مرزا محمد عارف بیگ نے سوال بھیجا ہے: '' عرصہ دراز سے علماء اہلسنت کا اجماع رہا ہے کہ نبی ورسول اور پیغمبر حضرات کے ناموں کے ساتھ '' عَلَیْہِ السَّلام‘‘ اور حضور اکرم کے لیے '' ﷺ ‘‘‘ صحابہ کے ناموں کے ساتھ ''رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘‘ اوراولیائِ کرام کے ناموں کے ساتھ'' رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ‘‘ لکھا جاتا ہے ‘اس کے علاوہ فوت شدہ علماء اورعام صالحین کے ناموں کے ساتھ ''عُفِیَ عَنْہُ‘‘ کی ڈگری /اصطلاح استعمال ہوتی ہے‘مگر آج کل بعض حضرات ان کلمات کو تخفیف (Abbreviation) کے ساتھ لکھ دیتے ہیں ‘نیز بعض اوقات اولیائے کرام کے نام کے ساتھ بھی رضی اللہ عنہ لکھ دیتے ہیں اور ثبوت کے طور پر التوبہ:100کا حوالہ دیتے ہیں ‘مگر مستند اور جامع تاریخ کے حوالے سے یہ بات فیصلہ کن ہے کہ نبیوں‘ رسولوں‘ پیغمبروں اور صحابہ کی ڈگری /اصطلاح حتمی وتصدیقی اور ثبوت کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے‘ مگراولیا اور مومنین کی ڈگری دعائیہ معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔اس سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن کی یہ آیات اصل میں صحابہ ہی کے لیے ہیں۔ اس کے علاوہ غورطلب بات یہ ہے کہ پچیس تیس سال قبل کی تحریر کردہ دینی کتب اورخاص کرامام احمد رضا خان قادری کی تحریر میں کسی ولی کے لیے رضی اﷲ عنہ کے کلمات استعمال نہیں ہوئے‘‘ ۔
ہم اس کا جواب قدرے تفصیل کے ساتھ دے رہے ہیں :
پہلے ان کلمات کے معانی سمجھ لیں: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے معنی ہیں: اللہ اُن سے راضی ہوگیا‘ رَضُوْا عَنْہُ کے معنی ہیں: وہ اللہ سے راضی ہوگئے‘ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے معنی ہیں: اُن پر اللہ کی رحمت ہو‘ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی کے معنی ہیں: اللہ اُن پر رحم فرمائے‘ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُ کے معنی ہیں: اللہ انہیں معاف فرمائے‘ عُفِیَ عَنْہُ کے معنی ہیں: انہیں معاف کردیا جائے‘ غَفَرَ اللّٰہُ لَہ کے معنی ہیں: اللہ اُن کی بخشش فرمائے‘ غُفِرَ لَہٗ کے معنی ہیں: اُن کی بخشش فرمائی جائے‘ وغیرہ ۔الفتح :18توتخصیص کے ساتھ اصحابِ بیعتِ رضوان کے لیے نازل ہوئی ہے‘البتہ دیگرآیاتِ مبارکہ میں جو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ آیا ہے‘وہ صحابہ ‘ اُن کے متبعین اور مومنین صالحین کے لیے بطورِ عموم آیا ہے اور یہ خبر اور دعا دونوں معنی میں ہے‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن پر ایک انعام ‘اکرام ‘ شرف اور اعزاز ہے۔دیگر کلمات دعا کے لیے ہیں اور عربی زبان میں دعائیہ کلمات یا تو امر کے صیغے کے ساتھ آتے ہیں ‘جیسے:اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ(اے اللہ !بخشش فرما) یاکبھی ماضیِ معروف اورکبھی ماضیِ مجہول کے صیغے کے ساتھ آتے ہیں ‘جیسے: غَفَرَ اللّٰہُ لَہٗ اور غُفِرَ لَہٗ‘ اسی طرح عَفَا اللّٰہُ عَنْہُ اورعُفِیَ عَنْہُ وغیرہ۔
عرف ِعام میں چونکہ صحابہ کرام کے اسماء گرامی کے ساتھ ''رضی اللہ عنہ‘‘ لکھااوربولا جاتا ہے‘ بلکہ تقریباً اس کا التزام کیا جاتا ہے‘ اس لیے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ شاید یہ صحابہ کرام کا خاص لقب ہے‘ لیکن یہ نظریہ درست نہیں ہے‘ کیونکہ قرآن مجید میں رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صحابۂ کرام کے لیے بھی آیا ہے اور غیرِ صحابہ مومنینِ صالحین کے لیے بھی‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:'' اورمہاجرین اور انصار میں سے (نیکی میں) سبقت کرنے والے اور سب سے پہلے ایمان لانے والے اور جن مسلمانوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ‘اﷲ ان سے راضی ہوگیااور وہ اﷲ سے راضی ہوگئے‘‘ (التوبہ:100) اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہواکہ مہاجرین وانصار صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہمُ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے احسان کے ساتھ اُن کا اتباع کرنے والوں کو بھی اپنی رضا (یعنی رضی اللہ عنہ) کے اعزاز سے نوازا ہے‘دوسرے مقام پرفرمایا:''یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے‘ وہی تمام مخلوق میں بہتر ہیں‘ ان کا صلہ ان کے رب کے پاس (ہمیشہ) رہنے کے باغ ہیں‘ جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے‘ اﷲ ان سے راضی ہوا اور وہ اﷲ سے راضی ہوئے‘(البینہ:8)‘‘۔اس آیت کے سیاق وسباق بلکہ پوری سورۂ اَلْبَیِّنَہ میں خاص طور پر صحابۂ کرام کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے‘اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اعزاز واکرام کے مستحق عام اہلِ ایمان اور صالحین بھی ہیں ‘اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(روزِقیامت) اللہ فرمائے گا: یہ ہے وہ دن جس میں سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا‘ ان کے لیے باغات ہیں‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں‘ وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے‘ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے‘ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘(المائدہ: 119) ‘‘۔ اس آیۂ مبارکہ کے سیاق وسباق میں بھی صحابۂ کرام کا کہیں ذکر نہیں ہے‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بے پایاں صلہ وانعام اور اعزازجمیع مومنینِ صادقین کے لیے ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابۂ کرام شرفِ صحابیت کے ساتھ ساتھ مومنین صالحین ‘ خَیْرُالْبَرِیَّہ اورصادقینِ کاملین کے بطریقِ اَولیٰ مصداق ہیںاور ان کے اتباع میں امت کے دیگراولیا‘صلحا‘علما وعاملین ''مُخْلِصِیْن لِلّٰہ‘‘(جنہوں نے اپنے دین کو اللہ کے لیے خاص کردیا ہے) ا ور ''مُخْلَصِیْن مِنَ اﷲ‘‘(جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے لیے چُن لیا ہے) ہیں۔تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے: ''صحابہ کے لیے '' رضی اللہ عنہ‘‘ کہنا مستحب ہے‘ اسی طرح اُن شخصیات کے لیے جن کی نبوت میں اختلاف ہے‘ جیسے ذوالقرنین ولقمان ‘ بعض مفسرین نے انہیں انبیا میں اور بعض نے حُکَمَا وصُلَحَا میں شمار کیا ہے۔ راجح قول کے مطابق ''رحمۃ اﷲ علیہ‘‘ تابعین اور بعد کے علما ‘ عباد(صالحین)اور بقیہ اہلِ خیر کے لیے مستحب ہے اوراس کا عکس بھی جائز ہے‘ یعنی کسی صحابی کے نام کے ساتھ ''رحمۃ اﷲ علیہ‘‘ بھی لکھ سکتے ہیں اور کسی تابعی یا بعدکے عبدِ صالح کے لیے ''رضی اللہ عنہ‘‘ بھی لکھ سکتے ہیں‘اسے قرمانی نے ذکر کیا۔ ''زیلعی‘‘نے کہا:بہتر یہ ہے کہ صحابہ کے ساتھ رضی اللہ عنہ‘ تابعین کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ اور بعد والوں کے لیے ''غَفَرَ اللّٰہُ لَھُمْ یا عَفَااللّٰہُ عَنْھُمْ‘‘ کہاجائے‘(ردالمحتارعلی الدر المختار: ج: 10‘ ص:402‘ بیروت)‘‘۔
امام نووی لکھتے ہیں:''صحابہ کرام ‘تابعین اور ان کے بعد آنے والے علما‘ عابدین اور تمام نیک لوگوں کے لیے رضائِ الٰہی اور رحمت کی دعا کرنا مستحب ہے‘ پس رضی اللہ عنہ یا رحمۃ اللہ علیہ یا رحمہ اللہ کہا جائے گا اور بعض علما نے جو کہا ہے کہ رضی اللہ عنہ کہنا صحابہ کے ساتھ خاص ہے اور غیر صحابہ کے لیے صرف رحمہ اللہ کہاجائے گا‘ تو ایسا نہیں ہے‘ صحیح بات وہی ہے جو جمہور اہل علم کا مؤقف ہے کہ صحابہ وغیرصحابہ کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہنا مستحب ہے اور اس کے دلائل بہت زیادہ ہیں۔ پس اگر کسی ایسے صحابی کا ذکر ہو جو کسی صحابی کے بیٹے ہوں تو یوں کہے ''قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘‘ اسی طرح ابن عباس‘ ابن زبیر‘ ابن جعفر اور اسامہ بن زید وغیرہ صحابہ کرام ہیں‘(المجموع شرح المہذب‘ج:6ص:172) ‘‘۔
''رَضِیَ اﷲ عَنْہُ‘‘،''رَحْمَۃُ اﷲِ عَلَیْہِ‘‘،''رَحِمَہُ اﷲ تَعَالٰی‘‘،''غَفَرَاﷲ لَہٗ‘‘،''غُفِرَلہٗ‘‘،''عَفَااﷲ ُعَنْہُ‘‘ ، ''عُفِیَ عَنْہُ‘‘دعائیہ کلمات ہیں‘ڈگریاں نہیں ہیں‘دعائیہ کلمات کے لیے امر یا ماضی کا صیغہ استعمال ہوتا ہے‘یعنی ہمیں اللہ کی عطا پر یقین ہے کہ وہ اپنے ان محبوب ‘مکرّم اور مقرّب بندوں کو اپنی خصوصی رحمت سے نوازے گااور ہم اسی کی دعا کرتے ہیں‘اسی طرح بیع وشرا ‘نکاح‘ طلاق وغیرہ کے یقینی طور پر نافذ ہونے کیلئے ماضی کا صیغہ استعمال ہوتا ہے ۔قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پرہے:''اللہ پرہیزگاروں کا دوست ہے‘ وہ صالحین کا دوست ہے‘ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے‘ اللہ مومنوں کا دوست ہے‘ عزت اللہ ‘اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے ‘‘۔
یہ بات درست ہے کہ صحابی کے نام کے ساتھ ''رضی اﷲ عنہ‘‘ لکھنا عرف بن گیا ہے ‘تاہم آپ کا لکھنا کہ ''اس پراہلسنت وجماعت کا اجماع ہوچکا ہے کہ یہ صحابۂ کرام کے ساتھ خاص ہے‘‘ یہ درست نہیں ہے‘ اﷲ تعالیٰ نے جب اپنے اس اعزازوانعام کو ''مُتَّبِعِیْن بِالْاِحْسَان‘‘ اور''مؤمنین صالحین‘‘ کے لیے بھی عام رکھاہے‘ تو بندے کی کیا مجال کہ نعمتِ باری تعالیٰ کی تخصیص و تحدید اپنی جانب سے کرے۔ ہاں !اس عرف پر عمل کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ نام کے ساتھ ''رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘‘ لکھنے سے قاری سمجھ لیتا ہے کہ یہ صحابی کا نام ہے ‘لیکن اللہ کے جن محبوب بندوں کا صحابی نہ ہونا قارئین یا سامعین پر واضح ہو‘ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھنے یا بولنے سے غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا امکان نہیں رہتا۔
امام احمد رضا قادری نے غوث الاعظم عبدالقادرجیلانی کے نام کے ساتھ کئی مقامات پر''رضی اﷲعنہ‘‘ لکھا ہے‘لہٰذا آپ کا یہ کہنا کہ انہوں نے غیر صحابی کیلئے کہیں بھی رضی اللہ عنہ کا کلمہ استعمال نہیں کیا‘ درست نہیں ہے‘ (ملاحظہ ہو فتاویٰ رضویہ ‘ جلد26‘ صفحات:569,597 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن‘ لاہور)‘صحیح مسلم کے شروع میں ہے: ترجمہ:''امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی مدد سے ہم آغاز کرتے ہیں اور اُسی کی مدد پر اکتفا کرتے ہیں اور ہمیں خیر کی ہر توفیق اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے نصیب ہوتی ہے‘( مسلم‘ ج:1ص :26‘ مطبوعہ کراچی)‘‘۔البتہ عالَمِ عرب کے جدید مکتبوں کی مطبوعات میں ''رحمہ اللہ تعالیٰ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ امام مسلم نہ صحابی تھے ‘ نہ تابعی‘ اسی طرح غوث الاعظم کا زمانہ بھی عہدِ صحابہ وتابعین کے بہت بعدہے۔نیز ہمارے عرف میں ''مرحوم‘‘ کا لفظ فوت شدہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے‘ یہ بھی کلمۂ دعا ہے اور اس کے معنی ہیں : ''ان پراللہ کی رحمت ہو‘‘۔
جامعۃ العلوم الاسلامیہ کراچی سے سوال ہوا: '' غیر صحابی کو رضی اللہ عنہ کہنا کس دلیل کے تحت جائز ہے ‘انہوں نے لکھا:رضی اللہ عنہ ایک دعائیہ کلمہ ہے ‘اس کے معنی ہیں :اللہ ان سے راضی ہوجائے۔ عرف کے اعتبار سے یہ کلمہ صحابہ کے لیے استعمال ہوتاہے‘ لیکن اپنے دعائیہ معنی کے اعتبار سے غیر صحابی کے لیے بھی استعمال
ہوسکتا ہے ‘بشرطیکہ التباس لازم نہ آتا ہو‘ قرآن کریم کی سورۃ الْبَیّنَہمیں نیکو کار مومنین کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہ ‘ آج کل عام لوگ اس کلمے کو صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں اور اس جملے سے ان کا ذہن صحابہ کی طرف جاتا ہے‘ اس لیے ان کے سامنے غیر صحابی کے لیے اس جملے کے استعمال سے گریز اچھا ہے‘‘۔
یہ درست ہے کہ ''صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم‘‘ پورا لکھنے کے بجائے تخفیف کے ساتھ صلعم‘ رضی اللہ عنہ کے بجائے ؓ اور رحمہ اللہ تعالیٰ کے بجائے ؒ لکھ دیا جاتا ہے ‘یہ شعار ہمارے اس خطے میں رائج ہوا ہے ‘ عالَمِ عرب میں ایسا نہیں ہے ‘ نہ یہ درست ہے‘ یہ دعائیہ کلمات ہیں ‘ پورے لکھنے چاہئیں۔