تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     29-11-2019

حوریں ہلکان ہوئی جاتی ہیں…

معجز قلم‘ معجز رقم‘ معجز زبان ‘ معجز بیان‘ تخیلاتی ‘بلکہ کرشماتی اور طلسماتی نجات دہندہ بریگیڈ ‘ ان دنوں خود نجات کا نروان ڈھونڈتا پھر رہاہے۔
کیا آپ نے wonder-landکی کسی Alice مزاج شخصیت کو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی Alice Wells کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے دیکھا؟ ایلس ویلز نروان کے سب سے اُونچے مچان پر بیٹھی ہے۔ادھر اپنے ہاں لوکل نجات دہندہ میں سے ایک سیاسی مولانا مسلسل جارہاہے۔دوسرا سیاسی مولانامتبادل آ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے ان کی جدوجہد کا قبلہ اسلام نہیںاسلام آباد ہے۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے مولویوں نے اننت ناگ بھلا دیا ہے‘مگر اقتدار کی آگ بھڑکتی رہے گی۔ آج راہِ نروان کے مسافروں کے نجات دہندہ ایک نہیں بہت سارے ہیں۔ Salvationکی اس بے باک مہم میں کبھی اداروں کا فٹ بال کھیلا جاتا ہے‘ کبھی چاہنے والی کے بھائی کو ناراض کرنے کے جرم میں تین چارنوجوانوں کو حوالات سے نکال کر سبزہ زارکیا جاتا ہے۔ 
ایسی چیزوں پرکوئی نہیں بولتا۔ اس لیے کہ مسئلے کی اصل جڑ پاکستان کی معاشی بحالی ‘ اندرونی استحکام اور عالمی پذیرائی ہے۔ اقوام کی دنیا میں کوئی ملک کسی دوسری سر زمین کا سجن پیارا نہیں ہوتا‘ جسے دیکھ کر اجنبی دیس کی سرکار پکار اُٹھے۔ ؎
سیّو نی‘ میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آ گیا 
انج لگدا ے جیویں رانجھن مینوں ہیر بناون آ گیا 
9/11کے بعد نیو ورلڈ آرڈر کی دنیا میں کسی مسلم ملک کے لیے اتنا بھی کافی ہے کہ اسے کوئی دہشت گرد نہ کہے ۔ اُس کو ٹریول ایڈوائزری کی Negative List سے نکال دیا جائے۔ اُس دیش کے تاجروں کے لیے عالمی تجارت کے راستے کھلے رہیں ۔ ایسی قوم کا لیڈر40 چوروں کا سردار' علی بابا‘ نہ ہو۔ غریبوں سے لوٹا ہوا مال لیڈرصاحب نے دُور دیس کے بینکوں کے لاکروں میں پارک نہ کر رکھا ہو‘ لیکن فی زمانہ نروان بریگیڈ کی ادبی ڈکشنری میں یہ بھی بھلا کوئی جرم ہے؟سیاسی رشوتوں کے دور میں معجز قلم‘ معجز رقم‘ معجز زبان ‘ معجز بیان‘ فنکار وں کا نعرئہ جدید یہ ہے۔ ''وہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے‘ ‘ یعنی قوم کا مال کھاناorder of the dayٹھہرا ۔ حرام کی کمائی جائز اور مباح ہو گئی۔ مرغی چور ی ناقابلِ معافی اور قابلِ تعزیر ‘لیکن پانچ نسلوں کے لیے کھربوں کے چوری شدہ مال کی منی لانڈرنگ ‘کالے دھن کی سفیدی‘ ووٹ کی عزت اور ووٹروں کی اصل آبرو مندی ہے۔
جرمنی کے نازی سپہ سالار (Great Fuhrer) ایڈوولف ہٹلر نے نازی جرمنی میں کرکٹ کے کھیل پر پابندی لگا دی تھی۔ ہٹلر کے نزدیک یہ کھیل قوم کو سست بنا دے گا۔ تین اور پانچ دن کا کھیل معاشی ترقی کا پہیہ بھی ڈسٹرب کرے گا۔ آج اُسی یورپ میں نقب زنی کرنے والے چوروں کے لیے محفوظ ٹھکانے بن چکے ہیں‘ لیکن سامنے والے دروازے سے آنے والوں کے لیے راستے مسّدود اور مواقع معدوم ہیں۔ اس کی مثال ایک قانون سے ملتی ہے جسے ''پیپس‘‘(PEPs) کہا جاتا ہے۔ یعنی( Politically exposed person)۔ اس قانون کے تحت مشہور سیاسی شخصیات کی فہرست مرتب ہوتی ہے۔ عالمی فہرست ‘ جس میں پاکستان کی سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں۔ ایسے معروف لوگوں کو بینک اکائونٹ کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے جب تک بینک میں اکائونٹ نہیں ہوگا کوئی لین دین یا کاروبار نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی Letter of creditنہیں کھل سکتا ‘ نہ ہی کسی فنانشل ادارے سے قرضہ لیا جا سکتا ہے۔ ایسا شخص اپنے ملک سے بینکنگ کے چینل سے رقم برطانیہ ‘ امریکہ یا یورپی ملکوں میں بھجوانے میں کامیاب ہو جائے تو اس کے خلاف کئی طرح کی تحقیقات شروع ہو جاتیں ہیں۔ جن میںTerror Financing‘ منی لانڈرنگ ‘ Drug Proceeds یعنی منشیات کی آمدنی جیسے الزامات شامل ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سورس آف انکم پوچھا جاتا ہے۔ منی ٹریل کے ثبوت پیش کرنا اس کے علاوہ ہے۔ اگر کوئی ملینز یا بلینز کے حساب سے لُوٹ مار کا مال بیک چینلز سے بلیک منی کی صورت میں ان ملکوں میں پہنچانے میں کامیاب ہو جائے تو وہ MAY FAIRاپارٹمنٹ جیسی بے شمار عمارتیں خرید سکتا ہے۔ وہاں بھی حرام کے مال کا وہی نعرہ ہے۔ ''کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے‘‘۔ نہ یہاں ‘ نہ وہاں‘ دونوں جگہ‘ بڑے قانون کے بھی بڑے ۔ اُن کے نوٹ کو عزت ملتی ہے۔ نوٹ لُوٹ کا ہو یا کھسوٹ کا۔ کیا فرق پڑتا ہے؟
کراچی کا ڈان منی لانڈرنگ کرے تو اُسے لندن میں بھی ایسے ضمانت ملتی ہے جیسے پیزا ڈیلیوری کی سروس۔ غریب ڈاڑھی والا ٹیوب سٹیشن پر دوڑ لگا دے تو 4/5پولیس والے کھڑے کھڑے سٹریٹ جسٹس کے لیے ٹرین کورٹ لگاتے ہیں۔ بھاگنے والے مسافر پر دہشت گردی کا چارج فریم کرتے ہیں۔ اپنے پاس سے روحانی گواہ پیش کرتے ہیں۔ ملزم کو صفائی کا موقعہ فراہم کرنے کی بجائے پوسٹ مارٹم کے ذریعے اُس کی لاش کوصفائی کا چانس دیتے ہیں۔ مائی لارڈ بن کرفیصلہ سناتے ہیں اور پھر Executionerبن کر سزائے موت پر فوری عمل درآمد کر ڈالتے ہیں‘ یعنی '' بھاگتا ہے تو گولی بھی تو کھاتا ہے‘‘۔
مغربی دنیاکی NGOs جو مسلم ممالک میں ہر روز کروڑوں ڈالر سے لاکھوں (NGOs) کا سرکس چلاتی ہیں۔ ایسے مسافر کے لیے ایک موم بتی جلانا بھی فالتو خرچہ سمجھتی ہیں۔دوسری جانب پاکستان میں بھی ایک خالص ‘ قانونی اور آئینی مسئلے پر سٹریٹ جسٹس ہوا۔ کئی پہلوئوں سے اسے تاریخ میں کامیڈی آف Errorsبھی کہا جائے گا۔ 
سمریاں‘ نوٹیفکیشن ‘ دلائل پیچھے رہ گئے اور سٹریٹ جسٹس آگے نکل گیا۔ اس سٹریٹ جسٹس کے ماحول میں ‘آئینی عدالت نے ہمارے قابلِ فخر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ جاری کیا۔قابل فخر کئی اعتبار سے‘ مگر دشمنوں کے لیے باجوہ ڈاکٹرائن کے خالق کی حیثیت سے بھی۔ اس لیے جونہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں جنرل باجوہ کیس پہنچا تو بھارت کے طول و عرض میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ سپریم کورٹ اس مختصر فیصلے کے تین پہلواہم ہیں۔
پہلا مئی 2020ء تک جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدے میں عدالتی توسیع دی گئی ہے۔ جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ اگلے تین سال جون 2020ء سے شروع ہو ںگے۔ اور جون 2023ء میں پاکستان کا الیکشن آئے گا۔ یہ موجودہ تناظر میں سب سے دلچسپ پہلو ہے۔
دوسرا ‘ سپریم کورٹ آ ف پاکستان کے جیورسٹ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حکومت اور پارلیمنٹ دونوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ 6 ماہ کے عرصے میں ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کر کے آرمی چیف کی توسیع اور ملازمت کی شرائط واضح کریں۔ 
تیسرا ‘ عدالت نے جوڈیشل Restraintکے اصول پر انحصار کیا اور معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا۔ جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ اداروں میں تصادم کی بجائے آئینی اصولوں پر تفہیم اور تعاون کا ماحول آگے بڑھا۔ جو اقتدار کی دستوری مثلث اور جمہوریت دونوں ہی کے لیے اچھا شگون ہے۔ بات شروع ہوئی تھی معجز قلم‘ معجز رقم‘ معجز زبان ‘ معجز بیان‘ تخیلاتی ‘کرشماتی اور طلسماتی نجات دہندہ بریگیڈ سے۔ جو اشارے کنائے ‘ ادا اور چلمن کے پیچھے سے بول رہا ہے۔ لوگوں کو ترغیب کہ عشق میں جان چلی جاتی ہے اور اپنی باری پر حور و غلمان کو بھول کر جان بچانے والوں کی صف میں‘ بلکہ مفرورں کے عالمی شہر لندن میں نظر آتے ہیں۔ مطلب سچ اچھا پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا۔بقول شاعر؎
حوریں ہلکان ہوئی جاتی ہیں
شیخ آمادہ ہی نہیں مرنے کو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved