عظمت، ہیبت، سطوت، شکوہ۔ کون سا لفظ یا کون سے الفاظ ہونے چاہئیں جو آیا صوفیہ کے حسب حال ہوں یا جو اسے بیان کر سکیں۔ کیا کہیں گے ایک ایسی شاندار عمارت کو جس نے تاریخ دیکھی بھی ہو اور تاریخ بنائی بھی ہو۔ تاریخ بھی لگ بھگ ڈیڑھ ہزار سال کی۔ ہم مغل بادشاہوں یا سلاطین دہلی کی تاریخی عمارات کے جاہ و جلال کی بات کرتے ہیں لیکن عمر کے اعتبار سے تو یہ آیا صوفیہ کے سامنے بچے ہیں۔
لکھنے میں ''ہیگیا صوفیہ‘‘ پڑھنے میں آیا صوفیہ۔ یونانی زبان میں مطلب ہے مقدس دانش۔ ''یونانی آرتھوڈاکس کرسچین پیٹری آرکل کیتھیڈرل‘‘ عیسائیوں کا وہ فرقہ ہے جو بعد میں قریب قریب نابود ہو گیا۔ کچھ عرصے رومن کیتھولک کلیسا بھی رہا اور اس قبضے پر جو خون بہایا گیا وہ بھی تاریخ میں درج ہے‘ لیکن یونانی کلیسا کی شناخت جلد لوٹ آئی۔ وہ کلیسا جو ایک زمانے تک بازنطینی سلطنت کا مرکز و محور رہا اور بے شمار تاریخی واقعات کا شاہد۔
تصور کیجیے کہ 537 عیسوی میں یہ عمارت بنائی گئی یعنی طلوع اسلام سے بھی پون صدی پہلے۔ اس زمانے میںکسریٰ اور قیصر کے محلات اپنی جگہ پُرشکوہ رہے ہوں گے لیکن آج بس ان کے کچھ ستون، کچھ چوبارے اور کچھ فصیلیں ان کا پتہ دیتی ہیں لیکن آیا صوفیہ اسی طرح موجود ہے‘ اپنے غیر معمولی بڑے گنبد اور بڑے ہال کے ساتھ۔ ان ڈیڑھ ہزار برسوں میں کئی بار مرمت، تعمیر سے گزرنے کے باوجود بنیادی ڈھانچہ وہی ہے۔ وہی ہیبت، وہی عظمت، وہی شانِ دل آرائی۔
یہاں ہم اس عمارت کے سامنے کھڑے تھے جس کی کوئی اور نظیر ملنا مشکل ہے۔ عمارت میں داخل ہوئے تو چاردیواری اور اصل عمارت کے درمیانی احاطے میں عمارت کی پرانی اور متروکہ تعمیرات کے ستون، کتبے، قبریں اور دیگر آثار ہر حصے میں بکھرے پڑے تھے۔ متروکہ زبانوں میں وہ تحریریں لکھی ہوئی ہیں جو کسی زمانے میں محنت سے کھودی اور شوق سے پڑھ گئی ہوں گی اور اب ان کا حرف شناس بھی کوئی نہیں۔ صدیوں تک نسل در نسل آنے والے وہ تمام امرا، سارے سردار، سب کج کلاہ جن کی ایڑیوں کی دھمک سے دھرتی ہلتی تھی، یہاں اکٹھے موجود ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ ناموجود ہیں۔ عارضی موجودگی ہوتی ہی دراصل دائمی ناموجودگی کے لیے ہے۔
ایرانی ساتھی (جن کے نام اب ذہن سے اتر چکے) آیا صوفیہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ بے شمار سیاحوں کی طرح انہیں چند مقامات بتا دئیے گئے تھے کہ یہ ضرور دیکھنے ہیں۔ لیکن اس کی کیا اہمیت ہے، یہ علم نہیں تھا۔ ویسے بھی ہنی مون پر نکلے جوڑے کو آیا صوفیہ سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ میں نے انہیں مختصراً عمارت کے بارے میں بتایا‘ لیکن مجھے اندازہ ہوا کہ کشت و خون اور جنگ و جدل کی اس تفصیل سے ان کے ہنی مون کے موڈ پر ناخوشگوار اثر پڑ رہا ہے‘ تو میں نے بات اس ستون کی طرف موڑ دی جسے خواہش کا ستون کہا جاتا ہے۔ اپنے شریک سفر کا بازو تھامے لڑکی کی آنکھوں میں ایک جھلملاتی چمک سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ بات اس کے دل کو لگ گئی ہے۔ ویسے بھی وہ اس قدیم عبرت کدے سے ڈرے ہوئے لگتے تھے‘ سو ہم نے احاطے کو خیرباد کہا اور اصل عمارت کے اندر قدم رکھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ آیا صوفیہ میں داخلے کا ایک ہی دروازہ ہے اور وہ دروازہ بھی بہت بڑا نہیں؛ چنانچہ لوگوں کی مسلسل آمدورفت لگی رہتی ہے۔ کون سا ملک ہوگا جس کے سیاح یہاں ہر وقت موجود نہیں ہوتے۔ ہال میں داخل ہونے سے پہلے ہی اندر کے منظر کا رعب دل پر چھانے لگتا ہے۔ بہت بڑا ہال جس میں داخلی دروازے سے سامنے کی دیوار تک کی وسعت حیران کرتی ہے۔ بہت اونچا مرکزی گنبد جس کی بلندی کے سامنے فرش پر چلتے پھرتے لوگ بونے نظر آتے ہیں۔ چھت کی نصف سے زیادہ اونچائی پر دائیں بائیں محراب دار گیلریاں۔ بڑے بڑے اور چوڑے ستون۔ ہال کا اندر کا حصہ زیادہ تر زرد اور پیلے رنگ سے مزین۔ گنبد سے کچھ نیچے چاروں طرف خلفائے راشدین کے نام اعلیٰ عربی خطاطی میں خط ثلث میں لکھے ہوئے۔ دیوار پر منقش شبیہیں جو اصل عیسائی عقائد کی مظہر تھیں۔
میں نے چشم تصور سے یونانی کلیسا کو رومن کیتھولک کے قبضے میں جاتا اور اس فرقے کے لوگوں کا گلی کوچوں میں خون بہتے دیکھا۔ مسلمانوں کے خلاف جسٹنین کی بہادری اور ان تھک دفاع کا منظر دیکھا۔ ہیبت ناک توپوں کی گولہ باری سے پتھروں کے پرخچے اڑتے دیکھے۔ مدافعین کو تھیوڈوسین فصیل اور آگے دہری تہری فصیلوں کے شگاف بھرتے، سینٹ رومانس گیٹ کو مسمار ہوتے، ترکوں کو درانہ اندر گھستے، شہر کے لوگوں کو پھر تہ تیغ ہوتے دیکھا۔ صدیوں سے یہ معرکے آج تک جاری ہیں۔ ہے کوئی دور جو ان سے خالی ہو؟
ترکوں نے اس آخری معرکے کی بہت تیاری کی تھی۔ وہ ایک بار پھر ناکامی کا زخم دل پر نہیں لینا چاہتے تھے۔ بازنطینیوں کے نسل در نسل تکبر، بد عہدی اور بار بار وعدہ خلافی نے انہیں ڈس رکھا تھا۔ سقوط قسطنطنیہ پر بہت کتابیں بھی لکھی گئیں اور بہت فلمیں بھی بنیں۔ سقوط کے مختلف اسباب عیسائی مؤرخین بتاتے ہیں لیکن وہ بالعموم کوئی کریڈٹ ترکوں کو دینا نہیں چاہتے۔ ظاہر ہے شکست کے اسباب کچھ نہ کچھ تو ہوتے ہی ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ بازنطینی آخری معرکے میں بڑی بہادری سے لڑے تھے لیکن ترکوں کی غیر معمولی شجاعت کے سامنے ان کی بہادری اس دن کام نہ آئی۔ پھر سلطان محمد کی غیرمعمولی جنگی حکمت عملی کے سامنے وہ ذہنی طور پر شکست کھا چکے تھے۔ کبھی ان کے خواب میں بھی یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ باسفورس کی طرف سے بحری جہاز پہاڑی پر چڑھا کر دوسری طرف شاخِ زریں میں اتار دئیے جائیں گے اور فصیل کی یہ سمت بھی مکمل غیر محفوظ ہو جائے گی۔
مسلمانوں نے 1453 میں صدیوں کی بے شمار بدعہدیوں اور معاہدوں کی خلاف ورزیوں کے بعد بازنطینی سلطنت کی طرف سے صلح کے پیغامات مسترد کر دئیے تھے اور لڑ کر بے شمار شہادتوں کے بعد قسطنطنیہ فتح کیا تھا۔ اس سے 217 سال پہلے قرطبہ، سپین میں جامع مسجد قرطبہ اور دیگر مساجد صلح اور سپر اندازی کے معاہدوں اور عبادت گاہوں کے احترام کے وعدوںکے برخلاف زبردستی کلیساؤں میں بدل دی گئی تھیں۔ یہ زخم مسلمانوں کے دل سے کبھی گیا نہیں؛ چنانچہ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اسے مسجد میں بدلنے کا اعلان کیا اور جمعہ کی نماز آیا صوفیہ میں ادا کی لیکن مسیحی شبیہیں کھرچوائی نہیں، انہیں رنگ کرکے چھپا دیا گیا۔ اس کے بعد سے صدیوں تک یہ مسجد رہی۔ کمال اتاترک نے اس کی مسجد کی حیثیت ختم کرکے اسے میوزیم بنا دیا۔ سنا تھا کہ اردوان حکومت اسے پھر مسجد کی حیثیت دینا چاہتی ہے۔ معلوم نہیں یہ ابھی ہو سکا یا نہیں۔
ایرانی دوستوں کو باسفورس کروز پر جانا تھا۔ ویسے بھی ان کی خواہش اب صرف خواہش کا ستون دیکھنے کی تھی۔ سو میں نے انہیں وہ ستون بتایا اور خیرباد کہہ کر دائیں طرف کے تنگ اور قدیم زینے سے ہوتا ہوا اوپر کی دائیں گیلری میں پہنچا۔ یہاں سے آیا صوفیہ کی عمارت کی بلندی اور ہال کی وسعت کا منظر زیادہ قابل دید ہے۔ تادیر اس محرابی گیلری سے نیچے ہال کو اور اوپر بلند گنبد کو دیکھنا اور اپنے آپ کو بازنطینی اور ترک تاریخ سے متصل محسوس کرنا ایک عجیب اور ناقابل فراموش احساس ہے۔ ہم وہ زمانہ تھے جو دو زمانوں کے درمیان سانس لے رہے تھے۔ مجھے خوشی ہے 2016 میں جب میرا ایک بار پھر آیا صوفیہ جانا ہوا تو یہ منظر مجھے پھر میسر آیا۔
اس زینے سے واپس ہال میں آتے ہوئے اس چوڑے اور مضبوط ستون کے پاس سے گزرنا ہوتا ہے جسے خواہش کا ستون کہا جاتا ہے۔ اس ستون میں ایک انگوٹھا بھر چوڑا سوراخ ہے۔ آخری بازنطینی بادشاہ جسٹنین سے منسوب کچھ داستانوں کے مطابق مشہور ہے کہ اگر کوئی اس سوراخ میں انگوٹھا ڈال کر گھما دے اور اس انگوٹھے پر نمی آ جائے تو اس کی بیماری دور ہو جاتی ہے۔ یا بعض داستانوں کے مطابق اس کی خواہش پوری ہو جاتی ہے۔ بہت سی جگہیں دنیا میں ایسی ہیں جن سے متعلق اس قسم کی داستانیں مشہور ہیں۔ ظاہری اور باطنی بہت سی بیماریوں نے تو ہمیں بھی بے حال کر رکھا ہے؛ چنانچہ ہمارا انگوٹھا گھمانا بھی بنتا تھا۔ نمی کوئی محسوس نہیں ہوئی اور بیماری تو کیا دور ہوتی خود انگوٹھے پر خراش سی آ گئی۔ پس ثابت ہوا کہ حقیقت افسانے سے زیادہ دل خراش یا کم از کم انگوٹھا خراش ہوتی ہے۔