تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     02-12-2019

کچھ نہیں رُکتا

زندگی کے بارے میں ہماری رائے مثبت ہو یا منفی‘ یہ سفر جاری ہی رہتا ہے۔ کسی بھی صورتِ حال میں ہمارا خواہ کچھ ردعمل ہو‘ زندگی کی گاڑی رکنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ دنیا ایک میلے کی مانند ہے‘ جس کی رونق شاذ ہی ماند پڑتی ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ یہ میلہ لگا رہتا ہے‘ رونقیں بکھیرتا رہتا ہے۔ 
عمومی سطح پر پائی جانے والی ایک خواہش یہ بھی ہے کہ دریا کچھ دیر کے لیے رک جائے‘ تو اُسے عبور کرلیا جائے۔ دریا رکتا نہیں۔ ہمیں یا تو تیر کر اُس پار جانا ہوتا ہے یا پھر کشتی کے ذریعے۔ تیسرا طریقہ پُل کی تعمیر کا ہے۔ یہ مستقل نوعیت کا انتظام ہے۔ بہر کیف‘ دریا رکتا نہیں۔ دریا کا کام ہی بہنا ہے۔ اِس کے جواب میں ہمیں جو کچھ کرنا ہے‘ وہ ہر حال میں کرنا ہے۔ 
معروف امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ نے کہا ہے ''میں نے اب تک زندگی سے جو کچھ سیکھا ہے اور جو کچھ اُس نے مجھے سکھایا ہے ‘اُسے صرف الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے ... کچھ نہیں رُکتا...!‘‘ 
زندگی تسلسل کا نام ہے۔ معاملات چلتے ہی رہتے ہیں۔ زمانہ اپنی روش پر گامزن رہتا ہے اور ہم اپنی سہولت کے مطابق تبدیلی چاہتے ہیں۔ یہ اختلاف اور تصادم کی سی کیفیت ہے۔ ایک طرف (انفرادی سطح پر) ہم ہیں اور دوسری طرف زمانہ ہے۔ کسی بھی فرد کے لیے زمانے سے ٹکرانا ممکن نہیں ہوتا۔ اُسے اپنی سوچ سے متفق ہونے والوں کی ٹیم تیار کرنا پڑتی ہے۔ اس ٹیم کی مدد سے وہ زمانے کا سامنا کرتا ہے اور اپنی منصوبہ سازی کے مطابق تبدیلیوں کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ 
اِس دنیا میں اپنے آپ کو بہترین انداز سے ایڈجسٹ کرنے کے حوالے سے پیش آنے والی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ معاملات کسی بھی مقام پر رکتے نہیں۔ سب کچھ چلتا رہتا ہے اور ہمیں اسی حالت میں اپنے لیے کوئی راہ نکالنا ہوتی ہے۔ اور میری نظر میںیہی زندگی کا اصل امتحان ہے۔ 
بالی وڈ کے معروف نغمہ نگار شیلندر نے اپنے ایک معروف گیت میں کہا تھا ''چلنا جیون کی کہانی‘ رکنا موت کی نشانی‘‘ یعنی یہ کہ زندگی حرکت کا نام ہے۔ سب کچھ متحرک رہتا ہے ‘تو زندگی پروان چڑھتی ہے۔ موت تحریک و تحرک کے ختم ہوجانے کا نام ہے۔ سب کچھ ساکت و جامد صرف ایک صورت میں ہوتا ہے ... جب موت واقع ہوجائے۔ زندگی چلنے‘ چلتے رہنے کا نام ہے اور رک جانے کو موت سمجھیے۔ 
زندگی بسر کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ عمومی سطح پر بھی جیا جاسکتا ہے اور تھوڑی سی زیادہ محنت کرکے قدرے باسہولت زندگی بھی بسر کی جاسکتی ہے۔ ہاں‘ ہر اعتبار سے اعلیٰ معیار کی زندگی بسر کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہدف سنجیدگی سے منصوبہ سازی بھی مانگتا ہے اور بھرپور عمل بھی۔ عمل پسند رویہ اپنائے بغیر کوئی بھی اعلیٰ سطح کی زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ 
کسی بھی انسان کے لیے کسی بلند مقام تک پہنچنے کے حوالے سے کھڑی ہونے والی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ماحول کبھی تھوڑا سا بھی رک کر اُس کے لیے آسانی پیدا نہیں کرتا۔ کچھ بھی ساکت و جامد ہوکر پنپنے کی گنجائش پیدا نہیں ہونے دیتا۔ زمانے کے میلے کی رونقیں برقرار ہیں‘ اسی میں ہمیں اپنے لیے بھی جگہ بنانی ہے‘ اپنی بات منوانی ہے۔ دنیا بھی یہ دیکھنے کے لیے بے تاب رہتی ہے کہ ہم کامیابی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے کیا کرتے ہیں۔ جب کوئی باکسر رنگ میں اترتا ہے تو حریف سے لڑنا پڑتا ہے۔ عمومی سطح پر لوگ چاہتے ہیں کہ جب وہ زندگی کی رنگ میں اتریں تو حریف کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے جائیں‘ تاکہ وہ جی بھر کے مُکّے برساتے رہیں اور پوائنٹس لیتے رہیں۔ اِس طرح ہوتا نہیں اور اگر ہو تو یہ باکسنگ نہیں کچھ اور کہلائے گی۔ اگر ایسا ممکن ہو تو بھری دنیا میں کوئی ایک فرد بھی ناکامی سے دوچار نہ ہو۔ ہر شعبے میں انسان کو بھرپور مسابقت کا سامنا ہے۔ یہ مسابقت اعصاب شکن بھی ہوتی ہے اور پنپنے کی گنجائش بھی پیدا کرتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پتنگ ہوا کے رخ پر اونچی اڑتی ہے اور مخالف ہوا کی مدد سے بہت اونچی اڑتی ہے۔ آزمائش ہی تو ہے جو انسان کو تحریک دیتی ہے کہ اپنے وجود کو عمدگی سے بروئے کار لائے۔
سب کچھ اچھا چل رہا ہو تو انسان کے لیے آگے بڑھنا کسی بھی سطح پر ممکن نہیں ہوتا۔ مخالف حالات ہی ہمارے لیے کچھ کرنے کی گنجائش پیدا کرتے ہیں۔ مسابقت درپیش نہ ہو تو انسان اپنا معیار بلند نہیں کر پاتا۔ ایسے لوگ سُکون کی نیند سوتے ہیں۔ نیند تب اُڑتی ہے‘ جب کچھ کر دکھانا لازم ہوجائے۔ زندگی کا اصل لطف اسی امر میں ہے کہ ہم معمول سے کچھ بڑھ کر کچھ کرنے کی تحریک پائیں۔ 
جس نے بھی کچھ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور اپنی صلاحیت و سکت کا لوہا منوانا چاہتا ہے ‘اُسے یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے‘ وہ دوسروں کی بھرپور کاوشوں کے درمیان ہی کرنا ہے۔ سبھی کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے مسابقت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ سامنے کوئی ہو تو کام کرنے میں زیادہ لطف آتا ہے ‘کیونکہ کچھ نہ کچھ الگ سے کرکے دکھانا پڑتا ہے‘ اپنا معیار بلند کرنا ہی پڑتا ہے۔ 
حقیقت پسندی کی عینک لگاکر معاملات کو دیکھا جائے تو زندگی کا لطف اِس امر میں محسوس ہوگا کہ سب اپنے اپنے مقام پر ڈٹے رہیں اور اُن کے مقابل ہمیں الگ سے کچھ کرنے کی تحریک ملتی رہے۔ جہاں جمود ہوتا ہے‘ وہاں ترقی ہوتی ہے‘ نہ خوش حالی۔ کسی بھی معاشرے کے پنپنے کی راہ اُسی وقت ہموار ہوتی ہے ‘جب مسابقت کی فضاء صرف موجود نہ ہو‘ بلکہ پروان بھی چڑھ رہی ہو۔ 
اس دنیا کی رونق اس حقیقت کے دم سے سلامت ہے کہ معاملات کسی بھی مقام پر نہ رکیں‘ سب کچھ چلتا رہے۔ جمود کی صورت میں صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر کسی معاشرے کو بالجبر ساکت و جامد کردیا جائے تو مسائل دوچند ہو جاتے ہیں۔ جہاں بھی ایسے تجربے کیے گئے ہیں‘ سنگین نتائج رونما ہوئے ہیں۔ روس اور اُس سے متصل ریاستوں میں کمیونزم کی فتح کے بعد جب مشرقی یورپ کے ممالک پر بھی کمیونزم مسلط کیا گیا تو لوگ بنیادی حقوق سے محروم ہوگئے اور کئی معاشروں کی ہیئت بگڑ گئی‘ پھر یہ ہوا کہ موقع ملتے ہی اِن معاشروں نے کمیونزم کا چولا اتار پھینکا۔ حال ہی میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت نے جو کچھ کیا ہے‘ وہ بالجبر مسلط کیے جانے والے جمود کے زمرے میں آتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوں گی‘ اُن کے شدید منفی اثرات کچھ مدت کے لیے ظاہر ہوں گے۔ 
معاشرے اُسی وقت پنپتے ہیں جب لوگوں کو مسابقت کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ معاملات کو روک کر کسی کے لیے گنجائش پیدا کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ دنیا کے میلے کی رونق برقرار رکھنا تبھی ممکن ہے‘ جب اِسے معاملات اپنے طور پر طے کرنے اور چلانے کی آزادی دی جائے۔ ہر فرد کے لیے پنپنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہ حالات کے مطابق خود کو تبدیل کرے‘ کسی بھی موڑ پر محنت سے منہ نہ موڑے‘ عزم توانا رکھے اور کسی بھی صورتِ حال سے مایوس ہونے کی بجائے مثبت پہلوؤں پر متوجہ رہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved