حکومت گرانے کیلئے تحریک چلائیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت گرانے کیلئے تحریک چلائیں گے‘‘ اور اگر اس سے بھی مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوئے تو آخری پلان بروئے کار لائیں گے اور وہ ہوگا؛ حکومت کو بد دُعائیں دینے کا سلسلہ؛ اگرچہ اب تک میری کوئی دعا تو کامیاب نہیں ہوئی ‘لیکن میری بددُعا ہمیشہ ٹھیک نشانے پر بیٹھتی ہے‘ مثلاً: اگلے روز میں بد دُعا تو عمران خان کو دینے لگا تھا کہ مارچ کے شورو غل کی وجہ سے ان کی بجائے میرے منہ سے مولانا کفایت اللہ کا نام نکل گیا اور بیچارے بازو وغیرہ تڑوا بیٹھے ۔مولانا سے تو میں نے معذرت کر لی ہے‘ تاہم اپنی بددعا پر میرا ایمان مزید پختہ ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں اپوزیشن کے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کر رہے تھے۔
ہواؤں کا رُخ پھر ہماری طرف ہے: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ '' ہواؤں کا رخ پھر ہماری طرف ہے‘‘ حالانکہ شریف برادران کا گلا گھونٹنے کے بعد انہیں یہ سلسلہ ختم کر دینا چاہیے تھا کہ دونوں اپنی اولادوں کی طرح لندن ہی کے ہو رہے ہیں اور یہاں ان کی جائیدادوں اور اثاثوں کی ضبطی کے بعد اُس کا پیٹ بھر جانا چاہیے‘ جبکہ مریم نواز نے موجودہ اور آنے والے مقدمات میں ویسے ہی دس بیس سال کیلئے اندر ہو جانا ہے اور دیگر معززین بھی اسی انجام سے دوچار ہونے والے ہیں‘ اس لئے بجائے اس کے کہ انتقام لینے والوں کو صبر آ جاتا‘ اُلٹا اُس نے ہواؤں کی بجائے ہمارے خلاف آندھی اور جھکڑ وغیرہ چلانا شروع کر دیئے اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ شدید سردی کا موسم ہے اور یخ زدہ ہوائیں تو فوراً نمونیا میں مبتلا کر دیتی ہیں اور پسماندگان کو بھی برائے علاج لندن جانا پڑے گا‘ کیونکہ ہمارے معززین کی کسی بیماری کا علاج مقامی ہسپتالوں میں نہیں اور ان ہواؤں کا رُخ پیپلز پارٹی ہی کی طرف رہے تو بہتر ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
جلد ہر شعبے میں بہتری نظر آنا شروع ہو جائے گی: اسد عمر
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ''جلد ہر شعبے میں بہتری نظر آنا شروع ہو جائے گی‘‘ جس کی ابتدا میرے دوبارہ وزیر بننے سے ہو چکی ہے اور جو سب کو صاف نظر بھی آ رہی ہے‘ تاہم مجھے شبہ ہے کہ آنے والی بہتری عوام کو شاید مشکل ہی سے نظر آئے ‘کیونکہ کم و بیش جملہ عوام آشوبِ چشم میں مبتلا ہیں اور بینائی سے تقریباً محروم ہیں‘ تاہم اس کا علاج یہ ہے کہ جوں جوں بہتری آئے گی‘ ہم ساتھ ساتھ انہیں بتاتے رہیں گے؛ اگرچہ کچھ عرصے سے وہ ہماری باتوں پر اعتبار کم ہی کرنے لگے ہیں اور یہ اُن کی ایک اور بیماری ہے‘ نیز ان کی بیماریوں کا علاج ‘چونکہ زیادہ ضروری ہے ‘ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ صحت مند عوام ہی قومی ترقی کیلئے لازمی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیاکے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
توبہ- دروازہ ہر لمحہ کھلا ہے
یہ علامہ عبدالستار عاصم کی تصنیف ہے‘ جسے القلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور نے شائع کیا ہے۔ اس مبارک نسخے کا انتساب ڈاکٹر محمد امجد ثاقب بانی ا خوت‘ جناب ڈاکٹر محمد رمضان چودھری فاؤنڈر لائبریریز‘ جناب اعزاز اشرف کے نام ہے۔ توبہ کے حوالے سے ایک فارسی شاعر کی یہ رباعی دیکھیے۔؎
باز آ‘ باز آ‘ ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بُت پرستی‘ باز آ
ایں درگہ ما درگہ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی‘ باز آ
ترجمہ: باز آ جا‘ باز آ جا تو جو بھی ہے‘ باز آ جا۔ اگر تو کافر‘ ملحد اور بُت پرست ہے‘ باز آ جا‘ ہماری یہ درگاہ ناامیدی کی درگاہ نہیں‘ اگر سو بار بھی توبہ توڑ چکا ہے‘ باز آ جا۔
یہ فرمان‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ‘جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں توبہ کا دروازہ ہر دم کھلا ہے۔ اس کے غفور الرحیم ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔( اللہ اکبر)۔
پیش لفظ مصنف کا قلمی ہے ‘جو زائد از چار صفحات پر مشتمل ہے اور جس کی اختتامی سطور یہ ہیں:جو شخص اللہ عزوجل اور آنحضرت ؐ پر ایمان رکھتا ہو اور وہ خواہشاتِ نفسانی اور بدی اور شر میں مبتلا ہو جانے کے بعد خیر و نیکی اور راہِ راست پر واپس آنا چاہے اور نیک نیتی اور پورے خلوص کے ساتھ اللہ جل شانہٗ کی رضامندی حاصل کرنے اور اطاعت و فرماں برداری کار استہ اختیار کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہو‘ تو اس پر لازم ہے کہ اللہ کی اس کریمانہ پیشکش اور مہلت کا پورا فائدہ اٹھائے اور نئی پاکیزہ زندگی کی ابتدا''توبہ‘‘ سے کرے‘ چونکہ حصول نجات اور استقامت ِ ایمان کا یہی پہلا قدم ہے۔
اس کا پہلا مضمون توبہ کے ثمرات اور تقاضے کے عنوان سے ہے۔ اس کے بعد توبہ کا مطلب‘ توبہ کی تشریح توبہ کی شرائط اور دیگر تفصیلات ہیں۔ اس کے علاوہ توبہ کی روایات و حکایات اور دیگر نہایت مفید سلسلوں سے یہ کتاب مزّین ہے۔
ریکارڈ کی درستی
بھائی صاحب نے اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے ؎
جن سے مل کر عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہ ہوں گے‘ ہاں مگر ایسے بھی ہیں
اس کا دوسرا مصرعہ پہلے سے کچھ زیادہ ہی طول کھینچ گیا ہے۔ لگتا ہے کہ پہلے مصرعہ میں ایک دو لفظ شامل ہونے سے رہ گئے ہیں۔ میں صرف اس کی یہ کمی پوری کر رہا ہوں‘ اصل مصرعہ معلوم نہیں کیا ہے ۔ع
جن سے مل کر لا محالہ عشق ہو جائے وہ لوگ
آج کا مطلع
اجنبی میں ہی نہیں‘ گھر بھی کسی اور کا ہے
اور‘ یہ پوریا بستر بھی کسی اور کا ہے