تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     27-11-2019

عظمت ِقرآ ن مجید

قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی آخری کتاب ہے‘ جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل فرمایاگیا۔ قرآن مجید ہدایت ‘ شفاء ‘ قانون اور اخلاقیات سے متعلق تعلیمات کا ایک انمول خزینہ ہے۔ قرآن مجید اس اعتبار سے منفرد کتاب ہے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے لے رکھا ہے۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجر کی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرماتے ہیں ''بے شک ہم نے ذکر کو نازل کیا اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ صدیاں گزر جانے کے باوجود اس کی ایک آیت‘ ایک لفظ ‘ ایک حرف تو بڑی دور کی بات ہے ‘اس کی کسی حرکت میں بھی معمولی سے تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ رمضان المبارک کے مہینے میں ہر سال دنیا بھر کی لاکھوں مساجد میں حفاظ قرآن ‘قرآن کی منزل کو تراویح کی نماز میں پڑھتے ہیں اور معمولی سا شبہ یا مغالطہ لگنے کی صورت میں ان کی اصلاح کے لیے ان کے پیچھے بھی قرآن مجید کے حفاظ موجود ہوتے ہیں۔ 
قرآن مجید کی حفاظت کے لیے کتابت اور حفظ کا سلسلہ صدیوں سے جاری وساری ہے اور امتداد زمانہ اور گردش دوراں کے باوجود قرآن مجید میں کسی قسم کا تغیر رونما نہیں ہوا۔ قرآن مجید مسلمانوں کی محبتوں اور عقیدتوں کا محور ہے‘ لیکن ایک عرصے سے اس بات کو محسوس کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کے حوالے سے مغرب کے بعض انتہا پسندوں کا رویہ انتہائی معاندانہ اور متعصبانہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اہل ِمغرب قرآن مجید کا مطالعہ کرکے اسلام اور قرآن مجید کی حقانیت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے‘ لیکن بعض انتہا پسند‘ قرآن سوزی کا ارتکاب کرکے جہاں مسلمانوں کی دل آزاری کے مرتکب ہوتے ہیں‘ وہیں پر خود اپنے لیے بھی بدبختی کے گڑھے کو کھود لیتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب بھی کسی شخص نے انصاف اور عدل سے قرآن مجید کا مطالعہ کیا‘ وہ اس بات کو ماننے پر مجبور ہو گیا کہ قرآن مجید یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی کتاب ہے۔ قرآن مجید کی علمی ‘ روحانی اور ادبی فوقیت اس قدر واضح اور اٹل ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود پورے قرآن مجید کی نظیر تو بڑی دور کی بات ہے‘ اس کی چھوٹی سی سورت کی نظیر کو بھی پیش نہیں کیا جا سکا اور بڑے بڑے ادباء‘ شعراء اور نثرنگار قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت کے سامنے بے بس نظر آئے اور انہوں نے اپنی کم علمی اور کم مائیگی کا اعتراف زبان قال اور زبان حال سے کر دیا۔ 
گزشتہ ایک عشرے کے دوران قرآن مجید کے حوالے سے مغرب میں خصوصیت سے بے ادبی کے واقعات دیکھنے کو ملے ہیں۔ چند برس قبل پادری ٹیری جونز نے امریکہ میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی اور چند روز قبل ناروے میں اسی واقعہ کو دہرانے کی کوشش کی گئی ۔ عمر الیاس نامی نوجوان نے بروقت غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے قرآن مجید کی بے ادبی کرنے والے شخص کے مذموم ارادوں کے راستے میں حائل ہونے کی کوشش کی ‘ جس پر اُمت مسلمہ کی غالب اکثریت نے اس کی تحسین کی اور اس نوجوان کے جوش وجذبے کو بھرپور طریقے سے سراہا گیا۔ گو‘ بعض مصلحت کوش افراد نے اس واقعہ پر دوسری رائے دی‘ جس کو اُمت کی غالب اکثریت نے قبول نہ کیا۔ قرآن مجید کی بے ادبی پر احتجاج کرنا ‘ آواز حق کو بلند کرنا اور اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق ‘اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا جہاں پر انتہائی ضروری ہے‘ وہیں پر اُمت مسلمہ کو قرآن مجید کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بھی پہچاننا ہو گا۔ اُمت مسلمہ پر قرآن مجید کے حوالے سے جو چند اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ‘وہ درج ذیل ہیں : 
1۔ قرآن مجید پر ایمان: ہر مومن ومسلمان کو قرآن مجید کے الہامی کتاب ہونے پر یقین ہونا چاہیے اور بحیثیت مسلمان ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قرآن مجید کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی آخری کتاب سمجھیں۔ قرآن کی عظمت اور شان کو اس کے نازل کرنے والے خالق و مالک کی شان کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ 
2۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا: قرآن مجید پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی تلاوت کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 121میں ارشاد فرمایا : ''وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ‘وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں ‘جو اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے۔ وہی لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر ۔ اور جو انکار کرتا ہے‘ اس کاتو وہی لوگ ہی نقصان اُٹھانے والے ہیں۔‘‘ قرآن مجید کی تلاوت کرنا‘ یقینا باعث اجروثواب ہے اور اس کے ایک ایک حرف کی تلاوت کے بدلے دس دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں‘ تاہم یہ المیے کی بات ہے کہ اہل ایمان کی ایک بڑی تعداد قرآن مجید کی تلاوت سے غافل ہے۔ دنیا جہاں کے علوم کا مطالعہ کرنے والا مسلمان فقط رمضان المبارک کے مہینے کی حد تک تو قرآن مجید کی تلاوت تو کرتا ہے ‘لیکن روز مرہ کے معمولات میں قرآن مجید کے لیے اپنے وقت کو صرف کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ 
3۔ قرآن مجید کے مفہوم اور مطالب کو سمجھنا: قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے مفہوم اور مطالب کو سمجھنا اور ان پر تدبر کرنا بھی اہل ایمان کی ذمہ داری ہے۔ جہاں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے لوگ اہل ایمان میں کم نظر آتے ہیں‘ وہیںپر تلاوت کرنے والے لوگوں میں سے اس کے مفاہیم اور مطالب کو سمجھنے اور اس کی آیات پر غور کرنے والے مزید کم نظر آتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ محمد کی آیت نمبر 24میں ارشاد فرمایا : ''تو کیا وہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے کیا دلوں پر ان کے تالے ہیں۔ ‘‘
4۔ قرآن مجید پر عمل کرنا: قرآن مجید کے مفاہیم پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل پیر اہونا بھی ہر مسلمان اور مومن کی ذمہ داری ہے۔ قرآن مجید کے مفہوم اور مطالب کو سمجھنے والے لوگوں میں سے بہت سے لوگ قرآن مجید کی تعلیمات پر کما حقہ عمر پیرا ہو تے ہوئے نظر نہیں آتے؛ حالانکہ قرآن مجید کی عظمت اور شان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی ہر ہر سورت‘ ہر ہر آیت اور ہر ہر لفظ پر پورے صدق دل سے عمل کیا جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بے عمل علمائے یہود کو اس گدھے کی مانند قرار دیا ہے‘ جس پر بوجھ کو لاد دیا گیا ہو‘ یعنی علم ہونے کے باوجود عمل نہ کرنا یقینا انسان کے لیے باعث وبال ہے۔ 
5۔ تبلیغ کرنا : قرآن مجید کے حقوق میں سے ایک اہم حق یہ بھی ہے کہ اس کو سمجھنے کے بعد اس کے پیغام کی تبلیغ کرنے کی کوشش کی جائے اور جس حد تک قرآن مجید کے مطالب ‘ مفاہیم سمجھ آ چکے ہوں ان کو لوگوں تک پہنچایا جائے۔ عمل کرنے والے لوگوں میں سے قرآن مجید کی دعوت اور اس کے پیغام کو عام کرنے والے لوگ مزید کم نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کو اس حوالے سے اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے پیغام کی تبلیغ کرنا یقینا بہت بڑی سعادت کی بات ہے اور وہ لوگ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے پیغام کو عام کرتے ہیں یقینا ان کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے یہاں پر بہت بڑا اجر ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یٰسین کی آیت نمبر17 میں تین انبیاء علیہم السلام کے اس بیان کو ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا تھا : '' اور نہیں ہے ہم پر مگر کھول کر پہنچا دینا۔ ‘‘
یہ تبلیغ دین کا فریضہ انجام دینے ہی کی برکت ہے کہ آج دنیا کے ہر کونے میں دین کے پیروکار نظر آتے ہیں اور قرآن مجید اور اس کی تشریح سنت نبوی شریف کی تبلیغ کے ذریعے ہر دور میں لاکھوں لوگ اپنی زندگیوں کو سنوار چکے ہیں۔ 
6۔ قرآن مجید کے نظام کو قائم کرنے کی کوشش کرنا : جہاں پر قرآن مجید کے پیغام کی تبلیغ کرنا انتہائی اہم ہے‘ وہیں پر قرآن مجید کی عطا کردہ تعلیمات اور قوانین کو اپنے اپنے دائرہ کار میں نافذ کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ماں اور باپ کو گھر کی سطح پر ‘ کسی ادارے کے سربراہ کو ادارے کی سطح پر‘ کسی فیکٹری کے مالک کو فیکٹری کی سطح پر‘ کسی علاقے کے نگران کو علاقے کی سطح پر اور وقت کے حکمرانوں کو پورے ملک کی سطح پر قرآن مجید کے پیغام اور قوانین کو نافذ کرنے اور لاگو کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بہت سے لوگ سیاسیات اور انتظام حکومت کا تعلق معاشی ترقی اور عروج کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید کا قیام جہاں پر اخلاقی رفعت اور اخروی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے‘ وہیں پر معاشی ترقی کی ضمانت بھی قرآن مجید کے نفاذ میں موجود ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 66میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور اگر بے شک وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو اور جو نازل کیا گیا ‘ان کی طرف (قرآن)ان کے رب کی طرف سے ۔ ضرور وہ کھاتے (اللہ کا رزق)اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے۔ ‘‘اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معیشت کے سنوارنے کا بہترین ذریعہ بھی قرآن مجید کے قوانین کا نفاذ ہے ۔
قرآن کی حرمت او رتقدس کیلئے بیدار اور چوکنا رہنے اور اپنی بساط کے مطابق حرمت قرآن کیلئے کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں قرآن مجید کے مذکورہ بالا حقوق کو بھی ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو قرآن مجید کی عظمت کو سمجھنے اور اس کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved