یہ بات بھی ان ہی کی زبانی دنیا کے علم میں آئی کہ نوازشریف جس شب ہسپتال آئے‘ ان کے پلیٹ لیٹس کی تعداد 10ہزار تھی جواگلی صبح دوہزار تک رہ گئی۔ مریض کے علاج معالجے کے لیے سینئر ڈاکٹروں پر مشتمل ٹیم بھی حکومت ہی نے بنائی تھی جس کے ارکان کی تعداد چھ سے بڑھ کر10 تک ہوگئی تھی۔ اس کا صرف ایک رکن نوازشریف کا ذاتی معالج (ڈاکٹر عدنان)تھا۔ جناب وزیر اعظم نے اپنے شوکت خانم ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر فیصل سلطان کو بھی اس میں شامل ہونے کے لیے کہا۔ڈاکٹر طاہر شمسی بھی کراچی سے آتے رہے (طاہر شمسی پاکستان میں امراضِ خون کے سب سے بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں) میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں‘ مریض کی ''کریٹیکل کنڈیشن ‘‘ کے باعث بیرون ملک علاج کی سفارش کی گئی تھی(میڈیکل بورڈ کے مطابق پاکستان میں جدید ترین ٹیسٹنگ لیبارٹریز اور ماہر ترین ٹیکنیشنز بھی پلیٹ لیٹس گرنے کے اسباب کا تعین نہیں کرسکے تھے)
مختلف ٹی وی چینلز پر انٹرویوز میں چودھری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم سے ملاقات میں‘ میاں صاحب کی صحت پر بات ہوئی تو انہوں نے چودھری برادران سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے علاوہ انہوں نے اپنے طور پر بھی تصدیق کی ہے‘ شوکت خانم والے ڈاکٹر فیصل سلطان کے علاوہ انہوں نے نہر کنارے ایک اور ہسپتال کے ڈاکٹر صاحب کا نام بھی لیا(اور یہ بھی کہا کہ یہ ڈاکٹر صاحب سیاسی لحاظ سے نون لیگ کے مخالف ہیں)ان سب کی رائے تھی کہ نوازشریف کی صحت کا معاملہ تشویش ناک ہے۔ ان ہی دنوں وزیراعظم نے ایک ٹویٹ میں اپنے سیاسی حریف کے لیے دعائے صحت کے ساتھ انسانی ہمدردی کے تحت اسے بیرونِ ملک علاج کی اجازت دینے کا اعلان بھی کیا (چودھری پرویز الٰہی حیران تھے کہ بعدمیں حکومت نے اس کے لیے 7ارب کے انڈیمنٹی بانڈ کی شرط کیوں رکھ دی‘ جسے عدالت عالیہ نے ماورائے قانون قرار دیدیا)تب انسانی ہمدردی کے جذبے کی فراوانی کا یہ عالم تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنا جہاز نوازشریف کے علاج کے لیے وقف کرنے کا اعلان کردیا تھا‘ کہ باہر سے ڈاکٹر لانے میں تاخیر نہ ہو۔اور پھر 19نومبر کو نوازشریف لندن روانہ ہوگئے۔ اب نئی کہانیاں تھیں ‘ مثلاً یہ کہ ‘ یہ ایئر ایمبولینس نہیں‘ قطر ایئر ویز کی چارٹرپرواز تھی‘ احسن اقبال نے اس کے اندر آپریشن تھیٹر اور جملہ طبی سہولتوں کی ویڈیوز جاری کردیں۔
جناب وزیر اعظم نے جہاز کی سیڑھیاں چڑھنے کی بات کی ہے‘ (ان کے بقول ‘ انہوں نے خود سیڑھیاں چڑھتے دیکھا) لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس حوالے سے انہوں نے فواد چودھری کے ٹویٹ پر اعتبار کیا‘جس میں موصوف نے (نوازشریف کے ) بھاگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے کی بات کی تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ سیڑھی نہیں ‘یہ ایمبولیٹر(لفٹر)تھا‘جس کے ذریعے نوازشریف ایمبولینس کے دروازے تک پہنچے تھے۔ لندن پہنچ کر بھی‘ وہ اپنے قدموں پرچلتے ہوئے‘ حسن نواز کے فلیٹ کی لفٹ میں داخل ہوئے۔ انہوں نے اپنا کوٹ بازو پر ڈالا ہوا تھا۔ 
نوازشریف کے اصل مسئلے پر ذرا سی توجہ بھی دیں تو معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ دل ‘ گردے‘ شوگر اور بلڈپریشر کا عارضہ قدیم ہے‘ تازہ ترین مسئلہ بلڈ پلیٹ لیٹس کا گرنا ہے۔ اس کے لیے پلیٹ لیٹس جسم میں داخل کئے جاتے ہیں۔ لاہور سے پرواز کے وقت پلیٹ لیٹس کی تعداد 40ہزار تھی۔ احتیاطاً پانچ میگا یونٹ بھی ساتھ لے لیے گئے ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مریض کی کمزوری رفع کے لیے اسے گلوکوز دیدیا جاتا ہے۔ یانشہ باز‘ نشہ ٹوٹنے کے بعد ادھ موا ہوجاتاہے‘ اور نشے کی نئی ڈوز لیتے ہی ''رستم زماں‘‘ بن جاتاہے۔ لیکن مسلسل پلیٹ لیٹس دینے(یا سٹیر ائڈ کے استعمال) کے اپنے اثرات ہوتے ہیں‘ خصوصاً اس مریض کے لیے جو دل ‘ گردوں ‘شوگر اور بلڈ پریشر جیسے عوارض کا شکار ہو)میاں صاحب منگل کی شب لندن پہنچے اور اگلے ہی دن ان کے طبی معائنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہفتے کو لندن یونیورسٹی کالج ہسپتال میں ڈاکٹرڈیوڈلارنس جیسے عالمی شہرت یافتہ کارڈیک سپیشلسٹ نے ان کا معائنہ کیا۔
یہ اپنے قدموں پر چلنے‘ ہشاش بشاش نظر آنے کا معاملہ بھی مریض کی قوتِ ارادی‘ اس کی ہمت اور حوصلے پر منحصر ہوتاہے۔ہمارے احباب میں ایسے بھی ہیں‘دوچھینکیں آجائیں‘ ہلکا سا نزلہ زکام ہوجائے تو جان پر بن آتی ہے‘ کمبل لے کر بستر میں جاگھستے ہیں اور ایسے بھی ہیں کہ اچھی خاصی بیماری کو بھی لفٹ نہیں کراتے ۔کچھ لوگوں کو کسی کے سہارے چلنا ناگوار ہوتاہے۔ ہم ان ہی دنوں قائد اعظم پر لکھی گئی کتاب ''دی گریٹ لیڈر‘‘ میں‘ ان کے اے ڈی سی بریگیڈیئر (ر)این اے حسین کا انٹرویو پڑھ رہے تھے۔ تب وہ ینگ آرمی آفیسر تھے۔لکھتے ہیں؛10ستمبر کی رات کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش نے فیصلہ کیا کہ کل قائد اعظم کو کوئٹہ سے کراچی لے جانا ہے۔فاطمہ جناح نہیں چاہتی تھیں کہ لوگ قائد اعظم کو سٹریچر پر دیکھیں۔ خود قائد اعظم بھی نہیں چاہتے تھے۔ وہ کہتے تھے ‘میں تب کراچی جائوں گا جب کار سے اپنے دفتر تک اپنے قدموں پر چل کر جاسکوں... ایک دفعہ قائد اعظم گارڈآف آنر کا معائنہ کررہے تھے‘ انہوں نے ایک سینئر فوجی افسر کا ہاتھ اپنے بازو سے محض اس لیے جھٹک دیا کہ ڈائس پر سے اترنے میں وہ ان کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved