تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     16-05-2013

جانے یزداں ہے منتظر کس کا؟

لگتاہے کہ پہاڑ اور شجر تک منتظر ہیں۔ شاید آسمانوں پر انسانوں کا پروردگار بھی کہ پاکستانی مسلمان بالآخر ہوش مندی اور دانائی کامظاہرہ کریں ۔ پھر ایک اور خیال پھوٹا مگر اس موضوع پر پھر کبھی: جلتے ہر شب ہیں آسماں پہ چراغ جانے یزداں ہے منتظر کس کا؟ ہسپتال کے بستر پر درازعمران خان کے لیے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ٹیلی فون اور اس کی خدمت میں میاں محمد نواز شریف کی حاضری کا مطلب کیاہے ؟ خان کے ایک جذباتی مدّاح نے مجھے لکھا : جنرل صاحب کو اتنے دن گزرجانے کے بعد مجروح کا خیال آیا؟ عمران کے جواں سال جذباتی حامیوں کا ایک ذہنی مسئلہ ہے ۔ان کے لیے وہ ایک ہیرو ہیں ، فقط لیڈر نہیں ۔ ہیرو غلطیوں کے مرتکب ہوں تو کیا وہ بانجھ ہو جاتی ہیں ؟ اولاد نہیں جنتیں ؟ نواز شریف اور جنرل کیانی رہنما ہیں ۔ ایک فوجی اور دوسرا سیاسی اور کاروباری ۔ بروقت دونوں کو سوجھا کہ ملک کو استحکام کی ضرورت ہے اور استحکام کا حصول عمران خان کی مدد ہی سے ممکن ہے ۔ ان کے حواری کو ماننا پڑا کہ مگر تحریکِ انصاف کا بانی ہی اصل اپوزیشن لیڈر ہے ۔ (دوسرا بھی مان لے گا، بھوکا بھانڈ) ڈیفنس لاہور کے لالک جان چوک میں ڈٹے مظاہرین کا مذاق اڑانے والے ان کے جذبے کی شدت اور خلوص کا ادراک نہیں کر سکے ۔ ان کااحتجاج بے ساختہ ہے اور اس طرح کی پھبتیاں کسنے سے کچھ حاصل نہیں کہ میرا کی ماں بھی الیکشن ہار گئی ہے ۔ بات دلیل سے کرنی چاہیے۔ پھبتی کسنے والاخود مان چکا کہ کراچی میں ننگی چٹی دھاندلی نہ ہوتی تو تحریکِ انصاف روشنیوں کے شہر کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر سکتی ۔ ووٹوں کی پرچیاں نادرا کے صدر دفتر میں ڈھیرکرلی جائیں اور چیف الیکشن کمشنر کی موجودگی میں انگوٹھوں کے نشان جانچ لیے جائیں ۔ ثابت ہو جائے کہ ووٹ حقیقی ہیں تو سبحان اللہ۔ہر معقول آدمی یہ کہے گا: چشمِ ما روشن دلِ ما شاد۔ دھاندلی صرف پولنگ کے دن نہ ہوئی بلکہ اس سے پہلے بھی۔ فافن کے مطابق بعض مقامات پر 100 سے 300فیصد تک ووٹ پڑے۔ اس مفروضے پر غور کیجئے کہ نواز شریف کو پنجاب ، ایم کیو ایم کو کراچی ، اے این پی کو خیبر پختون خوا، مولانا فضل الرحمٰن کو ڈیرہ اسمٰعیل خان ، جماعتِ اسلامی کو بونیر او رپیپلز پارٹی کو سندھ کے بغیر الیکشن لڑنا پڑیں ؟ ہر لیڈر آبادی کے کسی خاص گروہ میں مقبول ہوتا ہے ۔ ابراہم لنکن ایسا نابغہ امریکہ کے شمال کو آج بھی پوری طرح قابلِ قبول نہیں ؛درآں حالیکہ کہ وہ جدید تاریخ میں سیاسی اخلاقیات کی اٹل علامت ہے ۔ عمران خان سمندر پار پاکستانیوں کا فخر ہیں ۔ ان کے تیس چالیس لاکھ ووٹ اگر انتخابی عمل کا حصہ بن سکتے ، سپریم کورٹ نے جس کا حکم دیا تھا ؟ کیاپنجاب کی افسر شاہی اور انتخابی عملے کو تحریکِ انصاف کے خلاف استعمال نہ کیا گیا؟ الیکشن سے پہلے سندھ میں ،ایک منصوبے کے تحت دو مقتدر پارٹیوں میں سے ایک جماعت اپوزیشن بن گئی تاکہ نگران کابینہ اور افسروں کے تقرر میں اپنا حصہ وصول پا سکے ۔ دھاندلی ہوئی اور ڈنکے کی چوٹ ہوئی۔ کراچی سمیت جن حلقوں میں مینڈیٹ چرا لیا گیا و ہاں الیکشن دوبارہ ہی کرانا ہوں گے ۔ سندھ کے دارالحکومت میں فریب دہی کی جو تاریخی واردات ہوئی ، پولیس تو اس میں شامل ہی تھی ، الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے اعتراف کیا کہ وہ اسے روکنے میں ناکام رہے ۔ فوج اور رینجرز بھی اپنا فرض نبھا نہ سکے ۔ اگر آج نہیں تو کل وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد میاں محمدنواز شریف کو اس کی تلافی کرنا ہوگی ، وگرنہ وہ امن اور وہ استحکام کیونکر حاصل ہوگا جو ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ جماعتِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے منگل کی شام جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان اور تحریکِ انصاف کے رہنمائوں سے رابطہ کیاکہ کراچی میں احتجاج مشترکہ چاہیے۔ اصولی طور پر انہوں نے اتفاق کیا ہے ۔ نون لیگ کو بھی اس اتحاد میں شامل ہو نا چاہیے۔ سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ کراچی کے چار گروہ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ؟ اگر کسی کی غایت ایم کیو ایم کوہدف بنانا ہے تو وہ یاد رکھے کہ خون کے دھبّے پانی سے دھوئے جا سکتے ہیں ، لہو سے نہیں ۔ نا انصافی کا علاج انصاف ہے ، انتقام نہیں۔ انتقام ظلم کی طرف مائل کرتا ہے۔ غصہ اسی لیے حرام ہے کہ وہ عقل کو معطل کردیتاہے ۔ آدمی کی تاریخ نے سرکارؐ کے مدینہ منوّرہ سے زیادہ پاکیزہ ماحول کبھی نہ پایا۔ یا للعجب ، اس دیار میں آپؐ کی موجودگی میں وہ واقعہ رونما ہو ا۔ دو آدمی برہمی کے ساتھ ایک دوسرے پر لپکے تو آپؐ نے فرمایا : میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر وہ اسے پڑھ لیں تو قرار پائیں (مفہوم)۔ ان میں سے ایک کو بتایا گیا تو ناراضی سے اس نے کہا ’’کیا میں پاگل ہوں؟‘‘ کم از کم اتنی دیر کے لیے تو وہ پاگل پن ہی کا شکار تھا کہ رحمتہ اللعالمینؐ کی رہنمائی بھی اسے خوش نہ آئی۔ وہ کلمہ یہ تھا ’’اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم‘‘۔ شیطان مردود سے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ قرض چکانے کا نہیں ، یہ کراچی میں عدل قائم کرنے کا وقت ہے۔قومی قیادت اگر اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہی تو آنے والی نسلیں کبھی اسے معاف نہ کریں گی۔ کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے کے حوالے سے الطاف حسین نے اپنے الفاظ واپس لے لیے ۔ ان کا موقف مان لیجئے ۔ بارِ دگر لیکن عرض ہے کہ برطانیہ کی ایم آئی سکس کراچی سے گوادر تک کی پٹی پاکستان سے الگ کرنے کا ایک منصوبہ رکھتی ہے ۔ تزویراتی اعتبار سے دنیا کا اہم ترین ساحل ، جس کے جوار سے دنیا کا ستّر فیصد تیل برآمد کیاجاتاہے ۔ ناراض بلوچ لیڈروں اور بعض دوسروں کو اسی لیے برطانیہ میں پناہ دی گئی ۔ا مریکہ کی سرپرستی میں دنیا کے سب سے زیادہ کامیاب سازشی انگریز رہنما پاکستانی لیڈروں کو لبھاتے ہیں ۔ 2008ء میں اپوزیشن پارٹیوں نے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو برطانوی وزیر اعظم بے چین تھے۔ ان کا ہائی کمشنر کراچی سے پشاور تک بھاگتا پھر رہا تھا۔ الیکشن 2013ء کے ہنگام برطانوی سفارت کار ہر ایک سے پوچھتے پھر رہے تھے کہ تحریکِ انصاف اگر ہا رگئی تو کیا عمران خان 1977ء ایسی تحریک برپا کر سکتے ہیں؟ برطانیہ اور امریکہ کراچی میں نیا الیکشن روکنے کے آرزومند ہوں گے لیکن میاں محمد نواز شریف اور دوسروں کو ان کی بات نہ سننی چاہیے۔ مغرب سے دہشت گردی روکنے اور افغانستان سے ایساف افواج کی واپسی میں تعاون ہو سکتاہے ۔خطّے میں قیامِ امن کے لیے بھارت سے بھی مگر کسی پڑوسی ملک یا کسی بڑی طاقت کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت ہرگز نہ دی جائے ۔ 2008ء میں ترک لیڈروں نے الیکشن کا بائیکاٹ ختم کرانے کی کوشش کی ۔ طیّب اردگان اسلام آباد آئے ۔ یہ ان کا کام نہ تھا۔ چینی زیادہ محتاط ہیں ۔ پاکستان کے زیادہ خیر خواہ اور زیادہ شائستہ ۔ ان کی اس شکایت کا جواب دیا جائے کہ بلوچستان میں امریکیوں کو کچھ علاقہ سونپ دیا گیا ہے ۔ چین کو خطرہ ہے کہ وہ ان کی نگرانی فرمائیں گے ۔ انکل سام پاک ایران گیس معاہدے کا خاتمہ چاہے گا، چین سے گوادر کی بندرگاہ کا انتظام واپس لینے کا بھی لازمی طور پر۔ تحریکِ انصاف کو کتنے ہی زخم لگے ہوں ، آخری تجزیے میں عمران نواز مفاہمت کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حصولِ انصاف کی تگ و دو جاری رہنی چاہیے۔ پختون خو اکی منتخب حکومت پسند کرے تو آف دی ریکارڈ مولانا فضل الرحمٰن کے معالجے کا معقول طریقہ انہیں بتا دیا جائے گا ۔ انصاف ، اے بندگانِ خدا انصاف ، تحمل اور تدبیر۔ دکھوں کی ماری زندگی چیخ رہی ہے ۔ آسمان بھی شاید حسرت مند ہے ۔ انصاف ہی سے امن ، استحکام ، خوش حالی اور آبرومندی کا حصول ممکن ہے ۔ لگتاہے کہ پہاڑ اور شجر تک منتظر ہیں۔ شاید آسمانوں پر انسانوں کا پروردگار بھی کہ پاکستانی مسلمان بالآخر ہوش مندی اور دانائی کامظاہرہ کریں ۔ پھر ایک اور خیال پھوٹا مگر اس موضوع پر پھر کبھی: جلتے ہر شب ہیں آسماں پہ چراغ جانے یزداں ہے منتظر کس کا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved