تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     26-11-2019

ہر روز نیا ڈرامہ‘ نیا جھوٹ

بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی رہنما ونیت اگروال نے پاکستان اور چین پر الزام عائد کیاہے کہ نئی دہلی میں فضائی آلودگی اور سموگ کی اصل وجہ ان دونوں ملکوں کی طرف سے زہریلی اور انتہائی نقصان دہ قسم کی گیسوں کا اخراج اور کیمیائی محلول کا سپرے ہے۔ بھارت کے ایک نجی ٹی وی چینل پر اپنے انٹرویو میں ونیت اگر وال نے کہا ''یہ جو زہریلی ہوا آ رہی ہے‘ زہریلی گیس آئی ہے‘ ہو سکتا ہے کہ کسی ہمسایہ ملک نے چھوڑی ہو‘ جو ہم سے گھبرایا ہوا ہے۔ہمیں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ آیا پاکستان نے کوئی زہریلی گیس تو نہیں چھوڑی؟‘‘۔ونیت اگروال نے ٹی وی چینل کے اینکر کے سوال پر بتایا کہ انہیں اپنے اس الزام کی سچائی پر پورا یقین ہے‘ کیونکہ چین اور پاکستان بھارت کی پھیلتی ہوئی معیشت اور صنعتی و سفارتی ترقی سے خوفزدہ ہو چکے ہیں‘ اس لئے یقینا پاکستان نے چین کی مدد سے تیار کی گئی انتہائی زہریلی گیس نئی دہلی کی فضائوں میں سپرے کرائی ہے ۔ اگروال نے کہا کہ انہوں نے مودی جی سے درخواست کی ہے کہ پاکستان سے اس معاملے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے اس سے باز پرس کریں۔ علا وہ ازیں نئی دہلی اوراس کے مضافات کے کروڑوں لوگوں کی صحت کو متاثر کرنے کے جرم میں اقوام متحدہ سمیت فضائی آلودگی اور ماحولیات کے عالمی ادارے بھی اس کا نوٹس لیں۔
بھارت کے دارالحکومت دہلی اور دیگر علاقوں میں فضائی آلودگی کوئی نئی بات نہیں۔ ہر سال فضائی آلودگی اکتوبراور نومبر کے مہینوں میں اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ دہلی کے عوام اسی زہریلی فضا میں گھٹ گھٹ کر جینے کو مجبور ہوتے ہیں۔ ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے بعض عارضی فیصلے کیے جاتے ہیں‘اور پھر کچھ دنوں بعد کہانی وہیں پہنچ جاتی ہے۔ یہ صورت حال ان دنوں بھارت کے بیشتر حصوں کی ہے‘ لیکن اس زہریلے ماحول میں سیاست دیکھیے کہ بھارت کی مرکزی و ریاستی حکومتیں اس کا حل نکالنے کی بجائے ہمسایہ ممالک پر الزام عائد کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال جہاں اس کے لیے مرکزی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ اس نے پرالی جلانے والے کسانوں کے لیے کچھ نہیں کیا‘ وہیں بی جے پی لیڈروں کا کہنا ہے کہ کجریوال اپنی ناکامی کا ٹھیکرا کسانوں کے سر پر پھوڑ رہے ہیں۔ فضائی آلودگی کے لیے صرف اور صرف دہلی حکومت ہی ذمہ دار ہے۔
بی جے پی لیڈر ونیت اگروال شاردا نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر مذکورہ بالا بیان دے ڈالا کہ فضائی آلودگی کے پیچھے پاکستان اور چین کا ہاتھ ہے۔ الغرض الٹے سیدھے بیانوں کی اس فضا میں‘ بھارتی سپریم کورٹ نے ایک بار پھر مرکزی و ریاستی حکومتوں کو پھٹکار لگائی ہے۔ بھارتی عدالت ِعظمیٰ کا کہنا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ‘ اس کے باوجود مرکزی و صوبائی حکومتوں کے کرتا دھرتاؤں کو شرم نہیں آرہی ہے۔جسٹس ارون مشرا اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے پنجاب‘ ہریانہ اور مغربی اتر پردیش میں پرالی جلائے جانے کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور کہا کہ ہر سال آمرانہ طریقے سے ایسا نہیں ہو سکتا۔ آپ اپنا فرض نبھانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ اس سال بھی پرالی جلائی گئی‘ حکومت پہلے سے تیار کیوں نہیں تھی اور کسانوں کو مشینیں کیوں نہیں دی گئیں؟ بہتر بنیادی ڈھانچے اور ترقی کے لیے عالمی بینک سے آنے والے فنڈ کا کیا ہو رہا ہے؟ سمارٹ سٹی کا نظریہ کہاں ہے؟ سڑکوں کو بہتر کیوں نہیں بنایا گیا؟بھارتی سپریم کورٹ گزشتہ سال بھی مرکزی حکومت کو پھٹکار لگا چکی ۔ گزشتہ سال بھی عدالت نے مرکزی حکومت سے پوچھا تھا کہ دہلی کے زیادہ تر پولیوشن کنٹرول سنٹر یا تو کام نہیں کر رہے ہیں یا بند ہونے والے ہیں؟ پھر آپ فضائی آلودگی پر کنٹرول کس طرح کر رہے ہیں؟ ذہن نشین رہے کہ بھارتی دارالحکومت دہلی میں 200کسے زائدپولیوشن کنٹرول سنٹر ہیں‘ جن میں بیشتر کام نہیں کر رہے ہیں۔
ونیت اگروال کے متذکرہ بے ہودہ قسم کے الزام پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل انفار میشن ڈیپارٹمنٹ عوامی جمہوریہ چین لیجان زیائو جو اسلام آباد کے چینی سفارت خانے میں خدمات انجام دے چکے ہیں‘ نے اپنی ایک ٹوئٹ میں جنتا پارٹی کے مرکزی لیڈر کو ایک '' جوکر‘‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے چین اور پاکستان پر لگائے جانے والے اس مضحکہ خیز الزام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے:
It is even surprisingly hilarious that such myopic claims are accepted by Indian public. 
ُٓپاکستان اور چین کے خلاف فضائی آلودگی اور سموگ پھیلانے کے مضحکہ خیز الزامات پر تبصرے ابھی جاری تھے کہ راجستھان سے بھارتی میڈیا پر ایک اور بریکنگ خبر جاری کی گئی کہ اس نے دو ایسے بھارتی فوجیوں کو جودھ پور ریلوے اسٹیشن سے گرفتار کیا ہے‘ جو پاکستان کی خفیہ ایجنسی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو اہم ترین فوجی تنصیبات کی دستاویزات فراہم کر رہے تھے ۔ انڈین انٹیلی جنس نے بتایا کہ بھارتی فوج کے ان دو جوانوں کو پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو آن لائن رابطوں سے اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر فوجی تنصیبات سے متعلق نقشہ جات فراہم کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے ۔یہ بھی کہا گیا کہ انڈین آرمی کے یہ دو جوان پوکھران سے اپنے گائوں جا رہے تھے کہ انہیں گرفتار کر نے کے بعد جودھ پور سے جے پور منتقل کر نے کے بعد ان سے با قاعدہ تفتیش شروع کر دی گئی ہے ۔ واضح رہے کہ یہ کوئی نیا کیس نہیں ‘بلکہ اس سے پہلے بھارت بھر میں اس خبر نے ہلچل مچا دی تھی کہ انڈین آرمی کے پچاس سے زائد جونیئر کمیشنڈ افسران پاکستان کے ''Honey Trap‘‘کا شکار ہو کر انتہائی اہم اور حساس قسم کی معلومات فراہم کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بھارت کی مشہور آرمڈ کور کے جوان سومویر سنگھ کو جو جیسلمیر چھائونی میں تعینات تھا‘ اسے اس وقت گرفتار کیا گیا ‘جب وہ آر مڈ کور کی چند اہم Exercisesکے بلیو پرنٹ فیس بک پر اپنی ایک پاکستانی دوست کو شیئر کر رہا تھا۔دیکھنے کو تو لگتا ہے کہ انڈین اداروں کی جانب سے دی جانے والی یہ خبریں سوائے ایک فریب یا کسی خاص مقصد کے اور کچھ نہیں‘ تاکہ بھارت دنیا کو یہ تاثر دے سکے کہ پاکستان اس لئے اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے‘ تاکہ کل کو انہیں دہشت گردی کیلئے استعمال کر سکے۔بھارت کی اس میڈیا مہم کا جو بھی مقصد ہو ‘لیکن اس سے وہ پاکستان کے اداروں کو یہ سرٹیفکیٹ تو بہرحال دے رہا ہے کہ وہ بھارت کی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اندر دُور تک نقب لگا نے کی مکمل قابلیت اور دسترس رکھتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر ونیت اگروال نے بھی پاکستان پر جو الزام لگایا ہے‘ اس کو اگر دوسرے انداز سے دیکھا جائے ‘ تو بھارت کے لیڈر(نیتا )پاکستان اور چین کی قابلیت کو تسلیم کرتے نظر آتے ہیں ؛حالانکہ بھارت کی مرکزی حکومت فضائی آلودگی کو لے کر کتنی سنجیدہ ہے‘ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ بھارت کے نیشنل کلین ائیر پروگرام‘ جس کوشروع کرنے کی آخری تاریخ پہلے 5 جون‘ پھر 15 اگست 2018ء طے کی گئی تھی‘بعد ازاں اسے شروع کرنے کا اعلان 10 جنوری 2019 کو کیا گیا‘تاحال اس پر عملدآمد نہیں ہو سکا۔ بس‘ ہر روز ایک نیا ڈرامہ رچا کر اور نیا جھوٹ بول کر وقت گزارا جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved