تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     27-11-2019

ابھی نہیں؟

محترمہ بے نظیر بھٹو کا پہلا دور حکومت ختم ہونے کو تھا جب میں نے پہلی بار ملک سے باہر قدم رکھا اور عمرہ کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستانی زائرین کی اتنی بڑی تعداد مکہ میں نظر نہیں آتی تھی جتنی آج دکھائی دیتی ہے۔ میں عمرہ مکمل کر چکا تھا اور آدھی رات کے وقت اگلی منزل کی طرف روانگی سے پہلے الوداعی طواف کر رہا تھا کہ دیکھا‘ رکن شامی (کعبہ کا وہ کونہ جو طواف کرتے ہوئے حطیم کے فوری بعد آتا ہے) کے ساتھ ہی ایک پاکستانی غلاف کعبہ تھامے پنجابی میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے چھٹکارے کی دعا مانگ رہا ہے۔ اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ ارد گرد کے لوگ بھی اسے سن پا رہے تھے‘ شاید چند ہی ہوں گے جو اس کی زبان بھی سمجھ سکتے تھے۔ میں اس کی آہ و زاری سے کانپ کر رہ گیا۔ مجھے لگا جس حکومت کے خلاف شکایت یہاں تک آ پہنچی ہے تو اب اس کا باقی رہنا مشکل ہے۔ وہی ہوا، اس واقعے کے صرف تین مہینے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو چکی تھی۔ جن لوگوں نے محترمہ کی پہلی حکومت اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھی ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس سے بد تر اندازِ حکمرانی کا تصور بھی پاکستان میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس حکومت کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ اس میں شامل تمام لوگوں کے لیے پاکستان ایک کھلونے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اہم ترین ملکی مسائل چھوڑ کر اس زمانے کی پیپلز پارٹی صرف اور صرف اپنے سیاسی مخالفین کو گالیاں دینے پر لگی ہوئی تھی۔ جو جتنا زبان دراز تھا، اتنا ہی اہم تھا۔ اس زمانے میں ٹی وی صرف سرکاری تھا، اس لیے وہاں بھی ہر وقت بھانت بھانت کے لوگ حکومت کی ہر خرابی کو 'جنرل ضیاء کی باقیات‘ کے ذمے ڈال کر عوام کو بے وقوف بنایا کرتے تھے۔ سیاست نفرت سے عبارت تھی، معیشت تباہ ہو چکی تھی، سرکاری افسر سیاسی گروہوں میں بٹ چکے تھے اور حکومت لوگوں کو بے معنی پاٹھ پڑھا رہی تھی۔ سو وہی ہوا کہ جس نے محترمہ کو اقتدار دلوانے میں مدد دی تھی، اسی نے انہیں باہر کا راستہ بھی دکھا دیا۔ میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کا ناقد ہوں، لیکن آج بھی سوچتا ہوں کہ اگر اس وقت وہ نالائق حکومت نہ گرائی جاتی تو عوام اسے کتنی دیر مزید گوارا کرتے؟ 
نالائقی کا جو معیار پیپلز پارٹی نے دسمبر انیس سو اٹھاسی سے لے کر اگست انیس سو نوے تک کے بیس ماہ میں قائم کیا تھا وہ اگرچہ ناقابل شکست لگتا تھا‘ لیکن تحریک انصاف کی گزشتہ پندرہ ماہ کی حکومت اسے توڑ کر کہیں آگے نکل چکی ہے۔ لوگ غلاف کعبہ تھام کر ان سے نجات کی دعا نہیں بھی کر رہے تو جھولیاں اٹھا اٹھا کر انہیں بد دعائیں ضرور دے رہے ہیں۔ الزام تراشی میں اس حکومت نے بھی ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ اس میں شامل لوگ بھی اپنی غلطیوں کا ذمہ نہ صرف پچھلی حکومت پر ڈالتے ہیں بلکہ پچھلے بہتّر سال کی حکومتوں کو بھی قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ ڈر لگتا ہے کہ کسی دن کوئی وزیر اٹھ کر تحریکِ پاکستان کے دنیا سے رخصت ہو چکے رہنمائوں کے احتساب کا مطالبہ نہ کر ڈالے۔ ہر وہ نالائقی جو بلا شرکت غیرے یہ خود کرتے ہیں، اس پر کوئی بھولے سے اعتراض کر ڈالے تو فوراً سوال آتا ہے: جب نواز شریف کی حکومت تھی تو تم کیوں خاموش تھے؟ اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ اے طوطیانِ چمنِ انصاف تم سے پہلے والے بھی بہت غلط سہی مگر اتنے غلط نہ تھے۔ یہ سیدھا سا جواب تیس برس پہلے پیپلز پارٹی کو سمجھ میں نہیں آتا تھا، آج تحریک انصاف کو بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ تیس سال پہلے جنرل مرزا اسلم بیگ محترمہ کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھایا کرتے تھے، آج عمران خان کے دوست انہیں بتاتے رہتے ہیں۔ اُس وقت بھی نواز شریف سے نفرت کا پرچار کرنے کی بجائے اپنے کام پر توجہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا تھا، آج بھی تحریک انصاف کی حکومت کے مشیر انہیں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کے خلاف بولتے چلے جانے کی بجاے گورننس پر توجہ رکھنے کے بارے میں کہتے رہتے ہیں۔ تیس برس پہلے محترمہ نہیں سنا کرتی تھیں، آج عمران خان صاحب نہیں سنتے۔ معلوم نہیں یہ آکسفورڈ سے پڑھنے والوں کو سننا اور سمجھنا کیوں نہیں آتا! 
ان دونوں حکومتوں کی ساخت اور کارکردگی میں مماثلت قدرت کی بے نیازی کا شاندار ثبوت ہے۔ اسے ہماری قسمت کہیے یا بد قسمتی کہ ہم تیس برس بعد بھی سدھر نہیں سکے۔ اگرچہ اس حکومت کے خلاف غلام اسحاق خان جیسا صدر مصروفِ عمل نہیں، دستور میں بھی ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ حکومت کو گھر بھیجا جا سکے‘ نہ کوئی جنرل مرزا اسلم بیگ جیسا سپہ سالار ہے جو وزیر اعظم کو سکیورٹی رسک سمجھنا شروع کر دے۔ اس حکومت کو جو طاقت حاصل ہے اس کا سرچشمہ وہ قوتیں ہیں جو چاہیں تو اس کے نکمے پن پر اپنے ہنر کے ستارے ٹانک کر قابل قبول بنا دیں۔ ان تمام عوامل کے ہوتے ہوئے بھی اگر عمران خان صاحب کا تبدیلی منتر اپنا اثر کھو چکا ہے تو پھر انہیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ لگتا ہے کہ یہ حکومت جلد ہی نئے پن کی نمی سے محروم ہو کر شجر سیاست کی وہ سوکھی شاخ ہو جائے گی جس کے مقدر میں گڈریے کے چولہے میں جل کر راکھ ہو جانا ہے۔
عمران خان صاحب اپنے غیر معمولی اعتماد کی وجہ سے حالات کی تفہیم میں اکثر غلطی کر جاتے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے تجزیے کی غلطی قابل معافی ہوتی ہے، حکومت میں آ کر نہیں ۔ اس صورت حال کو بھی وہ درست انداز میں نہیں سمجھ پا رہے۔ ان کا خیال تھا کہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھتے ہی انہیں جادو کی چھڑی دستیاب ہو جائے گی‘ جسے ہلا کر وہ اپنی مرضی کے نتائج پیدا کر لیں گے۔ انہیں بہت دیر بعد پتا چلا کہ ملک میں وزیر اعظم بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن سب کچھ نہیں۔ وہ اب تک نہیں سمجھ پائے کہ پاکستان میں وزیر اعظم کی پہلی ضرورت سیاست کو پُر سکون رکھنا ہوتا ہے۔ اسے فوج کو ساتھ لے کر چلنا ہے تو سول بیوروکریسی کے بھی نخرے اٹھانے ہوتے ہیں۔ مخالفین کو کینڈے میں رکھنا ہے مگر اتنا دور بھی نہیں کرنا کہ وہ سازشیں کرنے لگیں۔ عوام کے دکھ درد پر تقریریں ہی نہیں کرنی بلکہ اس حوالے سے کچھ کر کے بھی دکھانا ہے۔ محض فوج کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کے دعوے سے کام نہیں چلتا۔ اگر ایسے کام چل جاتا تو جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل پرویز مشرف کا ضرور چل جاتا۔ انہیں خوار و زبوں ہو کر اقتدار سے نہ نکلنا پڑتا۔ عمران خان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ان کی کارکردگی کی بنیاد ہی نظام کے اندر ان کی حمایت میں اضافہ کرے گی، اگر ان پر ناکامی کا لیبل چپکا رہا تو وقت آنے پر ان کے دوست بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔ 
خان صاحب کو صرف دو میدانوں میں اپنی کارکردگی دکھانی ہے: اول‘ معیشت اور دوم‘ گورننس۔ معاشی میدان میں اب تک جو کچھ بھی حاصل وصول ہے وہ آرمی چیف جناب جنرل قمر جاوید باجوہ کی محنت کا ثمر ہے۔ اندرون ملک نظام کو بہتر کرنا دور کی بات اب تک تحریک انصاف کے نابغے اسے پوری طرح سمجھ بھی نہیں پائے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے پاک فوج کے سپہ سالار کے عہدے میں توسیع کا ایک سادہ سا نوٹیفکیشن‘ بھی یہ حکومت درست انداز میں جاری نہیں کر سکی تو اس سے کوئی بھی ڈھنگ کا کام نہیں ہو سکتا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ انداز اختیار کیا تھا تو ان کی حکومت صرف بیس ماہ چلی تھی، عمران خان کی حکومت پندرہ ماہ گزار چکی ہے۔ یہ درست ہے کہ اب صدر مملکت کو اسمبلی توڑنے کا اختیار نہیں رہا لیکن قدرت جسے نکالنا چاہے تو راستہ بھی نکل آتا ہے۔ اہل نظر کو راستے بنتے نظر آ رہے ہیں۔ 
جن لوگوں نے محترمہ کی پہلی حکومت اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھی ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس سے بد تر اندازِ حکمرانی کا تصور بھی پاکستان میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس حکومت کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ اس میں شامل تمام لوگوں کے لیے پاکستان ایک کھلونے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اہم ترین ملکی مسائل چھوڑ کر اس زمانے کی پیپلز پارٹی سیاسی مخالفین کو گالیاں دینے پر لگی ہوئی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved