قومی پرواز کی صورتحال گزشتہ دس دن سے انتہائی گمبھیر رہی ہے ۔موسم ناقابلِ بیان حد تک خوفناک رہا ہے اورپرواز بھی ڈگمگاتی رہی ہے۔ یہ تو اللہ بھلا کرے سینئر پائلٹ کا‘ جس نے حالات پر نظر رکھی ہوئی تھی اور جہاز کو کریش ہونے سے بچا لیا۔ موسم بہتر ہونے کی ادھوری اطلاع ملنے پر جہاز کا کنٹرول کْچھ دیر کے لیے معاون کو پائلٹ کو دے دیا گیاتھا کہ وہ اسی دوران پرواز کواچانک ایسی خطرناک ایئر پاکٹ میں لے گئے کہ وہاں سے نکلنا محال ہی نہیں‘ ناممکن ہوگیا تھا اور کسی بھی لمحے ایسی افسوسناک خبر آسکتی تھی کہ معاون پائلٹ اور اس کی ٹیم کی ساری غلطیوں کا خمیازہ سینئر پائلٹ کو بھگتنا پڑتا ‘ان کا کیریئر ختم ہونے کے کنارے پر تھا کہ سینئر پائلٹ نے دوبارہ مداخلت کی اور جہاز کا کنٹرول سنبھالا اور پرواز کو ایئر پاکٹس سے بمشکل نکالا‘ جس سے قومی پرواز کریش ہوتے ہوتے بچ گئی اور اللہ اللہ کرکے گزشتہ روز(28نومبرکو) پرواز نے اسلام آباد لینڈنگ کی۔
اگر زمینی حکام کی طرف سے لینڈنگ کی اجازت اور محفوظ راستہ نہ دیا جاتا تو قریب تھا کہ سب کو ہی ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا جاتا اور نہ رہا بانس ‘ نہ بجے گی بانسری کے مصداق باقی سب دیکھتے رہ جاتے۔ پھر قومی پرواز کو کیسے اڑانا ہے‘ کہاں لے کر جانا ہے ‘کہاں لینڈنگ کرنی ہے ‘ کس کس کو سوار کرنا ہے ‘ کس کس کو آف لوڈ کرنا ہے ‘ قانون اورضابطے کیا ہوں گے؟ ان سب کے فیصلے تنِ تنہا‘فرد ِواحد سینئر پائلٹ نے کرنا تھے۔ لیکن زمینی عملے نے بھی حالات کی سنگینی کو بھانپ لیا تھا‘اس لیے فی الوقت پرواز کو سپیس دی گئی‘ تاکہ کولیٹرل ڈیمیج سے بچا جاسکے۔جو حالات اس وقت ہیں‘ان کی پیشین گوئی کرتے ہوئے ہم نے حالات کی سنگینی کے بارے میں 19 نومبر کوعرض کیاتھا کہ ''صورت حال انتہائی گمبھیر ہے‘ سینئر پائلٹ کو بار بار کہا جارہا ہے کہ آپ فضا میں چکر لگاتے رہیں۔نیچے بھی صورتحال غیر معمولی ہے۔محکمہ سیاسی موسمیات کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی کے مضافات میں مطلع بدستور ابر آلود ہے‘ گرج چمک اور طوفان کا یہ سلسلہ مزید نو دن تک جاری رہے گا‘اس لیے سینئر پائلٹ معاون پائلٹ کو پیار محبت سے ہینڈل کررہا ہے‘ تاکہ موسم بہتر ہوتے ہی وہ اکیلے فیصلہ کریں اور جہاز کو بحفاظت اتار لیں‘تاکہ مسافر بھی بچ جائیں اور پائلٹ اور معاون پائلٹ بھی۔ مے ڈے کال آن ہے‘‘۔پھر ہم نے 22نومبر کو دوران ِپرواز سامنے آنے والے مسائل بیان کرتے ہوئے عرض کیاتھا کہ ''تمام تر صورتحال سے آگاہی کے بعد سینئر پائلٹ خاموش ہے اور دورانِ پرواز ایسا کوئی قدم نہ خود اٹھا رہا ہے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے منع کررہا ہے‘ کیونکہ وہ ابھی بھی اس حق میں ہے کہ معاون پائلٹ کو مزید وقت دیاجائے ۔اگر اس وقت کوئی منفی اقدام اٹھایا گیا تو معاون پائلٹ ردعمل میں کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا دے۔ ایسا کوئی بھی اقدام خود سینئر پائلٹ کے کیریئر کو متاثر کرسکتا ہے اور خراب موسمی حالات میں ایمرجنسی لینڈنگ سے کولیٹرل ڈیمیج کا خدشہ ہے‘ جس سے سینئر پائلٹ سب کو بچانا چاہتا ہے‘ البتہ سینئر پائلٹ کواب بھی امید ہے کہ بہتری آجائے گی۔ معاون پائلٹ سے ہونے والی آخری دو ملاقاتیں اہم نوعیت کی تھیں‘ جن میں ورکنگ کے معاملے میں اہم امور زیر بحث آئے۔سینئر پائلٹ محفوظ لینڈنگ کا منتظر ہے اور وہ اب بھی اپنے معاون پائلٹ کو بچانا چاہتا ہے‘ جس کاانتخاب جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ سینئر پائلٹ نے خودکیاہے۔ ناکامی کی صورت میں سینئر پائلٹ کوخود بھی بہت سے طعنوں اور تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جس سے وہ بچنا چاہتے ہیں۔سب پرواز کی محفوظ لینڈنگ اور سینئر پائلٹ کے حتمی فیصلے کے منتظر ہیں ‘لیکن موسم کے سازگار ہونے میں ابھی بھی پانچ گھنٹے باقی ہیں‘‘۔
اللہ اللہ کرکے پرواز لینڈ کرچکی ہے اور سب کی جان میں جان آئی ہے‘تاہم جہاز میں سوار تمام 342 مسافروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ چھ ماہ کے اندر اندر رولز اینڈ ریگولیشنز کو واضح کریں اور اورقومی پرواز کو اڑانے کے لیے پائلٹس کے کیریئر‘ ان کی مراعات اور عہدے کی میعاد کے بارے میں قانون سازی کریں اور تمام ابہام دور کریں ۔ چھ ماہ بعد اس بارے میں فٹنس سرٹیفکیٹ پیش کریں۔
وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ تین دن ہنگامہ خیز رہے۔ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ پاور کوریڈورز کو سمجھنا اور ان کے مکینوں کی سوچ‘ سمجھ اور ان کی چالوں کوسمجھنا ایک غیر معمولی مہارت کا کام ہے۔ سیاسیات کا طالب علم ہوتے ہوئے یہ اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہوتا ہے کہ سیاسی شطرنج کی بچھی بساط پر کب کون کس کو کیسے شہ دے دے اور کب کس کے ہاتھوں کون مات کھا جائے ۔کوئی پتا نہیں چلتا اور اکثر اوقات تو بساط بچھانے والے اور چاروں طرف مخالفین کی طرح کھیلنے والے باہم اس طرح کھیلتے ہیں کہ ان کے ٹیم منیجرز کو بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے کھلاڑی اس کے لیے نہیںبلکہ کسی اور کے لیے کھیل رہے ہیں۔پاور کوریڈورز کے تمام پلیئرز کے بارے میں جانکاری مدتوں نہیں ہوتی ‘کیونکہ پاور پالیٹکس‘ پاور پلیئرز اور پاور کوریڈورز اندر ہی اندر گْم راستوں میں اس قدر اُلجھے ہوئے ہوتے ہیں کہ حقیقت تک پہنچنا بعض اوقات ناممکن ہوجاتا ہے‘بلکہ بعض اوقات تو سیاست کا سارا کھیل ہی آف شور کمپنیوں کی طرح لگتا ہے‘ جن کے اصل مالک اور اس میں چھپے خزانے تک پہنچنے کے لیے بین الاقوامی آڈٹ کمپنیوں کی مدد لی جاتی ہے‘پوری معلومات پھر بھی نہیں ملتی۔
ایسی ہی ناگہانی صورتحال کا سامنا حکومت اور سپہ سالار کو عین اس وقت کرنا پڑا جب ان کے خیال میں سب کْچھ معمول پر آچکا تھا اور دور دور تک ان کو کسی نئے چیلنج کا سامنا نہیں تھا ‘لیکن اچانک 25 نومبر کو ایک وکیل صاحب نے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کو چیلنج کردیا اور اگلے ہی دن یہ مقدمہ سماعت کے لئے مقرر ہوگیا ۔درخواست گزار کی پراسراریت اور انکار یت کو ایک طرف رکھتے ہوئے فاضل عدالت نے درخواست میں اٹھائے گئے نکات کو اہم جانا اور سماعت شروع کردی۔ اٹارنی جنرل کے سامنے معزز ججوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے نکات اور استفسارات سے معلوم ہوا کہ ہمارے قانون سازوں نے افواجِ پاکستان کے سپہ سالار کی سروس اور خدمات کے بارے میں کبھی کوئی قانون سازی ہی نہیں کی اور جتنے بھی سوالات فاضل عدالت نے پوچھے ان کا جواب نفی میں دیا گیا۔حکومت اور سپہ سالار کی خوش قسمتی کہئے کہ سپریم کورٹ کی قیادت اس وقت افتخار چوہدری یا ان کی باقیات کے ہاتھوں میں نہیں تھی‘ ورنہ آج ملک میں جمہوری نظام کی جگہ کوئی اور ماورائے آئیں اقدام ہو چکا ہوتا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی قیادت میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس سید منصور علی شاہ کے وزڈم نے ہمارے جمہوری نظام کو ڈی ریل ہونے سے بچا لیا اورآپ نے خودپر ''Judicial restraint ‘‘ کی پابندی لگاتے ہوئے ایک لینڈ مارک فیصلہ سنایا اور تمام فریقین کو سوچنے سمجھنے کا موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ دیے گئے وقت میں خود کریں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے آپ کو جوڈیشل ایکٹوازم کی طرف نہیں دھکیلا‘ میڈیا گیلری سے نہیں کھیلا اور نہ ہی پاپولر ازم کا شکار ہوئے۔انہوں نے تمام سٹیک ہولڈرز کو آئینہ دکھایا اور پارلیمنٹ کی کوتاہیوں‘ آئینی و قانونی سقم کی نشاندہی کی اور یہ بھی ثابت کیا کہ قانون کی حکمرانی کا تصور سب کے لئے یکساں ہوگا۔ عام آدمی کی طرح طاقتوروں کو بھی قانون کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا۔حکومت اور سپہ سالار کو سپریم کورٹ اور خاص طور پر چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کا شکر گزار ہونا چاہیے‘ جن کی بدولت ملک ایک بحران سے بچ گیا اور ان لوگوں کی بھی نشاندہی کرنا چاہئے جن کی دانستہ اور نادانستہ جہالت‘ کوتاہی‘ نااہلی اور سازشی تھیوری سے وہ محفوظ رہے‘ ورنہ آج صورتحال یہ نہ ہوتی۔لیکن یہ ابتدائے عشق ہے‘ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔