تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-11-2019

خوف کو خیرباد کہہ دیجیے !

ہم سب زندگی بھر قابلِ رشک کامیابی یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ انسانی فطرت کا ایک لازمی جُز یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ اضافی پانا چاہتا ہے۔ مشکل صرف یہ ہے کہ اضافی کامیابی کے حصول کے لیے جو کچھ اضافی طور پر کرنا ہوتا ہے‘ وہ نہیں کیا جاتا۔ کسی بھی کامیاب انسان کے حالاتِ زندگی پڑھ دیکھیے‘ اندازہ ہوجائے گا کہ اُنہوں نے بہت کچھ پانے کے لیے بہت کچھ کیا۔ اگر سبھی معمول کے مطابق یعنی معمولی زندگی بسر کریں تو ایسی کامیابی کبھی یقینی نہ بنائی جاسکے ‘جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے۔ 
ماحول ہمیں بہت سے معاملات میں آگے بڑھنے کی تحریک دیتا ہے ‘مگر دوسرے بہت سے معاملات میں ڈراتا بھی تو ہے۔ آگے بڑھنے کی تحریک دینے والے ہر موقع سے بھرپور استفادہ ہمارا فرض ہے۔ قدرت نے اس دنیا میں ہمارے لیے بہت کچھ رکھا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ جو کچھ کسی کے لیے بہت بڑا مسئلہ یا ناکامی ہے‘ وہ آپ کے لیے کچھ الگ سے کر دکھانے کا سنہرا موقع بھی تو ہوسکتا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے دو باتیں لازم ہیں؛ ایک تو یہ کہ آپ کسی بھی صورتِ حال میں چھپا ہوا موقع شناخت کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہوں اور دوسرے یہ کہ آپ میں اُس موقع سے فائدہ اٹھانے کی خواہش و لگن بھی پائی جاتی ہو۔ 
اگر کوئی کسی موقع کو شناخت کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو اور اُس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور خواہش رکھتا ہو‘ تب بھی بھرپور کامیابی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ کیوں؟ اس لیے کہ کامیابی بہت سے عوامل کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ کوئی ایک بھی عامل اگر کام میں نہ لایا جائے یا اُس کا اطلاق ادھورے من سے کیا جائے تو معاملہ کچا رہ جاتا ہے۔ 
بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے کبھی کبھی تھوڑا بہت خطرہ بھی مول لینا پڑتا ہے۔ یہ جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے کہ خطرہ کس حد تک مول لینا چاہیے۔ لوگ اس معاملے میں اکثر غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی اچھا موقع سامنے ہوتا ہے کہ مگر لوگ اپنے ''کمفرٹ زون‘‘ (اپنا تیار کیا ہوا ایسا ماحول جس میں ہمارے لیے آسانیاں ہوں) ہی میں رہنا پسند کرتے ہیں ‘یعنی ایک فیصد کی حد تک بھی خطرہ مول نہیں لیتے۔ اس کا نتیجہ موقع ضائع ہوجانے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ 
غیر معمولی کامیابی کے لیے غیر معمولی حد تک بڑھ کر خطرات مول لینا پڑتے ہیں۔ یہ عمل احتیاط کا طالب ہے۔ اس حوالے سے مشاورت بھی لازم ہے۔ متعلقہ شعبے میں نمایاں مقام کے حامل افراد سے مشاورت کے ذریعے کوئی ایسی راہ نکالی جاسکتی ہے‘ جس پر چلنے کی صورت میں خسارے کا زیادہ امکان نہ ہو۔ 
کسی بھی انسان کو کامیابی سے دور رکھنے والا سب سے اہم عامل ہے خوف۔ ہم میں سے بیشتر یہ چاہتے ہیں کہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نہ نکلیں اور بہت کچھ حاصل ہو جائے۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کسی نے کچھ بڑا کرنے کا سوچا ہو اور کوئی بڑا خطرہ مول نہ لینا پڑا ہو۔ کسی نہ کسی ناکامی کے بغیر زندگی بسر کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ عمل کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کو ناکامی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز بات نہیں۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں ‘اُسے ناکام بنانے والے حالات اور عوامل بھی پائے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم محنت بہت کرتے ہیں اور کامیابی تقریباً یقینی ہوتی ہے ‘مگر صورتِ حال تبدیل ہو جانے سے ہاتھ آئی ہوئی کامیابی ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔ ایسی ناکامی میں ہمارا کوئی قصور یا کردار نہیں ہوتا‘ اس لیے اس کا زیادہ رنج بھی نہیں ہونا چاہیے۔ 
اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اُسے کسی بھی اعتبار سے ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے تو اس کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ وہ کچھ نہ کرے! جو لوگ کچھ نہیں کرتے ‘وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ ہاں‘ یہ اگر بات ہے کہ ایسے لوگ ''بائی ڈیفالٹ‘‘ ناکام ہوتے ہیں! عمل نواز رویہ اختیار کرنے والے ہر انسان کو ناکامی کا خوف بھی ستاتا رہتا ہے۔ بھرپور محنت کے ذریعے صلاحیت اور مہارت کا اظہار کرنے والے جانتے ہیں کہ صورتِ حال میں تبدیلی اُن کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کرسکتی ہے یا اُسے گہنا سکتی ہے۔ 
کامیابی کا اس بات سے بہت گہرا تعلق ہے کہ ہم اپنے کمفرٹ زون سے باہر آئیں۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ زندگی کو ایک سانچے میں ڈھال لیتے ہیں اور اُس سانچے سے ہٹ کر کچھ بھی بننے یا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جب ذہن یہ طے کرلے کہ کمفرٹ زون سے نکل کر کچھ داؤ پر نہیں لگانا تو خطرات سے کھیلنے اور بھرپور کامیابی کی راہ ہموار کرنے کے لیے مطلوب ہمت پیدا ہی نہیں ہوگی۔ اور یہ معاملہ ہمت سے بھی ایک قدم آگے جاکر رجحان کا ہے۔ جنہیں کچھ بننا ہو‘ کچھ کر دکھانا ہو وہ خطرات مول لینے کا رجحان پروان چڑھاتے ہیں۔ صورتِ حال سے متصادم ہوکر اپنے لیے کوئی اچھا موقع پیدا کرنا‘ اُن کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔ 
کسی نہ کسی طرح کا خوف قدم قدم پر ہماری راہ میں دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جو لوگ خوف کی آؤ بھگت کرنے کے عادی ہوتے ہیں ‘وہ زندگی بھر اپنی صلاحیت اور سکت کو بروئے کار لانے سے قاصر رہتے ہیں۔ خوف اُنہیں بھرپور عمل پسند رویہ اپنانے سے باز رکھتا ہے۔ جب خوف دامن گیر ہو تو ذہن الجھا رہتا ہے۔ خوفزدہ ذہن مطلوب حد تک سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ ہمیں قدم قدم پر سوچنا اور فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ڈرائیونگ ہی کی مثال لیجیے۔ چند کلو میٹر کی ڈرائیو میں بھی ہمیں بیسیوں فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ زندگی بھی تو ایک لمبی ڈرائیو ہی ہے۔ اس ڈرائیو میں ہمیں ہزاروں فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ ہر فیصلہ کسی نہ کسی حد تک اثرات کا حامل ہوتا ہے۔ اگر ہم فیصلے کرتے وقت ذہن کو متحرک نہ کریں تو غیر متعلق اور غیر موثر فیصلے کر بیٹھیں۔ 
میری کیوری نے خوب کہا ہے کہ زندگی ہمارے سامنے جو کچھ بھی لاتی ہے ‘اُس سے خوفزدہ ہونے کی نہیں ‘بلکہ اُسے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور‘ اب تو زیادہ سے زیادہ سمجھنے کی ضرورت ہے‘ تاکہ ہم کم سے کم خوف محسوس کریں۔ 
بہت سے لوگ کچھ کرنا تو چاہتے ہیں ‘مگر تنقید کے خوف سے نہیں کر پاتے۔ الینور روزویلٹ کا یہ جملہ یاد رکھیے کہ دنیا کے ہر انسان پر کسی نہ کسی حوالے سے تنقید تو ہونی ہی ہے۔ جب معاملہ یہ ہے تو پھر اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے اور اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کی بھرپور کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے؟ 
یاد رہے‘ یہ خوف ہی ہے جو ہمیں آگے بڑھنے‘ کچھ کرنے اور کسی بھی حوالے سے نام پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرنے سے روکتا ہے۔ زندہ وہی رہتا ہے ‘جو اس خوف کو ختم کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ زندگی میں قدم قدم پر کوئی نہ کوئی خوف ہمارے پاؤں کی زنجیر بنتا ہے۔ اگر ہم عادی ہوجائیں تو خوف زندگی کے ہر معاملے پر حاوی ہوکر ہمیں محدود کرتا چلا جاتا ہے۔
کامیاب زندگی صرف ایک تقاضا کرتی ہے ... خوف نہ کھائیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved