تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-12-2019

سٹیو جابز کی دانش

ہمیں دنیا میں بہت کچھ سیکھنا ہے اور یہ کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ جو کچھ سیکھنا ہے ‘وہ دوسروں سے سیکھنا ہے۔ بہت کچھ سیکھنے کے بعد ہی ہم اس قابل ہو پاتے ہیں کہ کوئی ہم سے کچھ سیکھے۔ 
سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اگر ہنرمند ہونا ہے ‘تو دنیا میں ہزاروں ہنر ہیں‘ جو سیکھے جانے کے لیے بے تاب ہیں۔ اور اگر دانش درکار ہے تو دنیا بھر میں لاکھوں‘ کروڑوں سوچنے والے ہیں‘ جن کی صلاحیت سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔ 
اگر کچھ سیکھنا ہی ہے ‘تو اُن سے سیکھئے جو اپنے اپنے شعبوں میں بے مثال اور قابلِ رشک کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں ایسا بہت کچھ بیان کرتے ہیں ‘جس سے تحریک پاکر کوئی بھی اپنی زندگی کو زیادہ بامقصد اور بامعنی بناسکتا ہے۔ ہر کامیاب انسان کے پاس بیان کرنے کے لیے خاصی شاندار اور جاندار کہانی ہوتی ہے۔ اس کہانی میں وہ سب کچھ ہوتا ہے ‘جو انسان کو کچھ کرنے کی تحریک دینے کے لیے درکار ہوا کرتا ہے۔ 
موبائل ڈیوائس اور ایپلی کیشنز بنانے والی عالمگیر شہرت یافتہ کمپنی ایپل کے بانی سٹیو جابز نے بہت چھوٹی عمر میں غیر معمولی کامیابی حاصل کرکے پوری دنیا کی توجہ پائی۔ انہوں نے اپنی صلاحیت و سکت کو بااحسن و خوبی بروئے کار لاکر ایک دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالا۔ اُن کی زندگی میں ایسا بہت کچھ تھا‘ جو دوسروں کو بہتر زندگی کی تحریک دینے کے لیے کافی ہے۔ 
سٹیو جابز کا انتقال خاصی چھوٹی عمر میں سرطانب سے ہوا۔ 24 فروری 1955ء میں پیدا ہونے والے سٹیو جابز نے 5 اکتوبر 2011ء کو یہ دنیا چھوڑ دی۔ سٹیو جابز کو بھی اندازہ تھا کہ وہ زیادہ جی نہیں سکیں گے ‘اس لیے انہوں نے اپنے وقت کو عمدگی سے بروئے کار لانے کی بھرپور کوشش کی اور کامیاب رہے۔ وہ لوگوں کو اس بات کی تحریک دیتے تھے کہ وقت کو احسن طریقے سے بروئے لاکر ثابت کیا جائے کہ آپ کو زندگی سے واقعی پیار ہے۔ زندگی سے پیار کی بہترین صورت یہ ہے کہ اسے‘ یعنی وقت کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ 
سٹیو جابز نے بہت سی ایسی باتیں کہیں جنہیں آپ دانش کے موتی قرار دے سکتے ہیں۔ اُنہوں نے جو کچھ بھی کہا اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں کہا‘ اس لیے آپ اُن کی باتوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ آئیے اس امر کا جائزہ لیں کہ سٹیو جابز نے مختلف مواقع پر کیا کہا‘ ہمیں کیا سمجھانے اور سکھانے کی کوشش کی۔ 
ہم میں سے کون ہے‘ جو وقت کے بارے میں نہیں جانتا کہ وہ محدود ہے؟ سبھی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمیں بخشا جانے والا وقت محدود ہے۔ جو چیز انسان کے پاس کم یا محدود ہو‘ اُسے بہترین طریقے سے بروئے کار لانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ سٹیو جابز کا کہنا تھا کہ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے۔ اسے دوسروں کی زندگی سے پیار کرنے میں ضائع مت کیجیے۔ 
جی ہاں‘ ہمارے وقت اور صلاحیت پر سب سے زیادہ ‘بلکہ پہلا حق ہماری اپنی زندگی کا ہے۔ جو لوگ اپنے وجود کو نظر انداز کرکے دوسروں میں غیر ضروری طور پر غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں‘ اُن کے لیے پریشانی لکھ دی جاتی ہے۔ دنیا اُن کی قدر کرتی ہے جو اپنی قدر کرتے ہیں۔ جب کوئی اپنے وجود پر بھرپور توجہ دیتا ہے تب شخصیت کی تمکنت قابلِ دید اور قابلِ داد ہوتی ہے۔ 
ہمارے معمولات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ دوسروں کی رائے کے مطابق‘ اپنے آپ کو تبدیل کریں۔ ہمارے لیے سب سے اہم ہماری اپنی رائے ہے‘ مگر ہم دوسروں کی آراء سے متاثر ہوتے رہتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں شخصیت کا ارتقاء رک جاتا ہے۔ سٹیو جابز کے نزدیک یہ بات حماقت کے درجے میں تھی کہ ہم اپنی رائے کو ایک طرف ہٹاکر دوسروں کی آراء کے دائرے میں گھومتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ اُن کا کہنا تھا کہ دوسروں کی سوچ کے نتائج سے جان چھڑائیے‘ کسی کے خیالات کو اپنے تعاقب میں رہنے کا موقع مت دیجیے۔ 
دوسروں سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا چاہیے‘ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنے وجود کو نظر انداز کرکے دوسروں کو اہمیت دیتے رہیں۔ ہماری مشکلات دراصل کیا ہیں یہ بات ہم سے زیادہ کون جانتا ہے؟ ایسے میں لازم ہے کہ ہم مختلف حوالے سے ٹھوس رائے رکھیں اور اُسی کے مطابق مائل بہ عمل بھی ہوں۔ 
دیکھا گیا ہے کہ لوگ دوسروں کی باتوں پر اس قدر توجہ دیتے ہیں کہ خود کچھ کہنے میں زیادہ دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ سٹیو جابز کے نزدیک یہ بات انتہائی ناقابلِ برداشت ہے کہ دوسروں کو سُننے کے شوق میں اپنی بات کہی یا سُنی ہی نہ جائے۔ سٹیو جابز کا کہنا تھا کہ دوسروں کی آوازوں‘ بلکہ شور میں اس قدر غلطاں مت رہیے کہ آپ کو اپنے دل کی آواز سنائی ہی نہ دے۔ 
انسان زندگی بھر بہت کچھ سُنتا اور سوچتا رہتا ہے۔ دوسروں کی آراء صرف اس لیے ہوتی ہیں کہ اُن کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رائے قائم کی جائے‘ اپنے اندر سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت کو پروان چڑھایا جائے۔ اوروں کو بھی سُنیے‘ مگر پہلے اپنے دل کی بات سُنیے اور اپنے وجدان کی سُجھائی ہوئی راہ پر گامزن ہونے کی ہمت اپنے اندر پیدا کیجیے۔ ہر وہ انسان کامیاب رہا ہے ‘جس نے اپنے دل کی بات سُنی ہے اور اپنے وجدان کی سُجھائی ہوئی راہ پر پورے خلوص کے ساتھ گامزن ہونے کی کوشش کی ہے۔ 
جو کچھ دکھائی دیتا ہے‘ وہ دل کش ہو تو بہت اچھی بات ہے‘ مگر ساتھ ہی ساتھ کام کا بھی تو ہونا چاہیے۔ کوئی شخص کیسا ہی خوبصورت سہی‘ خوب سیرت نہ ہو تو کسی کام کا نہیں۔ یہی معاملہ اشیاء کا بھی ہے۔ ڈیزائن کی بہت اہمیت ہے۔ ہمیں نئے ڈیزائن اچھے لگتے ہیں۔ سٹیو جابز کی زندگی ڈیزائنز کو بہتر بناتے گزری۔ اُن کا کہنا تھا کہ ڈیزائن کا تعلق اس بات سے نہیں ہوتا کہ چیز کیسی دکھائی دیتی یا کیسی محسوس ہوتی ہے‘ بلکہ اس کا تعلق اصلاً اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں متعلقہ چیز کی کارکردگی کا گراف کس حد تک بلند ہوگا۔ تعلقات کے معاملے میں بھی ہمیں یہی اصول ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ کسی بھی شخص سے گہرا تعلق اُسی وقت استوار کیجیے‘ جب وہ کسی نہ کسی حوالے سے افادیت کا حامل ہو۔ لازم نہیں کہ ہم کسی سے تعلق اُس کی مالی حیثیت دیکھتے ہوئے استوار کریں اور مشکل لمحات میں اُس سے مدد کی توقع رکھیں۔ کسی علمی شخصیت سے تعلق کی بنیاد علم پر ہوتی ہے‘ مالی حیثیت پر نہیں۔ بہت سوں سے ہم محض اس لیے تعلقات استوار رکھتے ہیں کہ غیر معمولی حد تک مہذب اور شائستہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی صحبت ہمارے وجود کی بھی تہذیب و تطہیر کرتی ہے۔ 
سٹیو جابز نے عملی زندگی قائدانہ حیثیت میں بسر کی۔ فکر و عمل میں قائدانہ انداز ہی نے اُنہیں غیر معمولی کامیابی بخشی۔ مگر قائدانہ انداز کیا ہوتا ہے؟ سٹیو جابز کا کہنا تھا کہ کسی بھی قائد اور اُس کے پیچھے چلنے والوں میں بنیادی فرق نُدرت کا ہوتا ہے۔ جو کچھ نیا سوچتے ہیں اور اُس کے مطابق ‘اپنے اعمال میں تبدیلی لاتے ہیں ‘وہی قیادت کے اہل ہوتے ہیں۔ 
سٹیو جابز جیسی ہستیاں ہمارے لیے پیشہ ورانہ اور عملی سطح پر مشعلِ راہ ہوتی ہیں۔ اُن سے ہم روحانی سطح پر تو کچھ زیادہ حاصل نہیں کر پاتے‘ مگر ہاں‘ زندگی کو بھرپور مادّی آسودگی کے ساتھ بسر کرنے کے حوالے سے ہم اُن سے بہت ایسی بہت سی باتیں سیکھ سکتے ہیں ‘جو مذہبی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved