ہم بہت کچھ پانا اور بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ دنیا کا ہر انسان ایسا ہی چاہتا ہے۔ ہماری خواہشات کی کوئی حد نہیں ‘مگر جب کوئی خواہش حد سے بڑھ جائے تو ہوس کا روپ دھار لیتی ہے۔ ہم میں سے بیشتر خواہش اور ہوس کے فرق کو سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
اس دنیا کے پاس ہمیں دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ جس سے زندگی آسان تر ہوسکتی ہو ایسا تقریباً سبھی کچھ ایجاد یا دریافت ہوچکا ہے۔ آج ہماری زندگی میں بہت کچھ ہے۔ گھر کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ جو آسائشیں دو سو سال پہلے بادشاہوں کو میسر نہ تھیں‘ وہ عام آدمی کے گھر میں رُلتی پھرتی ہیں! یہ سب کچھ ہمیں ذرا بھی حیرت انگیز اس لیے نہیں لگتا کہ عام ہے۔ جو کچھ بھی عام ہوچکا ہو‘ اُس میں ورطۂ حیرت میں ڈالنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔
خیر‘ خواہشات پھر بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں ‘بلکہ بڑھتی اور پیچیدہ تر ہوتی جاتی ہیں۔ صرف اس لیے کہ زیادہ سے زیادہ خواہشات کا رکھنا اور انہیں پروان چڑھانا انسانی جبلّت یا فطرت کا لازمی جُز ہے۔ جن کی جیب خالی ہو وہ ڈھیروں دولت کے حصول کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ جن کے پاس ڈھیروں دولت ہو اُن کی خواہشات کچھ اور ہوتی ہیں۔ نوعیت اور شدت بھلے ہی تبدیل ہو جائے ‘مگر خواہشات کا وجود ختم نہیں ہوتا۔ ہو بھی نہیں سکتا۔
یہ خواہشات ہی تو ہیں‘ جن کے دم سے دنیا کے بازار کی رونق ہے۔ ہاں‘ بہت سی خواہشات کو بیک برنر پر رکھنا پڑتا ہے‘ یعنی سرد خانے میں ڈالے بغیر بات بنتی نہیں۔ اگر ہم اپنی تمام خواہشات کو ساتھ لے کر چلتے رہیں تو کچھ بھی نہ کر پائیں۔
زندگی ترجیحات کا تعین چاہتی ہیں۔ ہمیں ہر وقت بہت اچھی طرح یاد رہنا چاہیے کہ ہمارے لیے کیا اہم ہے اور کیا کم اہم اور جو کچھ ہمارے لیے معمولی سی بھی اہمیت نہیں رکھتا ‘اُسے فکری ساخت کا حصہ بنانے اور اُس کے بارے میں سوچنے رہنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔ ایسا کرنا وقت اور وسائل دونوں کا ضیاع ہے۔ وسائل کا مفہوم صرف دولت سے وابستہ نہیں ‘بلکہ کسی معاملے پر خواہ مخواہ غور کرتے رہنا بھی فکری صلاحیت و سکت جیسے اہم وسائل کا ضیاع ہی ہے۔
کسی بھی حوالے سے خواہش کا حامل ہونا بُری یا قابلِ اعتراف بات نہیں۔ بگاڑ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم کسی بھی معاملے میں منطقی حد پار کر بیٹھتے ہیں۔ بہت سی خواہشات ہماری صلاحیت و سکت کے مطابق ہوتی ہیں‘ اِن کی تکمیل زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنے پر مجبور نہیں کرتیں۔ دوسری بہت سی خواہشات غیر منطقی ہوتی ہیں ‘جن کے بارے میں ہم خواہ مخواہ سوچتے اور اندر ہی اندر الجھتے رہتے ہیں۔ مثلاً کوئی صدرِ مملکت بننے کی خواہش کر بیٹھے تو؟ یہ زبردستی کی خواہش ہے۔ اگر ملک بھر میں دو تین لاکھ افراد صدر بننے کے خواہش مند ہوں تو اُن سب کو اس نکتے پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ جو بھی صدر بنے گا وہ پانچ سال کی مدت کے لیے بنے گا‘ یعنی پچاس سال میں زیادہ سے زیادہ دس افراد صدرِ مملکت کے منصب پر فائز ہوسکیں گے۔ اور باقی تمام خواہش مند؟ ظاہر ہے‘ وہ سب ''انتظاری‘‘ کے عالم میں بُھٹّے بھونتے رہیں گے!
وہی خواہش کچھ مفہوم رکھتی ہے ‘جس کی تکمیل کی صورت نکل سکتی ہو۔ انسان‘ اگر پوری توجہ کے ساتھ تعلیم پانے کے بارے میں سوچے اور طب کا شعبہ اختیار کرے تو ڈاکٹر بن سکتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اس بات کی گنجائش بہر حال موجود ہوتی ہے کہ بہت بڑی تعداد میں ڈاکٹرز تیار ہوں اور پھر اُن کی کھپت بھی ہو جاتی ہے۔ اسی طور دوسرے شعبوں میں بھی پنپنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ صدر‘ وزیر اعظم یا قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان بننے کی خواہش انسان کی الجھنوں میں صرف اضافہ کرسکتی ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ ایسی خواہشات غیر منطقی ہوتی ہیں۔ یہ لاٹری والا معاملہ ہے۔ لاکھوں افراد لاٹری کے ٹکٹ خریدتے ہیں۔ بمپر پرائز کسی ایک کا لگتا ہے۔ وہ سینہ تان کر بہت فخر سے بتاتا ہے کہ اُس نے ایک ہی ٹکٹ خریدا اور بمپر پرائز لگ گیا۔ اور باقی سب؟ چند افراد کو چھوٹا موٹا نقد انعام ملتا ہے‘ اور بس۔ باقی سب کے لیے ''ڈرا میں حصہ لینے کا شکریہ‘ براہِ کرم دوبارہ کوشش کیجیے‘‘ کا انعام!
انسان کے بہت سے بنیادی فکری مسائل ہیں۔ فکری ساخت بگڑ جائے ‘تو بہت سے معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ ''چین ری ایکشن‘‘ جیسا ہے۔ سگریٹ کے ہزار پیکٹ قطار میں کھڑے کیجیے۔ اب ایک پیکٹ کو گرائیے تو پیکٹ گرتے ہی چلے جائیں گے۔
ہمارا ایک بنیادی فکری مسئلہ یہ ہے کہ ہم بہت سے معاملات کو اُن کے حقیقی روپ نہیں دیکھتے یا دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ بلی کو سامنے پاکر جان بچانے کی کوشش کرنے کی بجائے آنکھیں بند کرکے خود کو محفوظ سمجھنے والے کبوتر کی طرح ہم بھی چیزوں کو اُس روپ میں نہیں دیکھتے ‘جس روپ میں وہ ہوتی ہیں‘ بلکہ اُس روپ میں دیکھتے ہیں جو ہم ہیں‘ یعنی ہم اپنی خواہشات اور امنگوں کے آئینے میں ہی سب کچھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اس کا جو نتیجہ برآمد ہونا چاہیے وہی تو برآمد ہوتا ہے۔
خواہشات کے دریا میں بہنے میں کچھ زیادہ قباحت نہیں‘ مگر ہمیں تیرنا بھی تو آنا چاہیے۔ اور ہاں‘ خواہشات کا دریا اگر موجیں مار رہا ہو‘ طغیانی کے عالم میں ہو تو ہمیں ڈبوکر ہی سُکون کا سانس لے گا۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ لوگ اپنے آپ کو چند غیر منطقی اور غیر حقیقت پسندانہ خواہشات کے ہاتھ میں دے کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب زندگی کا ہر مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اگر کسی بھی خواہش کی تکمیل ایسی ہی آسان ہوتی تو پھر رونا کس بات کا تھا؟
غیر منطقی اور زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہ رکھنے والی ہر خواہش امکانات کے اجالے میں کمی کا سبب بنتی ہے۔ بے جا و ناروا قسم کی خواہشات ‘چونکہ ہم پالتے ہیں اِس لیے امکانات کے اُجالے میں متواتر کمی کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ پریشانی کے عالم میں پاکر ہماری مدد کرنے کو تیار ہوں‘ مگر یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ اندھیرا اگر اپنا ہی پیدا کردہ ہو تو دوسروں کا بخشا ہوا اُجالا بھی ہماری کچھ خاص مدد نہیں کر پاتا۔
ہماری بیشتر خواہشات کسی نہ کسی حوالے سے خود پسندی کا بھی نتیجہ ہوتی ہیں۔ خود پسندی ہمیں دوسروں سے مشاورت اور اپنی شخصیت کی تمام خصوصیت کا بے لاگ جائزہ لینے سے روکتی ہے۔ جب ہم خواہشات کے آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں ‘تب ہمیں صرف اپنا وجود دکھائی دیتا ہے۔ یہ آئینہ ہمیں وہی کچھ دکھاتا ہے ‘جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ حقیقت پسندی کا آئینہ البتہ ایسا بہت کچھ دکھاتا ہے‘ جو ہوتا تو برحق ہے‘ مگر ہمیں پسند نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنے افکار اور خواہشات کا جائزہ حقیقت پسندی کے آئینے ہی میں لینا چاہیے۔ خواہشات کا آئینہ ہمیں حقیقت کی دنیا سے بہت دور لے جاکر تنہا‘ بے یار و مددگار چھوڑ دیتا ہے۔ جب اپنے سِوا اور اپنی خواہشات سے آگے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب آپ ہی طے کیجیے کہ وجود کا عکس خواہشات کے آئینے میں دیکھنا ہے یا حقیقت پسندی کے آئینے میں۔