تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     29-11-2019

دنیا بدل رہی ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ '' ہمیں ہانگ کانگ کے ساتھ کھڑا ہونا ہے ‘ لیکن میں شی جن پنگ کے ساتھ بھی کھڑا ہوں‘ وہ میرا دوست ہے‘‘ ۔یقینا یہ بڑی خبر تھی‘جب ہانگ کانگ ہیومن رائٹس اینڈ ڈیموکریسی ایکٹ کو ویٹو کرنے کی دھمکی دی گئی ‘تو امریکی سینیٹ نے متفقہ طور پر اسے پاس کیا تھا‘ کیونکہ امریکی صدر اس وقت چین کے ساتھ سنجیدہ مقابلے کیلئے سخت گیر تیار تھا‘ پھررویوں میں اچانک بڑی تبدیلی نے دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کو چونکا دیا۔
امریکی صدر ٹرمپ ہمیشہ ہی چین کے باشندوں کیلئے ناقابل اعتماد رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسے انسانی حقوق اور آزادانہ تقریر میں قطعی دلچسپی نہیں۔ اس کی اپنی جبلت آمرانہ ہے‘ کیونکہ اس نے بار بار تشدد ‘ جنگی مجرموں کی معافی اور پریس پر حملوں کی حمایت کی ہے۔ صدرٹرمپ سیاسی اصول نہیں ‘بلکہ تحفظ پسندانہ جبلتوں سے چین کے خلاف ہوا تھا۔ مبصرین کے مطابق‘ ٹرمپ کا عالمی نظریہ بھی کرپٹ نظر آتا ہے۔ وہ مساوی شرائط پر ہونے والے سودوں کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ہر کھیل صفر کے حساب سے ہوتا ہے‘اسی وجہ سے امریکی اتحاد کیلئے ایک خوفناک رہنما بن چکا ‘جو پیچیدہ باہمی تعلقات پر انحصار کرتاہے۔ ٹرانس پیسیفک شراکت داری سے امریکا کا دستبرداری کا اعلان چین کیلئے سیدھی جیت تھی۔سیاست کے بارے میں ٹرمپ کا شخصی نظریہ بھی بیجنگ کیلئے بھی مفید ہے۔ دوسرے قائدین ان کے ساتھ کیا رویہ رکھتے ہیں‘ یہ بات بھی اہم ہے ۔ وہ دیگر جمہوریتوں کی بجائے شی جن پنگ جیسے رہنمائوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کر سکتے ہیں۔ شاید اس وجہ سے وہ توہین اور تعریفوں کے مابین گھوم رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ ان ‘کے ساتھ تعلقات ڈھکے چھپے نہیں۔ 
مغربی کاروباری افراد سے نمٹنے کیلئے چین کے پاس بہترین منصوبے پہلے سے موجود ہیں۔ چینی نظام خود ہی طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے طویل المیعاد منصوبوں پرکام جاری رکھے ہوئے ہے۔ صدرٹرمپ کی پالیسی کا وضاحتی معیار نسل پرستی کی بات کرتاہے۔ سیاہ فام امریکیوں ‘ ہسپانیوں اور مسلمانوں کیلئے دئیے گئے بیانات سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ کی نسل پرستی ‘ خوداس کے لیے آگے بڑھنے میں مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ نئی سرد جنگ لڑنے کیلئے امریکا کو قابلیت کو مدنظررکھتے ہوئے اور خارجہ پالیسیوں کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ پرانے سوویت میں ایک نعرہ''اور آپ نیگروز کو جوڑ رہے ہیں‘‘۔ خودپرستی اورمنافقانہ تھا‘ جس سے کئی مسائل پیدا بھی ہوئے۔ متحدہ جارجیا میں جب امریکا کی حکومت نے جمہوریت یا آزادی کی کمی کا مقابلہ کیا تواس کے پاس بہت کم موقف تھا۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ تھا ‘ جسے امریکی ماہرین نے تسلیم کیا اور شہری حقوق کے رہنماؤں نے مہارت کے ساتھ استعمال کیا۔ چین ویسے سوشلسٹ آئیڈیلزم کو اپنایا نہیں سکتا ‘جیسا سوویت یونین نے کیا تھا‘لیکن اس نے پہلے ہی سنکیانگ میں دفاع کرنے کیلئے عملی اقدامات کئے‘ جنہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔الغرض ووٹ دبانے سے لے کر امریکا کے صنعتی کمپلیکس تک ‘ سفید بالادستی کا مقابلہ کئے بغیر بہتری نہیں لائی جا سکتی۔
مغرب اور چین کے مابین بیشتر جدوجہد کا انحصار عالمی چینی اقوام عالم پر بھی ہوگا۔ چین قدرتی طور پر عوام کو جمہوریہ سے وابستہ دیکھتا ہے۔چین کی دوسرے منصوبہ جات عالمی سطح پر شہ سرخیوں میں ہیں۔کنٹری گارڈن ‘ جو چینی میگافرمزکو تیار کرنے والا فاریسٹ سٹی ہے ‘ چینی صدر شی جن پنگ کوبڑے فیصلوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کو بی آر آئی کے جیو پولیٹیکل مقاصد کے بارے میں بھی تشویش لاحق ہے ‘لیکن انہیں یہ سمجھنے کیلئے گہرائی تک جانا ہوگا۔ مقامی اشرافیہ اور چینی کمپنیوں نے عالمی سطح پر سرمایہ کاری میں تعاون کیا ہے ‘ یہاں تک کہ بیجنگ کی براہ راست شمولیت کے بغیر دوسرے ممالک میں بھاری سرمایہ کاری کی گئی ۔کئی ایسی رپورٹس بھی سامنے آئیںکہ چینی حکومت نے خود مختار دولت سے متعلق فنڈ میں سالانہ اربوں ڈالر اضافے کا فیصلہ بھی ہواہے۔ دنیا بھر میں چینی سرمایہ کار جو پیسے لگارہے ہیں‘ اس میں مزید اضافے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں چینی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کیا جارہا ہے اور بہت سے ممالک مسابقت سے بھی دوچار ہیں۔ ایسے میں سوال یہ نہیں کہ جب چین دنیا پر حکومت کرے گا‘ تب کیا ہوگا ؟بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب چین پوری دنیا کا مالک بن جائے گا‘ تب کیا ہوگا؟
چین نے تجارت میں سرپلس کی بنیاد پر جو تین ہزار ارب ڈالر کمائے تھے‘ انہیں بہتر انداز سے مختلف ممالک کے کاروباری اداروں میں کھپانے کیلئے2007 ء میں دی چائنا انویسٹمنٹ کارپوریشن قائم کی گئی تھی۔ مالیاتی امور کے ماہرین چین پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے اپنی کرنسی یوان کی قدر میں کمی کرکے بین الاقوامی تجارت میں غیر معمولی منافع کمایا ۔یوں کئی ممالک کی معیشت کو مشکلات سے دوچار کردیاگیا۔ اس وقت چین کا سوورین ویلتھ فنڈ دنیا کا چوتھا بڑا فنڈ ہے ‘مگر چینی حکومت جس نوعیت کے اقدامات کر رہی ہے ‘ انہیں دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہت جلد دنیا بھر میں سب سے زیادہ نجی سرمایہ کاری چینیوںکی ہوں گی۔ چین کی حکومت ایک طرف تو دنیا سے خام مال کی خریداری میں اضافے کیلئے سرمایہ کاری کر رہی ہے اور دوسری طرف امریکا کے سرکاری بونڈز میں سرمایہ کاری گھٹاتی جارہی ہے‘ کیونکہ یہ بانڈز اب‘ محفوظ سرمایہ کاری تصور نہیں کیے جاتے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved