پٹواری کلچر تبدیل‘ تبدیلی تیزی سے آ رہی ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''پٹواری کلچر تبدیل‘ تبدیلی تیزی سے آ رہی ہے‘‘ اور اتنی تیزی سے آ رہی ہے کہ کسی ایکسیڈنٹ ہونے کا بھی خطرہ پیدا ہو گیا ہے‘ اس لیے ہم نے سوچا ہے کہ اس کی رفتار کو کچھ کم کیا جائے؛ چنانچہ اسے روک کر اس کی رفتار کم کرنے کیلئے ایک کمیٹی بنائی جارہی ہے‘ جس کی رپورٹ تسلی بخش نہ ہوئی تو اس پر ایک اور کمیٹی قائم کر دی جائے گی اور کوشش کی جائے کہ اس کے نتائج ہمارے عہد ِ اقتدار ہی میں حاصل کر لیے جائیں اور جہاں تک پٹواری کلچر کے تبدیل ہونے کا تعلق ہے تو یہ اتنا ہی تبدیل ہوگا ‘جتنا کہ تھانہ کلچر تبدیل ہوا ہے؛حتیٰ کہ تبدیل ہونے والے آئی جی نے پولیس کی جرابیں تبدیل کر دی ہیں‘ تا کہ یہ تبدیلی نیچے سے شروع ہو اور کامیابی سے سر تک پہنچئے‘ جبکہ سر تک کا فاصلہ طے کرنے میں بھی خاصا وقت لگ سکتا ہے؛ چنانچہ اسی طرح پٹواریوں کے سب سے پہلے جوتے تبدیل کیے جائیں گے ‘ کیونکہ جرابیں تووہ پہنتے ہی نہیں کہ شروع سے ہی سادگی اور کفایت شعاری سے کام لے رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ارکانِ اسمبلی سے ملاقات کر رہے تھے۔
عمران صاحب ! عوام کا پیغام ہے کہ
گھبرانا شروع کر دیں: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران صاحب ! عوام کا پیغام ہے کہ گھبرانا شروع کر دیں‘‘ جبکہ ہمیں گھبراہٹ میں مبتلا کرنے کیلئے احتساب کے پیغامات ہی کافی ہیں‘ نا صرف یہ‘ بلکہ وہ پیغام کے ساتھ ہی کارروائی بھی شروع کر دیتے ہیں؛ حتیٰ کہ بعض اوقات وہ کارروائی کا آغاز پہلے کرتے ہیں اور پیغام بعد میں بھیجتے ہیں ؛ حالانکہ ایک وقت میں ایک ہی کام کرنا چاہیے‘ جیسا کہ ہمارا شعار تھا اور ہمارے قائدین یکسوئی اور دونوں ہاتھوں سے عوام کی خدمت کرتے رہے کہ کسی اور کام کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتے تک نہیں تھے‘ کیونکہ وہ کام ہی اس قدر پیچیدہ اور محنت طلب تھا کہ کیا کہنے‘ کیونکہ تقریباً ساری کی ساری خدمت بیرون ملک بھی بھجوانا ہوتی تھی۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
پہلے نیا وزیراعظم آئے گا‘ پھر ترمیم ہوگی: بلاول بھٹوزرداری
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پہلے نیا وزیراعظم آئے گا‘ پھر ترمیم ہوگی‘‘ جس میں میرا بھی چانس نکل سکتا ہے‘ کیونکہ اب تو جلسوں میں شرکاء نے ''وزیراعظم بلاول‘‘ کے نعرے بھی لگانا شروع کر دیئے ہیں اور طاقت کاسر چشمہ ‘چونکہ عوام ہیں‘ اس لیے ان کی بات بھی ماننی چاہیے اور مخالفین کے دانت کھٹے کر دینے چاہئیں‘ جس کیلئے املی وغیرہ ہم مہیا کر سکتے ہیں ‘کیونکہ اینٹ سے اینٹ بجانے کا تجربہ کچھ اچھا نہیں رہا تھا اور میرے وزیراعظم بننے میں اب بظاہر کوئی رکاوٹ بھی نہیں‘ جبکہ اپنی شادی کیلئے ہی والد صاحب کی ضمانت کروانا چاہتا ہوں‘ تا کہ وہ باہر آ کر میرے سر پر سہرا سجا سکیں؛ حالانکہ میں نے تو انہیں کہا تھا کہ یہ کام وہ جیل میں بیٹھے بیٹھے یا لیٹے لیٹے ہی کر سکتے ہیں‘ لیکن ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی؛ حالانکہ ان کی سمجھ اس قدر تیز ہے کہ جعلی اکائونٹس والا معاملہ انہوں نے چٹکی میں حل کر دیا تھا۔ آپ اگلے روز جیل میں اپنے والد کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
قلندر کی صدا
یہ نوید مرزا کا مجموعۂ کلام ہے‘ جسے رحمانیہ کتاب مرکز لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب معروف نقاد اور شاعر ڈاکٹر انور سدیدمرحوم‘ سماجی کارکن و علم دوست شخصیت‘ برادر نسبتی جناب خالد اقبال رانا ‘ مرحوم اور عزیز دوست اور باصلاحیت کمپوزر جناب سمیر احمد مرحوم کے نام ہے۔ ''دکھی انسانیت کی پکار‘‘ کے عنوان سے دیباچہ جاوید قاسم نے تحریر کیا ہے‘ جبکہ پیش لفظ ''قلندر کی صدا‘‘ میں چھپی ہوئی دعا‘‘ کے عنوان سے شاعر کا قلمی ہے۔ پس سرورق شاعر کی تصویر اور اس کے نیچے ڈاکٹر انور سدید کا چار سطری تحسینی نوٹ ہے۔ یہ مجموعہ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔
والد صاحب مرحوم کہا کرتے تھے کہ خربوزے کو خربوزہ سمجھ کر ہی کھانا چاہیے‘ میٹھا ‘ پھیکا دیکھے بغیر‘ اسی طرح شاعری کو شاعری ہی سمجھ کر پڑھنا چاہیے‘ اچھی بُری کی تمیز کیے بغیر‘ جبکہ شاعر ہونا تو ویسے ہی بڑی فضیلت کی بات ہے۔ شاعر نے اس میں اپنے آپ کو قلندر ہی کے طور پر پیش کیا ہے‘جبکہ ٹائٹل پر بھی شاید انہیں کو دھمال ڈالتے دکھایا گیا ہے۔ سرورق آغا نثار کا تیار کردہ ہے‘ جبکہ کتاب کے اندر بھی ڈاکٹر انور سدید کی ایک اور سہ سطری رائے درج کی گئی ہے اور اس میں بھی شاعر کے قلندر ہونے کی تصدیق کی گئی ہے‘ تا کہ اس بارے کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے۔
اور‘ اب آخر میں عامرؔ سہیل کی یہ تازہ غزل:
آئین عاشقی سے جو انکار اب کریں
میڈم‘ ہماری آنکھ سے جزیہ طلب کریں
اور اسپ جس پہ بیٹھ کے لیلیٰ قضا نہ ہو
اور حور وہ کہ جس کو حکایت عرب کریں
ہوں بے سبب اداس کسی ہنس کے لیے
اک اپسرا کو یاد چلو بے سبب کریں
میری طرح‘ تمہاری طرح‘ فجر کی طرح
وہ ہونٹ بھی تو خواہشِ رنگ و نسب کریں
ترکِ تعلقات کسی گُت سے اجتناب!
ای میل کر کے تم نے بتانا ہے کب کریں
دیکھا ہے کوئی ملک کہ جس کے خدا نصیب
ایمان دار بھی ہوں‘ خیانت بھی سب کریں
عامرؔ جہان چھوڑنا مشکل نہیں مگر
کس کے سپرد عارض و رُخسار و لب کریں
آج کا مقطع
صبح سی ہر دم کیے رکھتا ہے جو ہر سو‘ ظفرؔ
دیکھنے میں اُس کا اپنا شام جیسا رنگ ہے