تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     03-12-2019

دنیا میں مشکلات کی اصل وجہ

انسان سدا کا دکھی ہے۔ اس کے یہ دکھ درد کم زیادہ ہوتے رہتے ہیں‘لیکن ختم کبھی نہیں ہوتے۔ بڑے بڑے بادشاہ ساری زندگی مضطرب رہے۔ اسی اضطراب میں وہ ہمسایہ سلطنتوں کو اپنے زیرنگیں لانے کی جنگیںلڑتے رہے۔ یہ بادشاہ ایک دوسرے کو قتل کر تے رہے۔ وہ ایک دوسرے کی سلطنت ہتھیاتے رہے۔ آپ کے خیال میںصدام حسین کیوں بار بار ہمسایہ ممالک پہ چڑھ دوڑتاتھا؟ بظاہر وہ خود بھی قائل تھا کہ میںمشرقِ وسطیٰ میںانسانیت کی بھلائی اور دین کے فروغ کیلئے یہ سب کر رہا ہوں‘لیکن درحقیقت وہی سلطنت میں اضافے ‘ وسائل پر قبضے کی وہی حیوانی جبلت۔ نفس انسان کو یقین دلا دیتا ہے کہ یہ جو ہمسایہ سلطنت پر تم قبضہ کرو گے‘ اسی میںانسانیت کی بھلائی ہے ‘ اسی میں مذہب کا فروغ ہے۔
آج دنیا میںبظاہر سلطانی جمہور کا پرچم لہرا رہا ہے۔ بظاہر انسان مہذب ہو چکاہے۔ غلاموںکی باضابطہ خرید و فروخت بند ہو چکی ہے۔اس کے باوجود افغانستان ‘ فلسطین‘ کشمیر ‘ لیبیا سمیت ان گنت مقامات پر جہاںبھی کہیںمقامی حکمران کمزور پڑے‘ جہاںبھی کہیںکسی قوم کی دفاعی قوت کمزور پڑی ‘ عالمی قوتیںان پر بھوکوںکی ٹوٹ پڑتی ہوئی نظر آتی ہیں‘لیکن جیسے جیسے بادشاہوںکی سلطنت میںاضافہ ہوتا چلا جاتاہے ‘ اسی طرح ان کی بے چینی میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے۔
سرکارﷺ نے فرمایا تھا کہ '' ایک سونے کی وادی آدمی کو دے دی جائے تو وہ دوسری وادی کی آرزو کرے گا اور مٹی کے سوا کوئی چیز اس کا پیٹ بھر نہیںسکتی‘‘۔ یہ تو تھی امیروںکی بات۔ اب‘ غریبوںپر آجائیے۔ زندگی میںکئی بار ایسے لوگوںکو دیکھا ‘جن کی ساری کی ساری جدوجہد روٹی‘ کپڑا اور مکان یعنی بنیادی انسانی ضرورتوںپر مرتکز تھی۔ اپنی پوری جدوجہد کے باوجود وہ ان ضرورتوںکو پورا کرنے سے قاصر تھے۔ زندگی بڑی کسمپرسی میںگزر رہی تھی۔ ان لوگوںکا طرزِفکر یہ تھا کہ اگر ہمیںروٹی‘ کپڑا اور مکان نصیب ہو جائے تو پھر ہم مطمئن ہو جائیں  گے‘ پھر ہمیںکسی اور چیز کا لالچ نہیںرہے گا۔ حیرت انگیز طور پر ان میں سے کچھ لوگوں کے جب حالات پھرے ‘ انہیں یہ سب بنیادی ضروریات مہیا ہو گئیںتو اس کے بعد وہ پہلے سے زیادہ مضطرب نظر آنے لگے۔
سوال یہ ہے کہ انسان مطمئن کیوںنہیں ہوتا؟ بادشاہ بادشاہوںکی ریاستوں پر قبضے کی کوشش کیوںکرتے ہیں؟ غریب لوگ خوشحال ہو کر بھی مطمئن کیوںنہیں ہوتے ؟ بادشاہ اور نواب سونے چاندی کے برتنوں میںکیوںکھاتے ہیں؟محلات تعمیر کرتے کرتے بادشاہ بوڑھے ہو جاتے ہیں‘ تسلی نہیںہو پاتی۔ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ کی ایک شادی ہو گئی‘ آپ کو ایک سلطنت حاصل ہو گئی‘ آپ کو زندگی کی بنیادی ضروریات حاصل ہو گئیںتو آپ مطمئن ہو جائیں۔ مزید سے مزید کی خواہش میں انسان ساری زندگی پاگلوںکی طرح لڑتا کیوںرہتا ہے ؟اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ جنت سے نکالا ہوا انسان ‘ وہ سب کچھ دوبارہ سے حاصل کرنا چاہتاہے ‘ جو اسے وہاںحاصل تھا۔ محلات ‘ سونے کے برتن ‘ لا محدود ریاست‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ سیارہ ‘ Planet Earthبہت چھوٹا ہے۔اگر کوئی بادشاہ کرہ ٔ ارض کو مکمل طور پر فتح کر لے تو پھر بھی وہ مطمئن نہیں ہو پائے گا‘ اسے galaxyپر حکومت چاہیے اور وہ اس دنیا میںاسے مل نہیںسکتی۔
یہاںسے آپ کو باآسانی معلوم ہو جائے گا کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد اتنی miseryمیںکیوںرہ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواہشات کا کوئی دوسرا کنارہ ہے ہی نہیں۔ آپ عسرت سے خوشحالی میںآبھی جائیے تو اطمینان نام کی چیز آپ کو ملنے والی نہیں۔ میںآپ کو پورے یقین سے کہہ سکتا ہوںکہ اگر انسانوںکی پانچ فیصد خواہشات بھی پوری ہونا شروع ہو جائیںتو دنیا کا نظام تباہی و بربادی کا شکار ہو جائے۔ دنیا میں وئی مزدور اور کوئی سپاہی باقی نہیںرہے گا۔کان کن نہیںملیںگے۔ عمارتیںتعمیر ہونا بند ہو جائیںگی۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگوں میں ہولناک حد تک اضافہ ہو جائے گا۔ یہ تو عسرت ہے ‘ جس کی وجہ سے زیادہ تر انسان کام کرتے اور صلح صفائی کے ساتھ زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔
انسان کی مثال ایک بچّے کی سی ہے۔ بازار میں سے گزرتے ہوئے‘ وہ ہر چمکدار چیز حاصل کرنے کے لیے شور مچاتا ہے۔ یہ تو اس کے زیادہ عقل رکھنے والے ماںباپ ہوتے ہیں‘ جو اس کی کچھ خواہشات کو پورا کرتے ہیں‘مگرزیادہ تر خواہشات کو اس کی بھرپور چیخ و پکار کے باوجود نظر انداز کر دیتے ہیں‘ اسی طرحجب یہ بچہ ہسپتال جاتا ہے تو انجکشن سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتاہے۔ اس کے سمجھدار والدین ‘ اس کا رونا پیٹنا نظر انداز کرتے ہوئے ‘ اسے خود اپنے ہاتھوں سے پکڑکر یہ تکلیف والی چیز (انجکشن ) لگواتے ہیں۔اس لیے کہ انہیں اس چیز کا علم ہوتاہے کہ وقتی تکلیف کے باوجود اس انجکشن میںاس بچے کا دیر پا فائدہ پوشیدہ ہے۔
ذرا تصور میں لائیے کہ جنت سے نکالا ہوا آدمی دراصل اپنیPowersواپس حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ہر چیز کو اپنے کنٹرول میںکرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کم یا زیادہ ‘ ہر انسان آپ کو possessiveنظر آئے گا۔ ہر چیز ‘ سارے معاملات اپنے ہاتھ کرلینے کی خواہش میں دبا ہوا۔ اصل میںاس دنیا میں آنے سے پہلے ہر چیز انسان کے اختیار میںتھی۔یہ اس طرحکی بادشاہت تھی‘ جسے انسان زمین پر کبھی پا نہیں سکا ‘لیکن اسے دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش ہر انسان کے رگ و پے میںہے‘لیکن افسوس کہ اس دنیا میںانسان کبھی بھی تمام معاملات پر وہ کنٹرول حاصل نہیںکر سکے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا بنی ہی اس طرح ہے کہ اس میں انسان اپنی زندگی کو ایک خاصحد سے زیادہ آرام دہ نہیں بنا سکتا۔ ہو سکتاہے کہ ایک امیر ترین شخص اپنے چھوٹے قد اور گہری رنگت کے احساسِ کمتری سے ہی باہر نہ آسکے۔انسان کو سب کچھ مل جاتاہے ‘ اس کے بعد اسے مائیگرین میںمبتلا کر دیا جاتاہے۔ کسی کے ہاںایب نارمل بچہ پیدا ہوجاتاہے۔ کسی کی بیوی بدزبان ہے تو کسی کا شوہر بے رحم۔ کوئی لاتعداد بیماریوں میں سے کسی ایک میں مبتلا کر دیا جاتاہے اور اس کی باقی زندگی اسی کو بھگتتے ہوئے گزر جاتی ہے یا کسی اور طرح کی دنیاوی آزمائش میں مبتلا ہو جائے۔
اس کے علاوہ دو بہت بڑی چیزیں‘ جو انسان کے کنٹرول میںنہیں ہیں۔ وہ ہیں؛stimulusاور خیالات کا نزول۔ ان پر جب تک انسان کا کنٹرول نہ ہو ‘ تب تک وہ اپنی اس دنیا وی زندگی کو enjoyنہیں کر سکتا‘ لیکن ان پر کنٹرول انسان کو مل نہیں سکتا‘ اگر ملے تو آزمائش ختم ہو جاتی ہے اور یہ دنیا آزمائش کے لیے بنی ہے۔ stimulusاور خیالات کے نزول پر ایک کالم الگ سے ‘لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ خدا زندگی بھر انسان کو مسائل سے نکلنے کیوںنہیںدیتا ؟ میرے عزیز دوست ''خود سے خدا تک ‘‘ کے مصنف ناصر افتخار کے الفاظ میں اگر انسان کو ان تمام مسائل سے نکال کر سب چیزیں اس کے کنٹرول میںدے دی جائیں‘ تو دنیا اپنی مٹھی میںکر لینے والا انسان پھر کہاں خدا کو یاد کرے گا۔ زیادہ تر کیسز میں‘ یہ تو انسان کے مسائل ہیں‘ جو اسے خدا کی طرف رجوع پر مجبور کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں‘ان حالات و مشکلات کی اصل وجہ یہ ہے کہ خدا یہ چاہتاہے کہ ہم اسے یاد کرتے رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved