آپ سب جہاں دیدہ ہیں ۔ سرد و گرم چشیدہ ہیں۔ زندگی بہت سے پھول آپ کی جھولی میں ڈال دیتی ہے اور بہت سے زخم آپ کے دل پر لگا دیتی ہے۔ فیصلہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ تعداد کس کی زیادہ ہے۔ وہ خوش نصیب جو بھری جھولی لیے پھرتا ہے اس کے اندر بھی لہو قطرہ قطرہ رستا رہتا ہے۔ جھولی سب دیکھتے ہیں‘ دل کون دیکھتا ہے؟
سیاست پر کالم نگاری بھی ایک طرح کی سیاست ہے۔ کسی ایک جماعت کے حق میں یا مخالف ہونا پڑتا ہے۔ اس جماعت کی خرابیوں کی طرف سے آنکھ بند نہ کریں‘ خوبیوں کا شور آسمان تک بلند نہ کریں‘ مخالفوں پر حقیقی اور فرضی الزامات رنگ آمیزی کے ساتھ لگا کر ایسی تیسی نہ کریں تو کوئی جماعت آپ کو پسند نہیں کر سکتی۔ سب سے گھاٹے میں وہ کالم نگار رہتے ہیں جو ہر سیاسی گروہ کی‘ اپنی سوچ کے مطابق‘ اچھائی‘ برائی میرٹ پر بیان کرتے ہوں۔ جو دل کی بات کہتے ہوں اور ان کی اپنی کوئی بھی جماعت نہ ہو۔ ایسے لکھنے والے ہمیشہ گھاٹے میں رہتے ہیں۔ اپنوں کو خفا اور بیگانوں کو ناخوش کرنے کا سودا گھاٹے ہی کا تو ہوتا ہے۔
دماغ اور شکم کے درمیان ایک چیز ہوتی ہے جسے دل کہتے ہیں۔ اگر دل کی بات دل تک پہنچانے کا تہیہ ہو تو مصلحت کیش دماغ اور حریص شکم سے صرفِ نظر کرنا ضروری ہے۔ دل صاحب ناراض ہو جائیں تو منتے نہیں ہیں‘ اس لیے ان کی ماننا ہی پڑتی ہے‘ سو اس بے ہنر کالم نگار نے بھی گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ نہ کہیں کے دانا ہیں‘ نہ کسی ہنر میں یکتا‘ اس لیے اس پر بھی اصرار نہیں کہ جو کہا گیا ہے وہی درست ہے۔ ہاں اصرار اس پر ضرور ہے کہ یہ دل کی بات ہے۔
میں نے گر تو برا نہ مانے کے عنوان سے پچھلے دنوں ایک کالم میں دھرنے میں شامل جماعتوں اور عمران خان صاحب سے ایک ایک سوال پوچھا تھا۔ سوال سب جماعتوں سے ہیں لیکن آج ایک سوال جے یو آئی سے۔
جے یو آئی والے عمران خان صاحب پر ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ جناب فضل الرحمن تواتر سے یہ الزام دہراتے آئے ہیں اور اس الزام میں غیظ و غضب کی شدت کا اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔ ویسے تو وہ عمران خان صاحب کے بارے اور بھی بہت کچھ کہہ دیتے ہیں‘ لیکن فی الحال ان الزامات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اس بات کو بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ الزامات عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے الزامات کے جواب میں لگائے گئے یا پہلے۔ بہرحال یہ سنگین ترین الزام ہے‘ جبکہ بے بنیاد تہمت اور بے ثبوت الزام کی وعیدیں سب کے سامنے ہوتی ہیں‘ اسی لیے محتاط لوگ اس سے ہر ممکن حد تک بچتے رہے ہیں۔ کسی شبے کی صورت میں‘ جو یقین اور قطعی ثبوت کے درجے تک نہ پہنچا ہو‘ بہت بچتے ہوئے لفظ استعمال کرتے رہے ہیں اور یہی چلن اس دنیا کا ہے جو اخلاقیات پر یقین رکھتی ہے۔ بے شمار مثالیں تو صرف تاریخِ اسلام سے دی جا سکتی ہیں جہاں بد ترین مخالف بلکہ جانی دشمن کے لیے بھی وہ لفظ استعمال کیے گئے جن میں ان وعیدوں سے بچا جا سکتا ہو۔ میں یہ نہیں مان سکتا کہ یہ وعیدیں مولانا فضل الرحمن اور جمعیت کے اکابرین کی نظر سے نہیں گزری ہوں گی اور یہ تو سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ علمائے جمعیت خدا خوفی سے خالی ہوں گے‘ تو پھر یہ سنگین الزام کیا ہے؟ اور کیوں ہے؟ یہی میرا سوال بھی ہے۔
ایک شخص جو 1952ء میں لاہور میں پیدا ہوا۔ جس کے والدین اور شجرہ سب کے سامنے ہے۔ جس کا تعلیمی سفر معلوم ہے‘ جس کے بچپن کے ہم جماعت اب بھی بے شمار موجود ہیں۔ جس نے اعلیٰ درجے کی کرکٹ کھیلی اور اس میں بہت عزت اور پذیرائی سمیٹی۔ ایک لمبے عرصے تک پاکستان کی نمائندگی کی۔ کسی بھی کھلاڑی نے یہ بات نہیں کہی کہ اس کا یہودیوں سے کوئی تعلق رہا ہے۔ جس کی والدہ ایک نیک اور مذہبی خیالات کی حامل خاتون تھیں اور اس کی شخصیت پر اپنی والدہ کی تربیت کے گہرے اثرات ہیں۔ جو سیاست میں آیا تو 22 سال اپوزیشن میں رہا۔ جس کے بے شمار مخالف رہے ‘ جس کی چھان بین ہر اقتدار میں آنے والے گروہ نے کروائی۔ جس پر بہت سے الزام لگے اور زور شور سے مشتہر ہوئے۔ جس کا میلان اسلام کی طرف ہوا تو ٹوٹ کر ہوا۔ صحیح یا غلط دین فہمی کی بات الگ‘ لیکن بے شمار شواہد ہیں کہ وہ نیک نیتی سے اس طرف آیا ہے۔ اس کی زندگی سب کے سامنے رہی۔ 67 سال اس نے چھپ کر نہیں‘ سب کے بیچ گزارے۔ اس کی خوبیاں‘ خامیاں‘ مزاج‘ سب نے مشاہدہ کیے۔ آج بھی جناب فضل الرحمن کے سوا اس کے کٹر مخالف بھی اسے ایجنٹ نہیں گردانتے‘ تو ایسا شخص ایجنٹ کیسے ہو سکتاہے؟ کن شواہد‘ کن ثبوتوں‘ کن دلیلوں کی بنیاد پر؟کیا محض یہ بات کہ اس کی شادی‘ جو اَب ختم ہوئے بھی ایک مدت ہو چکی ہے۔ جمائما گولڈ سمتھ خود مبینہ طور پر عیسائی ہیں‘ لیکن ان کا خاندانی پس منظر یہودی تھا‘ لیکن کیا یہ سب ان الزامات کے لیے کافی ہے جو عمران خان صاحب پر لگائے جاتے ہیں؟ کیا اہل کتاب سے نکاح کی اجازت خود اسلام نے نہیں دی ؟ جو دلائل مولانا کے پاس ہوں گے‘ وہ کسی بھی غیر جانبدار سے پوچھے جائیں تو منصف مزاج لوگ کیا چیز تسلیم کریں گے؟ کسی دارالافتا کو بھیجے جائیں تو کیا جواب آئے گا؟ کسی عدالت میں رکھے جائیں تو کیا فیصلہ ہو گا؟ کون ایک پردہ دار مذہبی خاتون سے شادی کرتا ہے؟ کون ہر تقریر میں اسلام کی خوبیاں بتاتا ہے۔ کون اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا کے بارے میں کھل کر بات کرتا ہے؟ کون کشمیر کی بات اس طرح کرتا ہے جیسے عمران خان نے کی ہے؟
میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ لیکن پہلے یہ بات کہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن کسی ملک‘ خاص طور پر کسی دشمن ملک کے ایجنٹ کبھی نہیں ہو سکتے۔ پاکستان کے بارے میں جمعیت علمائے ہند کا نظریہ کچھ بھی رہا ہو‘ اور اب بھی ہو‘ مولانا کا جینا مرنا پاکستان اورپاکستانیوںکے ساتھ ہے۔ لیکن اگر کوئی مخالف یہ کہے کہ مولانا خدانخواستہ بھارتی ایجنٹ ہیں‘ اور اس کا ثبوت یہ پیش کرے کہ فضل الرحمن‘ ان کی جماعت‘ ان کے اکابرین پاکستان بننے کے بھی مخالف تھے اور بعد میں بھی اپنے مؤقف کا زور و شور سے دفاع کرتے رہے۔ اس معاملے میں پاکستانیوں کے مؤقف سے الگ رہتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے بانی تو تحریک ِپاکستان کے صف اول کے رہنما علامہ شبیر احمد عثمانی تھے‘ ان کے رفقا جناب مفتی محمد حسن‘ مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع‘ اور دیگر علما تھے‘ جن کی خدمات جمعیت ‘نیز تحریک اور تعمیر پاکستان میں ناقابل فراموش رہیں گی۔ جناب فضل الرحمن نظریاتی اختلاف کی وجہ سے ان حضرات کا نام لینا بھی پسند نہیں فرماتے اور جمعیت علمائے اسلام‘ جو دراصل تھی ہی ان حضرات کی جماعت‘ تاریخ کا یہ حصہ کاٹ کر اپنا سلسلہ جمعیت علمائے ہند سے جوڑتی ہے۔
اس صورت میںکوئی مخالف اُٹھ کر مولانا فضل الرحمن پر ایجنٹ ہونے کا الزام لگا دے تو جمعیت کا رد عمل کیا ہو گا؟ کیا وہ ان دلائل کو قبول کر لیں گے؟ کیا دو قومی نظریے کی مخالفت کی بنیاد پر وہ بھارتی ایجنٹ ثابت ہو سکتے ہیں؟ ظاہر ہے یہ فضول بات ہو گی۔ ایسی ہی فضول بات جیسے عمران خان صاحب پر ایجنٹ کا الزام۔ مگر کچھ کہنا ہی ہو تو کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔
غلط اور بے ثبوت الزام بوم رِنگ کی طرح پھینکنے والے کی طرف لوٹ کر آ جاتا ہے۔ خود اسے زخمی کرنے کے لیے۔ جمعیت کے زعما اپنا یہ خاص الزام وزنی کرنے کے لیے یا ٹھوس ثبوت پیش کریں یا اسے واپس لیں۔ محض یہ دہراتے رہنے سے نہ اسے سنجیدہ طبقات میں پذیرائی مل سکتی ہے‘ نہ عوامی عدالت میں۔اور پھر وہ عدالت؟ وہاں کیا ہو گا؟