تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     01-12-2019

انسان کہاں کھڑا ہے‘ ہمیں سوچنا پڑا!

کسی بھی صحافی کی طرح صبح کا آغاز اخبارات کی فائل پڑھنے سے کیا۔ بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ، وزیراعظم کی طرف سے اپوزیشن کو مافیا کے طعنے‘ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے نئے طریقہ کار کی تشکیل سمیت بڑی بڑی خبروں کے بوجھ تلے ایک خبر بھس کے ڈھیر میں چھپی چنگاری کی طرح دکھائی دی۔
خبر کاشانہ لاہور کی برطرف انچارج افشاں لطیف کا ایک انکشاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کاشانہ میں کم عمر بچیوں کی شادیاں نہ کروانا ان کا جرم بن گیا‘ ڈائریکٹر جنرل افشاں کرن امتیاز کی جانب سے ان بچیوں کی شادیاں کروانے کے لیے دبائو ڈالا جاتا ہے، جن کی عمر 16 سے 18 سال کے درمیان ہے۔ کم عمر بچیوں کی شادی کا مقصد کچھ اعلیٰ حکام اور صوبائی وزیر کو خوش کرنا تھا۔ افشاں لطیف کے مطابق ان کی شکایت پر سی ایم آئی ٹی نے 5 اگست کو اپنی انکوائری آغاز کیا اور انکوائری شروع کرتے ہی انہیں معطل کر دیا گیا۔ افشاں لطیف کا کہنا ہے کہ ان پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ شکایت واپس لیں لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں اور ادارے کو بند کر دیا گیا۔ انہیں ہٹانے کا مقصد شواہد کو غائب کرنا ہے۔ افشاں لطیف کے ویڈیو بیان کو انکشاف کہیں یا الزام، وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس کا نوٹس لیا اور ڈی جی افشاں کرن امتیاز کو عہدے سے ہٹا دیا۔
افشاں لطیف کا بیان معاشرے میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس سے پہلے بھی معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے الزامات پر شور مچتا رہا ہے۔ ہر واقعہ کے بعد حکومتیں پورے زوروشور سے قاتل کی گرفتاری اور اسے انجام تک پہنچانے کی بات کرتی ہیں۔ کئی درندے اپنے انجام کو پہنچے بھی‘ لیکن کبھی کسی نے غور کیا کہ ایسے واقعات پے در پے کیوں رونما ہوتے ہیں؟ ہماری بچیاں کیوں غیر محفوظ ہو گئی ہیں؟ جس واقعہ پر مقامی آبادی احتجاج اور مظاہرے کرتی ہے‘ اس پر نوٹس لیا جاتا ہے، دباؤ برقرار رہے تو ملزم پکڑ لیا جاتا ہے، اگر مقامی آبادی یقین دہانیوں پر چپ ہو جائے تو فائل ردی کے ڈھیر میں کہیں گم ہو جاتی ہے۔
بچوں کی فحش ویڈیوز کا ایک سکینڈل بھی سامنے آیا تھا۔ اس سکینڈل کا کیا بنا؟ بااثر افراد کے ملوث ہونے کی کہانیاں میڈیا میں بیان ہوتی رہیں، وہ بااثر کون تھے؟ معاشرہ کس تیزی سے پستی کی جانب گامزن ہے، سماجی اور مذہبی رہنما تو اس پر بہت کچھ کہتے رہتے ہیں لیکن جن کے ہاتھ میں اقتدار اور اختیار ہے وہ کیا کر رہے ہیں؟ 
معاشرے میں یہ پستی فحش فلموں کے سیلاب کی وجہ سے آئی ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد انٹرنیٹ کو مثبت کی بجائے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مخرب اخلاق سائٹس پر وقت گزارتے ہیں۔ یہ فلمیں انسانی فطرت اور مزاج پر کیا اثر چھوڑتی ہیں‘ کبھی کسی نے سوچا؟ کوئی بھی معاشرہ خامیوں اور برائیوں سے پاک نہیں ہوتا لیکن جب وہ معاشرہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتا ہے تو تباہی کے راستے پر ناقابل واپسی سفر شروع ہو جاتا ہے۔ فحش فلموں کی بیماری یورپ میں بھی ہے لیکن وہاں کے سائنسدان اور ماہرین سماجیات اس پر مسلسل تحقیق کر رہے ہیں اور آگہی کی ایک مہم بھی چل رہی ہے۔ یورپی ماہرین کی تحقیق میں خوفناک انکشافات ہوئے، جن کی روشنی میں ہمیں اپنے معاشرے میں ہونے والی خرابیوں کی وجوہ تلاش کرنے‘ اثرات کو جاننے اور ان کے تدارک میں مدد مل سکتی ہے۔
ہمارے ہاں قحط الرجال کی اصطلاح عام ہے۔ ہم اکثر کہتے ہیں‘ ہمارے ہاں اب کوئی بڑا آدمی کیوں پیدا نہیں ہوتا؟ ہماری تعلیم اور تحقیق کا معیار کیوں پست ہے؟ اس کی وجہ سادہ سی ہے۔ ہمارا نوجوان بے راہروی کا شکار ہو رہا ہے۔ فحش ویب سائٹوں پر وقت گزارنے میں ہمارے نوجوان دنیا بھر سے آگے ہیں۔ فحش فلموں کا عادی انسان کند ذہن اور بچگانہ فہم کا مالک بن جاتا ہے۔ اس کی تصدیق یورپی سائنس دانوں نے اپنی تحقیق میں کی ہے۔
دماغی سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والی کینیڈین محقق راکیل اینی بارر نے ایک تحقیق کی، جس کے نتائج ایک اکیڈمک جرنل دی کنورزیشن میں شائع ہوئے۔ اس تحقیق کے مطابق غیر اخلاقی مواد دیکھنے کو عادت بنا لینے والے افراد کے دماغی حصے پری فرنٹل کورٹیکس کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جو قوت ارادی، جسمانی حرکات اور اخلاقیات کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ دماغی حصہ انتہائی اہم ہوتا ہے اور ہر فرد میں اس کی نشوونما بلوغت میں جا کر مکمل ہوتی ہے‘ مگر اس کو نقصان پہنچنے پر لوگوں کو اپنے جذبات اور اضطراب پر کنٹرول نہیں رہتا اور قوت فیصلہ بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق فحش مواد ممکنہ طور پر دماغی تنزلی کا باعث بن کر زیادہ بچگانہ سوچ یا یوں کہہ لیں کند ذہن بنانے کا باعث بن سکتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ایسا مواد دیکھنا اب اتنا زیادہ بڑھ چکا ہے کہ گزشتہ سال اس حوالے سے سب سے بڑی ویب سائٹ پر ان فحش ویڈیوز کو دیکھنے والوں کا مجموعی ٹریک 33 ارب 50 کروڑ رہا۔ محقق نے خبردار کیا کہ یہ مواد ذہنی طور پر اس قدر طاقتور اثرات مرتب کرتا ہے کہ اس سے انسانی رویے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس مواد کا اثر ایسا ہی ہے جیسے منشیات کا استعمال، یعنی جب کوئی فرد کوئی نشہ کرتا ہے تو اس کے دماغ میں ڈوپامائن نامی ہارمون کی مقدار بڑھتی ہے جو خوشی کا احساس دلاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ غیراخلاقی مواد دیکھنے کو عادت بنانے سے بھی ہوتا ہے‘ مگر جو نیورو ٹرانسمیٹر جوش کو کنٹرول کرتے ہیں وہی یادوں کو بھی سنبھالتے ہیں، تو ان نیورو ٹرانسمیٹرز کو زیادہ متحرک کرنا قدرتی ردعمل اور عادات کو ختم کرتا ہے اور جسم کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی ضروریات سے مطمئن کیسے ہو۔
منشیات کے عادی افراد میں کھانے کی خواہش ختم ہو جاتی ہے اور وہ زیادہ نشہ کرنے لگتے ہیں جبکہ فحش مواد دیکھنے والے اسے زیادہ دیکھنے لگتے ہیں اور بتدریج ایک مرحلے میں جسمانی طور پر نااہل ہونے لگتے ہیں۔ مگر یہاں پر ہی اختتام نہیں ہوتا۔ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ ڈوپامائن کی ترسیل میں تبدیلیوں سے ڈپریشن اور ذہنی بے چینی جیسے امراض بڑھتے ہیں اور غیراخلاقی مواد دیکھنے والے اکثر مایوسی کی علامات، زندگی سے ناخوش ہونے اور ناقص ذہنی صحت کی شکایت کرتے ہیں۔
ڈپریشن، ذہنی پسماندگی کے ساتھ اس کا سب سے بڑا اثر نجی زندگیوں پر پڑ رہا ہے۔ گھروں میں ناچاقی، مار پیٹ، طلاق کی بڑھتی شرح سمیت بہت سے خانگی مسائل بھی اسی سے جڑے ہیں۔ اس کی تصدیق بی بی سی ریڈیو فائیو کی ایک تحقیق میں ہوئی۔ برطانیہ میں 40 برس سے کم عمر کی ایک تہائی سے زیادہ خواتین کو اپنے شوہر یا پارٹنر کی طرف قربت کے لمحات میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سینٹر فار ویمن جسٹس کے مطابق یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ خواتین پر اس حوالے سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ایسے متشدد رویے وسیع پیمانے پر دستیاب فحش مواد کی وجہ سے پروان چڑھ رہے ہیں۔
ایک فزیوتھراپسٹ نے، جو رشتوں کے متعلق امور کی مہارت حاصل کر رہے ہیں، برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ہر روز ان کے سامنے ایسے کیسز آتے ہیں۔ یہ ایک خاموش وبا ہے۔ برطانوی محکمہ صحت این ایچ ایس جنس کے نشے کو کوئی مخصوص بیماری نہیں سمجھتا، لیکن ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں سینکڑوں افراد اس نشے کا شکار ہیں، جن کی اکثریت مردوں پر مشتمل ہے؛ تاہم عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں جبری جنسی رویے کو بیماریوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔پاکستان میں اس حوالے سے تحقیق کا کوئی رجحان نہیں لیکن عمومی گھریلو تشدد پر جو رپورٹس سامنے آتی ہیں وہ بھی چشم کشا ہیں۔ گھریلو تشدد کے بارے میں بعض تنظیموں کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہر دوسری خاتون اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی گھریلو تشدد کا شکار رہی ہے۔ آغا خان فاؤنڈیشن کی ایک تحقیق کے مطابق اس تشدد کی وجہ سے بیشتر خواتین جسمانی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔
افشاں لطیف کے انکشافات کی حقیقت شفاف اور منصفانہ انکوائری میں سامنے آ سکتی ہے؛ تاہم تعجب ہے ایک کے بعد ایک سکینڈل سامنے آتا ہے لیکن ہمارے اجتماعی ضمیر کو جگانے میں ناکام رہتا ہے اور پستی کی طرف جاری سفر ہے کہ تھمتا ہی نہیں۔ بقول شاعر
انسان کی بلندی و پستی کو دیکھ کر
انسان کہاں کھڑا ہے ہمیں سوچنا پڑا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved