تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     27-11-2019

1987ء اور کرکٹ کا جنون

1987 ء کے سال سے میری کرکٹ کی بہت سی یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ وہ کرکٹ کے جنون کے دن تھے۔ کرکٹ کی محبت کا آغاز میرے بچپن ہی سے ہو گیا تھا۔ مجھے یاد ہے میں پہلی یا دوسری کلاس میں تھا جب انعام بھائی کے ساتھ راولپنڈی کلب میں ٹیسٹ میچ دیکھنے گیا تھا۔ اس کے بعد تو ہم نے راولپنڈی کلب سٹیڈیم میں ہونے والے تقریباً سارے میچ ہی دیکھے۔ اُس وقت کرکٹ کا موجودہ سٹیڈیم نہیں بنا تھا‘ ٹیسٹ میچ راولپنڈی کلب کے گرائونڈ میں ہوتے تھے۔ بہت سی غیر ملکی ٹیموں کو میں نے اس گرائونڈ میں کھیلتے دیکھا۔ جب بھی یہاں میچ کھیلا جاتا گرائونڈ کے چاروں طرف ٹینٹ لگا دیے جاتے اور لکڑی کے تختے رکھ کر بیٹھنے کے لیے مصنوعی سیڑھیاں بنائی جاتیں۔ یہاں کا ٹکٹ سب سے سستا ہوتا اور میچ دیکھنے کا مزا سب سے زیادہ آتا۔ میرے اس زمانے کے ہیروز میں آصف اقبال شامل تھے‘ جو پاکستانی ٹیم کے کپتان رہے اور بعد میں جنہوں نے شارجہ میں کرکٹ کے آغاز میں اہم کردار ادا کیا۔ آصف اقبال وکٹوں کے درمیان بہت تیز بھاگتے تھے‘ لیکن اپنے آخری میچ میں وکٹوں کے درمیان ان کا پائوں رپٹ گیا اور وہ رن آئوٹ ہو گئے تھے۔ بائولنگ میں میرے ہیرو عمران خان تھے‘ جو اپنی رفتار اور اِن سونگر (Inswinger) کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ 1986ء میں مَیں برٹش کونسل کے سکالر شپ پر یونیورسٹی آف مانچسٹر چلا گیا‘ جہاں میرے کورس کا دورانیہ ایک سال تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب موبائل فون اور واٹس ایپ کی سہولتیںنا پید تھیں۔ مجھے یونیورسٹی کیمپس پر واقع ہاسٹل میں جگہ مل گئی۔ 19 منزلہ اس عمارت میں میرے علاوہ تین اور پاکستانی رہتے تھے‘ جن سے کبھی کبھار کیفے ٹیریا یا ٹی وی روم میں ملاقات ہوتی۔ کچھ ہی دنوں بعد میں مانچسٹر کے موسم اور بارشوں کا عادی ہو گیا۔ مجھے برستی بارش میں اکثر راولپنڈی کے گلی کوچے یاد آتے۔ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر بارش کو دیکھتے ہوئے سوچتا کہ اس وقت اگر راولپنڈی میں بھی بارش ہو رہی ہو تو راولپنڈی کے بینک روڈ پر کیا ہو رہا ہو گا؟ سیٹلا ئٹ ٹائون یا کمرشل مارکیٹ میں لوگ بارش سے بھاگ کر دکانوں کے برآمدوں میں پناہ لے رہے ہوں گے‘ مال روڈ پر واقع چرچ کی سرخ عمارت بارش میں نہا رہی ہو گی‘ راولپنڈی کلب کا گرائونڈ جل تھل ہو گیا ہو گا۔ راولپنڈی کلب کے خیال سے مجھے وہ سارے دن یاد آنے لگے جب میںدوستوں کے ہمراہ یہاں میچ دیکھنے آتا تھا۔
ایک روز جب بارش ہو رہی تھی اور کھڑکی سے باہر بارش کو دیکھتے ہوئے میں تصور کے گھروندے بنا رہا تھا تو اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو جہانگیر تھا۔ وہ اسی ہاسٹل میں رہتا تھا۔ آتے ہی کہنے لگا: پاکستان کرکٹ ٹیم انگلینڈ آئی ہوئی ہے‘ کچھ خبر ہے تمہیں؟ میں نے کہا: ہاں میں باقاعدگی سے کمنٹری سنتا ہوں۔ جہانگیر نے کرکٹ سے میری دلچسپی دیکھی تو کہنے لگا: تیسرا ٹیسٹ 25 مئی کو برمنگھم کے ایج بسٹن گرائونڈ پر کھیلا جا رہا ہے‘ کیوں نہ ہم گرائونڈ میں جا کر میچ دیکھیں؟ مجھے لگا کوئی خواب ہے جو میں دیکھ رہا ہوں۔ میں نے کہا: واقعی تم سیریس ہو؟ کہنے لگا: بالکل۔ وہیں بیٹھے بیٹھے ہم نے پروگرام بنایا کہ ایک بڑی وین کرائے پر لی جائے جس میں گروپ کی شکل میں ایج بسٹن گرائونڈ میں میچ دیکھا جائے۔ 25 مئی کو علی الصبح ہم سات دوست وین میں بیٹھے‘ وین پر پاکستان کا بڑا سا جھنڈا لگایا اور برمنگھم کی طرف روانہ ہو گئے۔ تین ون ڈے میچوں کی سیریز کے ابھی تک دو میچ ہو چکے تھے۔ پہلا ون ڈے میچ جو 21 مئی کو کھیلا گیا‘ اس میں انگلینڈ نے سات وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس میچ میں انگلینڈ نے ٹاس جیتا تھا اور خود فیلڈنگ کا فیصلہ کیا تھا۔ ان دنوں میچ 55 اوورز کے ہوا کرتے تھے۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 213 رنز بنائے تھے۔ میچ کی خاص بات جاوید میاں داد کی شاندار سنچری تھی۔ جاوید میاں داد نے اس میچ میں 113 رنز بنائے تھے۔ انگلینڈ نے یہ سکور 53 اوورز میں حاصل کر کے پہلا ون ڈے جیت لیا تھا۔ انگلینڈ کی اننگز کی خاص بات ایلن بورڈر کے 99 رنز تھے۔ دوسرا ٹیسٹ میچ ٹرینٹ برج کے میدان پر کھیلا گیا تھا۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے انگلینڈ کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ انگلینڈ کی پوری ٹیم 51 اوورز میں صرف 157رنز بنا سکی۔ پاکستان نے یہ سکور چار وکٹس کے نقصان پر حاصل کر لیا۔ اس میچ میں بھی جاوید میاں داد نے اپنی بیٹنگ کے جوہر دکھائے اور 71 رنز بنائے۔ آج تیسرا اور فیصلہ کن میچ ہونے جا رہا تھا۔ ہم وقتِ مقرر پر ایج بسٹن پہنچ گئے‘ لیکن پارکنگ میں دیر ہو گئی۔ اس دوران ہم ریڈیو پر کمنٹری سن رہے تھے۔ انگلینڈ نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا تھا۔ ہم گاڑی پارک کر کے گرائونڈ میں داخل ہوئے ہی تھے تو دیکھا کہ اوپننگ بیٹس مین مدثر نذر صفر کے سکور پر ایل بی ڈبلیو ہو کر پویلین واپس جا رہے تھے۔ ان دنوں ایک کھلاڑی منصور اختر عمران خان کا فیورٹ تھا‘ جسے وہ بار بار ناکام ہونے پر بھی کھلانے پر مُصر تھے۔ مدثر نذر کے پہلی گینڈ پر آئوٹ ہو جانے کے بعد منصور اختر کھیلنے کے لیے آیا۔ ہم سب دعا کر رہے تھے کہ آج منصور اختر پرفارم کر جائے تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے‘ لیکن اس نے اپنی روایت برقرار رکھی اور تیسری گیند پر بغیر کوئی سکور بنائے وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ آئوٹ ہو گیا۔
مجھے یاد ہے اس میچ میں ہمارے چھ کھلاڑی مدثر نذر، منصور اختر، منظور الٰہی، سلیم یوسف، وسیم اکرم اور توصیف احمد کوئی رن بنائے بغیر آئوٹ ہو گئے تھے۔ جاوید میاں داد نے پہلے دو میچوں کی طرح اس میچ میں بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 68 رنز بنائے۔ یوں پاکستانی ٹیم 55 اوورز میں 213 کے مجموعی سکور پر آئوٹ ہو گئی۔ یہ سکور انگلینڈ نے آخری اوور میں نو کھلاڑیوں کے نقصان پر پورا کر کے میچ جیت لیا۔ برمنگھم میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے‘ پاکستانی ٹیم کی شکست سے انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ میچ کے بعد لوگوں نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا‘ انگلینڈ کے بائولر بوتھم کی گاڑی کو نقصان پہنچا۔ ہم سارے دوست دل برداشتہ واپس آئے‘ لیکن یہ مایوسی عارضی تھی۔ اسی ٹیم نے ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں انگلینڈ کو شکست دے دی‘ یوں تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان نے انگلینڈ کو اسی کے میدانوں میں ٹیسٹ سیریز میں شکست دی تھی۔ 
اب میں ان ٹیسٹ میچوں کو یاد کرتا ہوں تو مجھے میاںداد کی شاندار بیٹنگ یاد آتی ہے اور عمران خان کی طوفانی بائولنگ‘ جو ان کی زندگی کی بہترین بائولنگ پرفارمنس تھی اور پھر عبدالقادر کی سپن بائولنگ‘ جنہوں نے انگلینڈ کے پلیئرز کو اپنی بائولنگ سے حیران کر دیا تھا۔ مجھے یاد ہے مانچسٹر میں میرے پروفیسر مائیک نے ایک بار مجھ سے پوچھا تھا کہ قادر بائولر ہے یا جادوگر؟ اس کا ایکشن اتنا مختلف ہے کہ ہمارے بیٹسمین کو کچھ سمجھ ہی نہیں آتی۔ اب اس بات کو تین دہائیاں گزر گئی ہیں۔ اُس زمانے کے سارے کھلاڑی ریٹائر ہو چکے ہیں۔ بائولنگ کی دنیا کا جادوگر عبدالقادر ہمیشہ کی نیند سو چکا ہے اور میں دنیا کے جھمیلوں میں کھو گیا ہوں‘ لیکن اب بھی کبھی کبھار مجھے اُس دن کی یاد آتی ہے جب ہم سب ایج بسٹن میں پاکستانی ٹیم کے حق میں پُر جوش نعرے لگا رہے تھے‘ تو پورے جسم میں جھرجھری سی آ جاتی تھی۔ سوچتا ہوں وقت بھی کیسا ساحر ہے‘ کیسے کیسے روشن مناظر کو دھندلا دیتا ہے اور کیسے کیسے دھندلے مناظر کو روشن کر دیتا ہے۔
مجھے برستی بارش میں اکثر راولپنڈی کے گلی کوچے یاد آتے... سوچتا کہ اس وقت اگر راولپنڈی میں بھی بارش ہو رہی ہو تو وہاں کے بینک روڈ پر کیا ہو رہا ہو گا؟ سیٹلائٹ ٹائون یا کمرشل مارکیٹ میں لوگ بارش سے بھاگ کر دکانوں کے برآمدوں میں پناہ لے رہے ہوں گے‘ راولپنڈی کلب کا گرائونڈ جل تھل ہو گیا ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved