تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     30-11-2019

گرداب

نطق انسان کا امتیاز ہے۔ وہ کلام کرتا ہے اور کبھی ایسا کہ اس پر الہام کا گمان ہوتا ہے۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ایک جملہ کہا اور یہ ہر روز ایک درِ ادراک کھول دیتا ہے۔ فرمایا ''غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی‘‘۔ اس عہد کے شعرا میں ایک منیر نیازی ہیں کہ ان کا ایک شعر سیّد کے جملے کی طرح بہت دہرایا گیا اور واقعہ یہ ہے کہ ہمارے قومی بحران کا شاید ہی اس سے بہتر ابلاغ ہو سکے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
مجھے مولانا مودودی کے جملے اور اس شعر میں گہرا معنوی ربط محسوس ہوتا ہے۔ جب ہم غلطی پر اصرار کرتے ہیں اور اسے دھراتے ہیں تو ہم الجھے دھاگے میں اورگرہیں لگاتے چلے جاتے ہیں۔ یوں ہم اسی کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں، جس کو منیر نیازی نے منظوم کیا ہے۔
امریکی پالیسی سازوں کے بارے میں، مجھے اکثر یہی گمان ہوتا ہے کہ بعض معاملات میں، وہ بھی ہماری ہی طرح ہیں۔ نائن الیون کا حادثہ ہوا تو اس پر کمیشن بنا۔ کانگریس میں موجود ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس مل بیٹھے۔ اپنے نتائجِ فکر کو ایک رپورٹ کی صورت میں مرتب کر دیا۔ تجزیے کا یہ عمل آج تک جاری ہے۔ ان اعلیٰ دماغوں نے زمین و آسمان کو کھنگال ڈالا۔ تاریخ اور جغرافیہ کا ورق ورق اور قریہ قریہ دیکھ لیا۔ ابن تیمیہ سے سید قطب تک، افکار کا جائزہ لے لیا۔ اگر نہیں دیکھا تو امریکی حکمت عملی کو۔ اس سوال پر غور نہیں کیا کہ ایک سلطنت (Empire) جب غلبے کی نفسیات میں جیتی اور فاتح عالم بننا چاہتی ہے تو اس کی یہ خواہش زمین کو کس طرح فساد سے بھر دیتی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ سے افغانستان تک فساد برپا ہے۔ امریکی کبھی ایک کے دروازے پر دستک دیتے ہیں، کبھی دوسرے کی دہلیز پر جا کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کی نظر کبھی ایک کے گھر میں جھانکتی ہے اور کبھی دوسرے کے۔ اگر نہیں جھانکتی تو اپنے گریبان میں۔ امریکی پالیسی سازوں اور اہلِ دانش کی سوچ میں خود احتسابی کا کہیں گزر نہیں۔ ہنری کسنجر سے لے کر ہنٹنگٹن تک، اہلِ علم نے امریکی قوم کی راہنمائی کی ہے کہ وہ در پیش چیلنجوں کا کس طرح سامنا کرے۔ کسی نے یہ نہیں بتایا کہ خرابی اور فساد کی جڑ غلبے کی نفسیات ہے‘ جو ہر ظلم کی بنیاد ہے۔ جب ظلم ہو گا تو پھر امن نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کے پالیسی سازوں اور اہلِ دانش کا المیہ بھی یہی ہے۔ ایران و توران کی خبر لے آئیں گے مگر پیش پا افتادہ حقائق پر ان کی نظرنہیں پڑے گی۔ ملک گزشتہ ایک ہفتے کے دوران میں غیر یقینی کے ایک دور سے گزرا۔ یہ ایک خود ساختہ بحران کا نتیجہ تھا‘ جس کی بنیاد اقتدار کے ایوانوں میں رکھی گئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے حکومت کو سکھ کا سانس نصیب ہوا تو کچھ خوش گمانوں نے سوچا کہ اقتدار کے مناصب پر فائز لوگ اپنے اعمال کا جائزہ لیں گے اور خرابی کے اسباب تلاش کریں گے۔ ہوا مگر وہی جس کی توقع تھی۔
عمران خان صاحب نے ارشاد فرمایا ''آج بیرونِ ملک دولت رکھنے والوں، مافیاز، ملک دشمنوں اور ٹکراؤ چاہنے والوں کو مایوسی ہوئی... مافیا نے لوٹی گئی رقم بیرونِ ملک چھپا رکھی ہے اور وہ ملک کو عدم استحکام کا شکار کر کے لوٹی ہوئی رقم کو محفوظ بنانا چاہتا ہے‘‘۔ یہ بحران، ساری دنیا جانتی ہے کہ سر تا پیر حکومت کی اپنی صلاحیتوں کا مظہر تھا۔ اس میں دور دور تک 'مافیاز‘ کا کوئی کردار نہیں۔ اپوزیشن کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا کہ کہیں کوئی ایسا جملہ منہ سے ادا نہ ہو جائے جو کسی کی طبعِ نازک پہ گراں گزرے۔ اس وقت تو حکومت اور اپوزیشن، دکھائی یہی دیتا ہے کہ ایک ہی در کی سوالی ‘ اور خوش نودی کی طلب گار ہیں۔
خان صاحب کے ردِ عمل سے بالکل واضح ہے کہ وہ اپنی افتادِ طبع کے اسیر ہیں۔ لوگ پارلیمان میں جس اتفاق کی آس لگائے بیٹھے ہیں، کم از کم خان صاحب کی موجودگی میں تو اس کا کوئی امکان نہیں۔ وجہ ایک ہی ہے۔ وہ اپنی ہر غلطی کے اسباب خارج میں تلاش کرتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے غلطی کا صدور ممکن نہیں۔ جو آدمی 'یو ٹرن‘ کو بھی اپنی خوبی کے طور پر پیش کرے، اس سے اصلاح کی کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
یہ سب مگر ایک بڑی تصویر کا محض ایک رخ ہے۔ اس سارے عمل میں کوئی قانونی سقم نہ ہوتا تو بھی ایک بحران کا پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ میرا احساس ہے کہ وہ بحران ابھی ٹلا نہیں اور کسی وقت نمودار ہو سکتا ہے۔ ہم نے آغازِ سفر میں ایک غلطی کی۔ اس نے انڈے بچے دیے۔ ہم آج تک اس کی اصلاح کے لیے آمادہ نہیں یوں ہم ایک دریا کے پار اترتے ہیں تو ایک دوسرا دریا ہمارا منتظر ہوتا ہے۔
وہ غلطی کیا ہے؟ یہ آئین کو نظر انداز کرنا ہے۔ اُس عمرانی معاہدے کو پسِ پشت ڈالنا ہے، جس کے احترام کا ہر اہم منصب پر فائز شخصیت نے حلف اٹھا رکھا ہے۔ مثال کے طور پر اس بحران کے دوران میں آئین کی جو شقیں زیرِ بحث رہیں، ان میں ایک دفعہ 245 بھی تھی۔ یہ شق بتاتی ہے کہ پاک فوج کے فرائضِ منصبی کیا ہیں۔ آئین کی رو سے، یہ فرائض دو ہیں: وفاقی حکومت کی ہدایت پر خارجی جارحیت کے خلاف ملک کا دفاع اور حکومت کے کہنے پر کسی معاملے میں سول انتظامیہ کی معاونت۔ آئین کے شیڈول تین میں وہ حلف نامہ بھی دیا ہوا ہے‘ جس میں فوج میں آنے والا خدا کو حاضر و ناظر جان کر یہ حلف اٹھاتا ہے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں سے دور رہے گا۔
یہ آئین صدر، وزیر اعظم اور دوسرے مناصب کی ذمہ داریاں بھی بیان کرتا ہے اور آئین میں ان کے حلف نامے بھی درج ہیں۔ اُن سب مناصب میں سے کسی ایک پر فائز، جب اپنے حلف سے انحراف کرتا ہے تو بحران جنم لیتا ہے۔ جو جتنے بڑے منصب پر فائز ہے، اسی نسبت سے بڑے بحران کا باعث بنتا ہے۔ پہلی غلطی جنرل ایوب خان سے ہوئی۔ ہم نے اس کی اصلاح کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ آج یہ اتنے انڈے بچے دے چکی کہ ان کو سمیٹنا ہمارے بس میں نہیں رہا۔ وہی بات کہ دریاؤں کا سلسلہ ختم ہو نے کو نہیں آرہا۔
میں اس دعوے کی حکمت کو بھی کبھی نہیں سمجھ سکا کہ فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں۔ تاریخ سے واضح ہے کہ ملکی استحکام کیلئے یہ کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ عوام اور فوج ایک صفحے پر ہوں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ آرمی چیف کا تقرر محض وزیر اعظم کی صوابدید نہ ہو۔ اس کیلئے پوری قوم کے نمائندوں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ پارلیمنٹ وہ ادارہ ہے جو پوری قوم کی نمائندگی کرتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے آرمی چیف کے معاملے کو پارلیمنٹ کی طرف بھیج کر اہلِ سیاست کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ اس تاریخی غلطی کی اصلاح کر لیں۔
میری تجویز ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی طرح چیف آف آرمی سٹاف کے تقرر یا توسیع کو بھی اپوزیشن لیڈر کی تائید یا اُس پارلیمانی کمیٹی کی منظوری سے مشروط کر دیا جائے جس میں سب جماعتوں کی نمائندگی ہو۔ اس سے کسی کو یہ موقع نہیں ملے گا کہ وہ سپہ سالار پر جانب داری کا الزام لگائے۔ یوں یہ منصب، عدالتِ عظمیٰ کے الفاظ میں ،کسی کی نا اہلی کے سبب شٹل کاک نہیں بنے گا۔
اہلِ سیاست نے اگر اب بھی کوتاہ نگاہی کا مظاہرہ کیا اور اس سارے معاملے کو ادارے کے مفاد کے بجائے، کسی خاص فرد کی خوشنودی کے حصول کا موقع سمجھا تو یہ دراصل تاریخی غلطی پر اصرار ہو گا۔ پھر انہیں یہ حق نہیں کہ 'ووٹ کو عزت دو‘ یا عوامی حاکمیت کا نعرہ بلند کریں۔ پارلیمنٹ جو فیصلہ کرے، میرا مشورہ ہو گا کہ مولانا مودودی کے جملے اور منیر نیازی کے شعر کے باہمی تعلق نظر کو سامنے رکھے۔ یہ غیب سے آنے والے مضامین ہیں، انہیں نظر انداز نہیں کیا جا نا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved