تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-12-2019

معلومات‘ علم اور دانش

ابلاغ کے ذرائع کی غیر معمولی ترقی نے آسانیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی مشکلات بھی پیدا کی ہیں۔ فی زمانہ معلومات کا تبادلہ سہل ہوگیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ یہ آسانی ہی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے‘ کیونکہ ہم غیر ضروری معلومات کے پانیوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ غیر ضروری حقائق اور دیگر غیر اہم امور ہم پر ایسے متصرف ہوئے ہیں کہ اُن سے نجات کی کوئی معقول صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ 
آلڈس ہکسلے نے کہا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا‘ جب اہم باتیں انتہائی غیر اہم باتوں کے سمندر میں غرق ہو جائیں گی اور کسی بھی صورتِ حال سے حقیقی تعلق پیدا کرنا اور برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔ ہکسلے کے مطابق ‘ایسا اُس وقت ہوگا جب حقائق اور معلومات کی بھرمار ہوگی۔ آج ہم ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ 
عام آدمی کے لیے یہ معاملہ بہت مزے کا ہے۔ بہت سے معاملات میں حقائق کا حصول کسی زمانے میں بہت دشوار ہوا کرتا تھا۔ اب یہ کوئی بات ہی نہیں ہے۔ کسی بھی موضوع پر مطلوب حقائق تیزی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ حقائق ہی کو جوڑ کر معلومات کی شکل دی جاتی ہے۔ یہ معلومات چھوٹے چھوٹے جملوں کی شکل میں غیر معین شکل کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔ معلومات کو بہت تیزی سے منتقل ‘یعنی شیئر کیا جاسکتا ہے۔ عام آدمی کے لیے یہ سب کچھ بے حد راحت بخش ہے‘ کیونکہ وہ تیزی سے معلومات حاصل کرکے کسی بھی موضوع سے متعلق اچھا خاصا جان سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ معلومات کے حصول کو عام آدمی علم کی منزل تک پہنچنا سمجھ لیتا ہے اور پھر علم بانٹنے نکل پڑتا ہے...! 
تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ حقائق اور معلومات تو ابتدائی منازل ہیں‘ کسی بھی موضوع پر علم بھی ہمارے لیے کسی کام کا نہیں ہوتا جب تک ہم اُس علم کو بھرپور انداز سے بروئے کار لانے کی تیاری نہ کریں۔ آج کی دنیا میں معلومات کی بھرمار ہے اور ان معلومات کو ڈھنگ سے ترتیب دے کر علم کی شکل بھی دی جاسکتی ہے‘ مگر یہ کافی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ دانش کہاں سے آئے گی۔ معلومات بہت تیزی سے منتقل کی جاسکتی ہیں‘ دانش نہیں۔ ہم جو کچھ بھی دیکھتے‘ سُنتے اور پڑھتے ہیں‘ اُسی کی بنیاد پر سوچتے ہیں۔ یہ سوچنا ہمیں دانش کی طرف لے جاتا ہے۔ علم کا حصول ہمیں دانش کی منزل کی طرف لے جاسکتا ہے ‘مگر یہ لازمی طور پر خود دانش نہیں ہوتا۔ کسی بھی انسان کو دانش کہیں سے نہیں ملتی۔ کسی بھی ذریعے سے حاصل ہونے والے علم سے انسان دانش خود کشید کرتا ہے۔ 
جب ہم کسی کی سوانح یا خود نوشت پڑھتے ہیں ‘تب ایسا بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے‘ جس کی مدد سے زندگی کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔ غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار ہونے والوں نے جو کچھ جھیلا ہوتا ہے اور جو غلطیاں کی ہوتی ہیں‘ اُنہیں بیان کرکے ہمارا کام آسان کردیتے ہیں۔ کامیاب انسانوں کی غلطیوں سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ سوال پھر وہی ہے کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم کچھ سیکھنے کے لیے بے تاب ہوں تو ٹھیک‘ وگرنہ معاملات وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ 
ایک زمانہ تھا کہ جب انسان سوچا کرتا تھا کہ اگر ضرورت کی تمام اشیاء ایجاد یا دریافت ہوجائیں تو زندگی آسان ہوجائے گی اور ہر شعبے میں کارکردگی کا معیار بلند ہوگا۔ انسان کو جو کچھ بھی درکار ہے‘ وہ تقریباً سب کا سب ایجاد یا دریافت کیا جاچکا ہے۔ ہم آج اپنے گھر کا جائزہ لیں تو ایسی درجنوں چیزیں ملیں گی‘ جن کا دو ڈھائی صدی قبل تک تصور بھی محال تھا۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے‘ اس کے بعد گڑبڑ ہے۔ جو کچھ ہمیں درکار تھا‘ وہ نہ صرف ایجاد یا دریافت کیا جاچکا ہے‘ بلکہ ہمیں میسر بھی ہے۔ اس کے باوجود مجموعی طور پر زندگی کا معیار بلند نہیں ہو پارہا۔ اس کے برعکس لوگ مزید الجھ کر رہ گئے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر درکار معلومات کا حصول ممکن ہو جانے پر بھی کارکردگی کا معیار بلند نہیں ہو پارہا۔ لوگوں میں کچھ نیا اور اچھا کرنے کی تحریک مشکل سے پیدا ہو پارہی ہے۔ 
ایسا کیوں ہے؟ بات کچھ یوں ہے کہ ہم اُتھلے پانی میں کھڑے ہوکر دِل پشوری کے عادی ہوگئے ہیں۔ سمندر کے کنارے کھڑے ہوکر پانی کا جائزہ لینے اور پانی میں اتر کر قدرت کے شاہکاروں کا مشاہدہ کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج کا انسان ہر معاملے میں سطحی نوعیت کی معلومات اور متعلقہ حقائق یا اعداد و شمار کے حصول ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے۔ وہ کسی بھی معاملے میں حقیقت تک پہنچنے سے گریزاں رہتا ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ معاملات کو سطح پر رہتے ہوئے نمٹالیا جائے۔ 
طلباء‘ اساتذہ‘ پروفیشنلز‘ آجر‘ اجیر ... سبھی چاہتے ہیں کہ کچھ زیادہ کرنا نہ پڑے اور کام ہو جائے۔ لوگ ہاتھ پیر زیادہ ہلانے سے کتراتے ہیں۔ ہر شعبے کی بے مثالی ترقی نے زندگی کو بہت سی سہولتوں سے آراستہ کردیا ہے۔ لوگ ہر سہولت سے مستفید ہونا چاہتے ہیں ‘مگر اُس سہولت کے حصول کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے ‘وہ نہیں کرنا چاہتے۔ اعصاب اور حواس پر تن آسانی چھائی ہوئی ہے۔ 
ہمیں اپنے ماحول سے جو کچھ بھی جاننے کو ملتا ہے‘ وہ حقائق اور معلومات کی منزل سے ہوتے ہوئے علم کی شکل اختیار کرتا ہے۔ کسی بھی موضوع کو باضابطہ علم کا درجہ دے کر کتابوں میں محفوظ کردیا گیا ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ ہم اُس علم کی مدد سے دانش کی منزل تک پہنچتے ہیں یا نہیں۔ کسی بھی معاملے میں دانش کا حصول ہمارا معاملہ ہے۔ ہمیں اس حوالے سے بیدار مغز اور باشعور ہونا پڑتا ہے۔ نفسی امور کے حوالے سے درجنوں کتابیں پڑھنے سے بھی ہمارا کچھ بھلا نہیں ہوسکتا‘ اگر ہم اُن کتابوں میں بیان کردہ اصولوں پر غور کرکے اپنے لیے کوئی عملی راہ تلاش نہ کریں‘ لوگوں سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے پُرعزم اور باعمل نہ ہوں۔ 
عقل ہم سب میں پائی جاتی ہے مگر عقل کو عقلِ سلیم میں تبدیل کرنا آسان نہیں۔ عقل کہتی ہے کہ بُرائی کا جواب بُرائی سے دیا جائے مگر عقلِ سلیم کا تقاضا ہے کہ بُرائی کرنے والے کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ بُرائی کے بدلے میں بھلائی کرنے یا کم از کم بُرائی نہ کرنے سے فریقِ ثانی یقینا کچھ سوچنے اور اپنی اصلاح کی طرف مائل ہوگا۔ 
زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے لازم ہے کہ انسان صرف اپنے مفاد کو تمام امور پر فوقیت نہ دے۔ دوسروں کے مفادات کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ دانش کا تقاضا یہی ہے کہ ہم دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرنے پر متوجہ ہوں۔ ایسا کرنے کی صورت میں ہمیں جو طمانیت میسر ہوگی‘ وہ ہماری شخصیت کو غیر ضروری بوجھ سے آزاد کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی اور یوں ہم کوئی بھی کام بہتر انداز سے کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ ہر اُس قوم اور معاشرے نے ترقی کی ہے ‘جس نے معلومات اور علم کی منزل پر رکنے کے بجائے دانش تک سفر کیا ہے اور دنیا کو بتایا ہے کہ ضروری معلومات سے دانش کشید کرنے کی صورت ہی میں زندگی کا معیار بلند کیا جاسکتا ہے۔ پچیس تیس صدیوں کے دوران اہلِ دانش نے ہمارے لیے جو خزانہ چھوڑا ہے‘ اُس سے مستفید ہوکر ہم کچھ ایسا بہت کچھ کرسکتے ہیں ‘جس کی بدولت ہمارا نام اس دنیا سے ہمارے چلے جانے کے بعد بھی اچھے الفاظ میں لیا جاتا رہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved