تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     01-12-2019

صادق گڑھ: جہاں تاریخ مر رہی ہے!

کیا سماں ہو گا جب صحرا کے وسط میں ایک سفید دودھیا محل آباد ہوا ہو گا۔ دور دور تک اس کے تذکرے ہوتے ہوں گے۔ جو اس کو ایک بار دیکھتا ہو گا اس کے حسن کا اسیر ہو جاتا ہو گا۔ یہ سفید محل بہاولپور کا صادق پیلس ہے‘ جسے صادق گڑھ بھی کہتے ہیں۔ جب یہ محل بنا ہو گا تو شہر کی گہماگہمی سے دور ایک پر سکون جگہ پر تعمیر ہوا ہو گا۔ محل 125 ایکڑ وسیع زمین پر پھیلا ہوا تھا۔ اس کی تعمیر 1882 میں شروع ہوئی اور 1895 میں تکمیل کو پہنچی۔ یوں اس کی تعمیر پر دس سال سے اوپر کا عرصہ لگا‘ جس میں 15000 مزدوروں نے حصہ لیا۔ محل کی طرزِ تعمیر میں اطالوی اور مغل رنگ نمایاں ہیں۔
ایک عرصے سے یہ دودھیا محل میرے خوابوں میں آتا تھا۔ مجھ سے پوچھتا تھا: مجھے دیکھنے نہیں آئو گے؟ ہر بار میں اسے ٹال دیتا تھا لیکن اس بار وہ میرے خواب میں آیا تو اس کے لہجے میں اداسی تھی۔ اس نے ہمیشہ کی طرح مجھ سے پوچھا: مجھے ملنے نہیں آئو گے؟ میں نے کہا: آج کل بہت مصروفیات ہیں‘ کام سمٹ جائیں تو ضرور آئوں گا۔ وہ بولا: ٹھیک ہے تم مصروف ہو‘ لیکن ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور تم آئو تو میں باقی نہ رہوں۔ میری آنکھ کھلی تو میری سانس تیزی سے چل رہی تھی۔ اس دن میں نے تہیہ کر لیا کہ مجھے اپنے خوابوں کے محل کو ضرور دیکھنا ہے۔
بہاولپور پہلے بھی گیا‘ لیکن صادق گڑھ کا دودھیا محل نہیں دیکھ سکا۔ اس بار میں نے سوچا‘ مصروفیتیں اپنی جگہ لیکن میں اپنے خوابوں کے دودھیا محل کو دیکھنے ضرور جائوں گا۔ بہاولپور ایک قدیم اور دلربا شہر ہے۔ یہ شہر بہترین پلاننگ کا شاہکار ہے۔ بہاولپور شہر سے کچھ فاصلے پر دودھیا محل ہے‘ جسے دنیا صادق پیلس کے نام سے جانتی ہے۔ میں نے ایک دوست سے ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ محل کے مین گیٹ پر تالا ہوتا ہے اور اسے دیکھنے کے لیے عباسی خاندان سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا۔ میں مین گیٹ سے اندر داخل ہوا تو میرے بالکل سامنے نگاہوں کی سیدھ میں وہ دودھیا محل کھڑا تھا جو میرے خوابوں میں اکثر آتا تھا۔ تین منزلہ پُرشکوہ عمارت جس کی چھت پر عین وسط میں ایک بڑا گنبد ہے اور اس کے اردگرد چھوٹے گنبد ہیں۔ میں گیٹ سے داخل ہوا تو دیکھا کہ بہت کشادہ راستے پر دو رویہ روشنیوں کے لیے پول لگے ہیں۔ کسی زمانے میں ان پر روشنیاں جگمگاتی ہوں گی اور مرکزی راستے کو منور کرتی ہوں گی۔ اب زنگ آلود کھمبے عبرت کی داستان سناتے ہیں۔ محل کے ابتدائی نقشے میں چاروں طرف باغات تھے۔ اس وقت یوں لگتا ہو گا جیسے چولستان کے بے آب و گیاہ صحرا میں اچانک ہرا بھرا نخلستان کھل اٹھا ہو۔ اب ان باغات کو کاٹ پیٹ دیا گیا ہے۔ مرکزی راستے سے آگے آئیں تو ایک بارہ دری آتی ہے اور پھر دودھیا پیلس جسے ہم صادق پیلس کے نام سے جانتے ہیں۔ محل میں داخل ہو کر میں تاریخ کے ایک سو سال طے کر گیا۔ میرے سامنے تخت پر ریاست بہاولپور کے حکمران نواب صادق متمکن ہیں۔ ان کے پیچھے ایک قدِ آدم آئینہ ہے۔ ہمارے گائیڈ نے بتایا کہ یہ آئینہ بیلجیم سے منگوایا گیا تھا۔ آئینہ سمندری راستے سے کراچی اور پھر بذریعہ سڑک انتہائی احتیاط سے محل تک پہنچایا گیا۔ اس مرکزی آئینے کے ارد گرد بہت بڑے لیکن مرکزی آئینے سے چھوٹے آئینے ہیں۔ میں نے آئینے میں جھانکا تو مجھے اپنی پشت پر بنی بارہ دری اور مرکزی راستہ دور دور تک دکھائی دیے۔ میں نے چھت پر نگاہ کی تو اس زمانے کے فن کاروں کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ طویل چھت پر انتہائی دیدہ زیب نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ چھت سے نیچے تین ڈوریاں لٹک رہی تھیں جن کے ساتھ تین قیمتی فانوس لگے ہوتے تھے‘ جنہیں فرانس سے درآمد کرایا گیا تھا۔ فانوسوں کی جگمگ روشنی چھت کے نقوش و نگار پر پڑتی ہو گی تو یوں لگتا ہو گا جیسے چھت پر خوش رنگ پھولوں کا چمن کھل اٹھتا ہے۔ لیکن اب چھت سے لٹکی ڈوریاں باقی تھیں‘ قیمتی فانوس بہت سی اور چیزوں کی طرح یہاں سے غائب کر دیے گئے تھے۔
محل کی تین منزلیں ہیں۔ خوب صورت سیڑھیاں جن پر چڑھنا انتہائی آسان ہے لیکن ان پر قدم رکھیں تو ان کی کہنگی کا احساس ہوتا ہے۔ محل کی تعمیر کی خاص بات اس میں روشنی اور ہوا کا اہتمام ہے۔ خوب صورت کھڑکیاں اور دروازے انتہائی قیمتی لکڑی ساگوان کے بنے ہیں۔ محل میں رہائش کے لیے 120 کمرے ہیں۔ اس کے علاوہ کانفرنس رومز، بال روم بھی ہیں۔ محل میں ایک لائبریری بھی تھی جہاں انگریزی، اردو، فارسی، اور عربی کی کتابیں ہوتی تھیں۔ لائبریری والی جگہ کھڑے ہو کر میں نے دیکھا کہ یہاں روشنی کا خاص اہتمام تھا۔ اب نہ وہاں کتابیں ہیں نہ کتابیں پڑھنے والے بس دیوار پر ایک سٹیکر لگا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہاں لائبریری ہوا کرتی تھی۔ میں نے مختلف کمروں میں جھانکتا ہوا محسوس کر رہا تھا کہ یہاں کے مکینوں کی آرٹ اور ادب سے خاص دلچسپی رہی ہو گی۔ کمروں میں نقش و نگار اور آرائش مختلف ممالک کے کلچر کے مطابق کی گئی تھی۔ ڈائننگ روم ایک مستطیل شکل کا لمبا کمرہ ہے‘ جس کے ساتھ متصل کچن کے دو کمرے ہیں۔ کچن میں اس زمانے کا اون (Oven) اب بھی باقی ہے۔
کمروں کے ساتھ متصل واش رومز بنائے گئے تھے جن کے فرش اور دیواروں پر خوبصورت ٹائلوں کے ڈیزائن تھے‘ انتہائی دیدہ زیب اور دلکش۔ ہر واش روم میں نہانے کیلئے سفید رنگ کے ٹب بنائے گئے تھے۔ دروازوں اور کھڑکیوں پر کسی زمانے میں دبیز پردے موجود ہوں گے‘ لیکن اب ان کی دھجیاں باقی ہیں۔ کہتے ہیں‘ تقریباً 150 سال تک غلافِ کعبہ بہاولپور کی ریاست سے تیار ہو کر جاتا تھا۔ جب کعبے پر نیا غلاف چڑھایا جاتا تو پرانے غلاف کے کچھ حصے ریاست کے پاس آ جاتے۔ محل میں ان غلافوں کے ٹکڑے دیکھے جا سکتے ہیں‘ جو مختلف مقامات پر آویزاں ہیں۔ میں چلتے چلتے ایک کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا‘ سامنے مسجد کی خوبصورت عمارت تھی جس کا ڈیزائن دہلی کی جامع مسجد کے ڈیزائن کی یاد دلاتا ہے۔ خوبصورت سنگ مرمر کے گنبد دور سے نظر آتے ہیں۔ ساتھ ہی ٹیلی فون ایکسچینج کی عمارت ہے۔ محل کے پاس اسلحہ سازی کی ایک چھوٹی سی فیکٹری بھی تھی۔ محل کے تہہ جانے میں ریاست بہاولپور کا اپنا بینک تھا۔ محل کی تین منزلوں پر اوپر نیچے جانے کیلئے سیڑھیوں کے علاوہ دو لفٹس بھی موجود تھیں۔ مستورات کے لیے محل میں علیحدہ حصہ تھا جو حرم کے نام سے جانا جاتا تھا۔
تہہ خانے کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر جب میں نے تہہ خانہ دیکھنے کی خواہش کی تو گائیڈ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ سر آپ نے نیچے نہیں جانا‘ وہاں اب سانپوں کا بسیرا ہے اور سانپوں کے ساتھ ایک شیش ناگ بھی رہتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اسے دیکھا ہے۔ میں اب محل کی سب سے اوپر والی منزل پر ہوں۔ وہاں سے دور تک نگاہ جاتی ہے۔ میری چشمِ تصور اس محل کو آباد دیکھ رہی ہے۔ ہر طرف زندگی کے رنگ ہیں۔ ملازم یہاں سے وہاں بھاگتے پھر رہے ہیں۔ مہمانوں کے استقبال کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ کیسے کیسے مہمان یہاں آئے ہوں گے۔ ہر اہم مہمان کے آمد پر یہاں گارڈ آف آنر ہوتا ہو گا۔ ریاستی فوج کے سپاہی دو رویہ کھڑے ہوتے ہوں گے‘ ہٹو بچو کا شور ہوتا ہو گا۔ اچانک میں زمانۂ حال میں آ جاتا ہوں‘ جہاں میرے چاروں طرف قبرستان کی سی خاموشی ہے۔ محل کی دیواروں کا رنگ اترتا جا رہا ہے‘ کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہیں، فرشوںکی ٹائلز لوگ نکال کر لے گئے ہیں۔ انتہائی قیمتی نوادرات چوری ہو گئے ہیں۔ محل کے اردگرد کی وسیع زمین پر پراپرٹی مافیا نے قبضہ کر لیا ہے۔ وراثت کی جنگ کی وجہ سے محل ایک عرصے سے بند ہے۔ ہر گزرنے والا دن اس کی شکستگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ اگر یہ محل کسی اور ملک میں ہوتا تو سیاحت کا مرکز ہوتا۔ دور دور سے اسے لوگ دیکھنے آتے۔ اس کی شان و شوکت پہ حیران ہوتے۔ اس محل سے جڑی تاریخ سے آگاہ ہوتے۔ لیکن ایک ہم ہیں جو اس نادرِ روزگار اور فن تعمیر کے شاہکار دودھیا محل کو اپنی آنکھوں کے سامنے گرتا دیکھ رہے ہیں۔ تاریخ کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا دیکھ رہے ہیں۔ مجھے شکستہ ٹیرس پر کھڑے ناصر کاظمی یاد آ جاتا ہے جس نے کہا تھا ''ہم سا بے درد کوئی کیا ہو گا‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved