تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-11-2019

سرخیاں‘متن اور اقتدار جاوید کی پنجابی غزل

48 گھنٹے اہم‘ حکومت روز اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتی ہے: جاوید ہاشمی
سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''48 گھنٹے اہم‘ حکومت روز اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتی ہے‘‘ لیکن اس کے پائوں ویسے کے ویسے ہی ہیں ‘جس کا مطلب ہے کہ یا تو کلہاڑی بہت کُند ہے یا حکومت کے پائوں لوہے وغیرہ کے بنے ہوئے ہیں‘ جو اُن پر اثر نہیں ہوتا‘ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اس کلہاڑی کو تیز کروائیں‘ تاکہ وہ نتیجہ خیز بھی ثابت ہو ‘ورنہ وہ محض وقت ضائع کرتی رہے گی‘ بلکہ بہتر ہے کہ حکومت کوئی نئی کلہاڑی خریدے ‘تا کہ وہ کام بھی کرے اور اسے بار بار پائوں پر نہ مارنا پڑے‘ جبکہ میں تو حکومت کو مشورہ ہی دے سکتا ہوں‘ کیونکہ میرے پاس مشورے دینے کے علاوہ کرنے کو کوئی کام ہی نہیں ہے اور میں روز روز مشورہ بھی نہیں دے سکتا ‘کیونکہ مفت مشورے کا ہمارے ہاں کوئی رواج ہے اور نہ ہی اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ آپ اگلے روز شارجہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف کی طبیعت میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں: حسین نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے مفرور صاحبزادے حسین نواز نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی طبیعت میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں‘‘ جس کے بعد انہوں نے کھانے پینے میں پھر بدپرہیزی شروع کر دی ہے کہ عمر اگر خدانخواستہ تھوڑی بھی رہ گئی ہے‘ تو پرہیزی کھا کھا کر اپنی عاقبت کیوں خراب کریں‘ جبکہ ان کی عاقبت پہلے بھی کافی خراب چلی آ رہی ہے‘ چونکہ طبیعت میں بہتری نہیں آ رہی‘ اس لیے ان کی واپسی کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے میں نے انکل شہباز سے بھی کہہ دیا ہے کہ واپس جا کر عدالت میں بیان دے دیں کہ نواز شریف واپس آنے سے معذور ہیں اور توہین ِعدالت کے ضمن میں اگر دو چار ماہ کے لیے اندر بھی ہو جائیں تو بڑے بھائی کے لیے اتنی قربانی تو انہیں دینی ہی چاہیے اور جو لاتعداد مقدمات ان کے خلاف لگاتار بن رہے ہیں‘ ان کی سزامیں اگر دو چار ماہ کا مزید اضافہ بھی ہو گیا تو کیا فرق پڑے گا ‘جبکہ ساری سزائیں ایک ساتھ ہی شروع اور ختم ہوں گی ۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملکی باگ ڈور غیر سنجیدہ لوگوں کے ہاتھ میں ہونا افسوسناک : سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ملکی باگ ڈور غیر سنجیدہ لوگوں کے ہاتھ میں ہونا افسوسناک ہے‘‘ جبکہ میرے جیسے انتہائی سنجیدہ شخص سے کام لینے میں بھی کوئی ہرج نہیں ہے اور میری سنجیدگی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ میں تو کبھی ہنستا ہی نہیں ہوں‘ بلکہ اگر مجھے کوئی لطیفہ سنایا جائے تو اداس ہو جاتا ہوں ‘جبکہ مجھے تو مسکرائے بھی ایک زمانہ ہو گیا ہے؛حتیٰ کہ تصویر کھینچواتے وقت اگر فوٹو گرافر ذرا مسکرانے کا کہے تو میں مزید مغموم ہو جاتا ہوں اور کئی کئی دن کھانا بھی نہیں کھاتا ‘کیونکہ ملک کے جو حالات چل رہے ہیں اس پر کُڑھا تو جا سکتا ہے‘ مسکرانا تو پرلے درجے کی بے حسی‘ بلکہ ملک دشمنی ہے اور میں لوگوں کو ہنستے مسکراتے دیکھ کر اور بھی ملول ہو جاتا ہوں کہ انہیں کیا ہو گیا ہے‘ کم از کم ملک کی صورتحال کو تو پیشِ نظر رکھیں‘ کیونکہ اگر وہ اس پر رو نہیں سکتے تو کم از کم ہنسنا اور مسکرانا ہی ترک کر دیں۔ آپ اگلے روز منصورہ میں اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
عدلیہ سمیت ادارے اپنے حدود میں رہ کر فرائض سر انجام دیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عدلیہ سمیت ادارے اپنے حدود میں رہ کر فرائض سر انجام دیں‘‘ اور ہم سے ہی سبق سیکھیں ‘کیونکہ ہم ایک ہی کام کرتے ہیں‘ جو ہمیں آتا ہے اور کبھی اپنی حدود سے باہر نہیں نکلے‘ بلکہ ہم اس کے علاوہ کسی کام کو کام سمجھتے ہی نہیں‘ اس لیے اسی ایک کام پر اکتفا کئے ہوئے ہیں اور صرف نیب ہمارے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے اور میرا خیال ہے کہ اسے بھی یہ ایک کام آتا ہے؛ حالانکہ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور ہم بری ہو کر سرخرو ہو جائیں گے‘ جیسا کہ والد صاحب دس سال جیل میں رہ کر بری ہو گئے تھے‘ کیونکہ مقدمے کا ریکارڈ اور دستاویزات ہی خدا کی قدرت سے گم ہو گئے تھے اور اس دفعہ بھی یہ کچھ ہو سکتا ہے‘ کیونکہ تاریخ اپنے آپ کو دُہرانے پر مجبور ہے۔ جیسا کہ ہر آدمی اپنی عادت سے مجبور ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بلدیاتی نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب اقتدار جاوید کی طویل پنجابی غزل میں سے کچھ اشعار:
ایتھے موتی سفنے اندر اوتھے اصلی لبھدے
پورا شہر ہنیرے ڈبیا تے چمکن دریا
سونے رنگے رَڑے میدان نیں چاندی وانگوں چھاں ہے
رنگاں اتّے رنگ پئے ڈوہلن رنگ رنگن دریا
اپنی شان سنبھال کے ٹر دے لہندے دل لہندے نیں
کس درویش دی صحبت وچ پروان چڑھن دریا
غوطے کھاندا جائے وچارا عکسوں عکسی ہو کے
کنڈھیاں دے سنگ ڈوبے چن نوں اپنا چن دریا
تھلّے سپّی تھلّے موتی اُتے بیڑی والا
اپنا من دریا او لوکا اپنا تن دریا
ٹردے ٹردے اوڑک ہک دن ونج سمندریں مُکّن
اپنے اندر سِمدے سِمدے گل جاون دریا
ہک کڑی دیاں پازیباں دی ہک چھنک جئی سُن کے
اتر پہاڑوں لہہ کے نچّے چھنن چھنن دریا
اکّو دولت ساڈے کم دی پانی وانگوں کنبے
ساڈی مِلک وراث دو اتھّرو ساڈا دھن دریا
نوبت باجے تے دل باجے دل باجے نوبت وچ
چار چراغ مزار دے اتّے پنج بلن دریا
ایویں تے نئیں ایہہ جبّار قہّار سدیندے آئے
اللہ وانگر مرضی والی چال چلن دریا
آج کا مطلع
خون میں خواب ہمارے تیرے
یہ فسادات ہیں سارے تیرے

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved