ویسے تو طلبہ سیاست پر سرکاری طور پر ربع صدی سے زیادہ عرصے سے پابندی ہے۔ ضیاالحق کے مارشل لا کے دور میں پابندی لگائی گئی تھی۔ اس کے بعد تقریباً پینتیس چالیس سال تک جمہوری اور نیم جمہوری حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر طلبہ سیاست پر بدستور پابندی عائد ہے۔ مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی والے اپنی باریاں لیتے رہے مگر طلبہ یونینز بحال کرنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی۔ آخر یہ فیصلہ وہ کیوں نہ کر سکے اور اب تحریکِ انصاف اس سلسلے میں کیا کر سکتی ہے؟ یہ دو سوال ہیں جن کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ اگرچہ سرکاری طور پر کسی بھی سرکاری یونیورسٹی میں طلبہ یونینز کے انتخابات نہیں ہوتے، مگر طلبہ ہمیشہ جامعات کی اندرونی اور سیاسی جماعتوں کی بیرونی سیاست میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت نے، چاہے وہ مذہبی نوعیت کی ہو یا لسانی، کالجز اور جامعات میں اپنے ذیلی گروہوں کو منظم کر رکھا ہے جو طلبہ کے اندر اور باہر کے معاشرے میں اپنی سیاسی جماعت کے لیے نظریاتی مہم سیاسی اور غیر سیاسی موسموں میں چلاتے رہتے ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی نرسریاں جامعات میں کبھی نہ ختم ہوئی ہیں نہ ہو سکتی ہیں اور نہ ہی اُنہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں آزادیٔ رائے اور آزادیٔ فکر ہو گی، وہاں سیاسی گروہوں کا تعلیمی اداروں اور معاشروں میں پیدا ہونا فطری بات ہے۔ امریکہ کے آئین کے بانی سیاسی جماعتوں کے وجود کے خلاف تھے۔ اُن کا خیال تھا، اور موجودہ دور میں بھی کچھ لوگ یہی سوچ رکھتے ہیں، کہ سیاسی جماعتیں قوم اور ملک کو متحد رکھنے کی بجائے تقسیم کرتی ہیں۔ اُنہوں نے اپنی قومی زندگی کا سفر سیاسی جماعتوںکے بغیر ہی شروع کیا تھا۔ اُس وقت تھامس جیفرسن، جو امریکہ کے ''اعلانِ آزادی‘‘ کے مصنف کہلائے، نے کہا تھا کہ جہاں آزادی ہو گی، وہاں سیاسی گروہ بنیں گے۔
ایوب خان کے دور میں سیاسی جماعتوں پر قدغن نہ تھی۔ ساٹھ کی دہائی میں ملک کے تمام کالجوں اور جامعات میں سالانہ انتخابات دھوم دھام سے ہوتے تھے۔ صدر، نائب صدر، سیکرٹری، نائب سیکرٹری، خزانچی اور کونسلرز کے عہدوں کے لیے کئی ہفتے مہم چلائی جاتی۔ ہر امیدوار ذاتی طور پر ہر ایک سے ملنے کی سعی کرتا؛ منشور شائع کیے جاتے؛ پوسٹر لگائے جاتے؛ تعلیمی اداروں میں عید کا سا سماں ہوتا۔ اس سرگرمی سے عام طلبہ کو ووٹ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا۔ ہمیں تو چائے، مٹھائیوں اور پارٹیوں کا انتظار رہتا تھا۔ جامعہ پنجاب میں آئے تو یہاں ماحول کالج کی نسبت مختلف تھا۔ طلبہ تحریک، جس میں خاکسار اور ہمارے ہمعصر شامل تھے، نے ایوب دور کو ختم ہوتے دیکھا تھا۔ اُس تحریک میں ہر نظریے کے طلبہ شامل تھے۔ اسلامی، لسانی اور ترقی پسندوں کی کئی تنظیمیں جمہوریت کی بحالی کے لیے سرگرم رہی تھیں۔ جامعات میں طلبہ سیاست نظریاتی تھی۔ اسلام پسندوں میں جمعیت طلبہ اسلام غالب تھی۔ دو تین ترقی پسند تنظیمیں بھی تھیں جن کا بظاہر کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہ تھا‘ مگر اشتراکی تحریک کے کسی ایک دھارے سے اُن کے تانے بانے ملتے تھے۔ چائے کی پیالی ہو یا بیٹھک، نظریاتی گفتگو ہر موضوع پر حاوی ہوتی تھی۔ طلبہ تنظیموں کی شناخت بھی نظریاتی، اوڑھنا بچھونا بھی نظریاتی اور 'پاکستان کا مستقبل کیا ہو گا؟‘ یہ بھی نظریاتی بنیادوں پر تولا جاتا۔
عوامی دور کی بات کی جائے توطلبہ تنظیموں کو جاری رکھا گیا اور طاقت کے بل پر اور پیسے کے زور پر پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کی نہ صرف سرپرستی کی گئی بلکہ پنجاب یونیورسٹی میں ، جہاں میں پہلے بطور طالب علم، اور بعد میں بطور لیکچرار عوامی دور میں موجود رہا، اُس وقت کی پنجاب حکومت نے پی ایس ایف کو اسلحہ بھی فراہم کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھاری معاوضے پر باہر کے نوجوانوں کو، جو پیپلز پارٹی کے سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے، جامعہ پنجاب کے ہاسٹلوں میں داخل کیا گیا۔ اُن میں سے زیادہ تر نوکری، اقتدار اور ہوسِ زر سے مغلوب تھے۔ اُن کا ایک ہی مشن تھا، جمعیت کے غلبے کو ختم کرنا۔ لیکن جمعیت پہلے سے لے کر آخری انتخابات تک میں فتح مند رہی۔ اسے گائوں‘ دیہات سے آنے والے عام طلبہ کی حمایت حاصل تھی۔ میں خود بھی اُس وقت ترقی پسندوں کی صف میں تھا، اور ہم نے جہانگیر بدر کے لیے مہم چلائی تھی۔ اُن کے مقابلے پر حفیظ خان تھے، جو جمعیت کے رکن تو نہیں تھے، مگر اُن کے نامزد کردہ تھے۔ اُس وقت پیپلز پارٹی اقتدار میں نہیں تھی، مگر جونہی نیا دور شروع ہوا، طلبہ سیاست نظریاتی نہ رہی بلکہ سیاسی جماعتوں میں بٹ گئی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ( اگر کوئی تردید کرنا چاہے تو دعوتِ عام ہے) جمہوری دور میں پنجاب حکومت کے وزیر، وزیرِ اعلیٰ اور گورنر صاحب تک جامعہ پنجاب کی سیاست میں مداخلت کرتے تھے۔ دیگر جامعات کے حالات بھی اس سے مختلف نہ تھے۔ جہاں بھی کوئی سیاسی جماعت غالب تھی، وہ اپنی ذیلی طلبہ تنظیم کی سرپرستی کرتی تھی۔ جامعہ پنجاب اور دیگر جامعات میں آئے روز ہنگامے ہوتے، لڑکیوں کے اغوا کے دل دہلا دینے والے واقعات پیش آتے، اور یہ واقعہ تو سب کو معلوم ہے (اُس وقت عام خبر تھی) کہ جامعہ پنجاب کی کچھ طالبات کو سرکاری لوگ اغوا کر کے گورنر ہائوس لے گئے ہیں۔ کئی ایسے واقعات ہیں جنہیں میں خود جانتا ہوں، مگر اُن بد نصیبوں کی ابتلا کبھی خبر نہ بن سکی۔ تاہم ایسے ہر موقع پر جمعیت مزاحمت کرتی۔ جاوید ہاشمی میرے ہم عصر ہیں۔ ہم ایک ہی ہاسٹل میں رہتے تھے۔ ایسے بہادر، نڈر اور بے خوف رہنما کم ہی ملیں گے۔ اپنی جوانی میں تو ہاشمی صاحب جرأت و بہادری کا استعارہ تھے۔ اُنہوں نے خبر ملتے ہی طلبہ کو اکٹھا کیا اور گورنر ہائوس کا گھیرائو کر لیا۔ وہاں اُن پر اور بہت سے دیگر طلبہ پر جو بہیمانہ تشدد کیا گیا، اُس کی مثال نہیں ملتی۔ اور وہ اس نوعیت کا پہلا یا آخری واقعہ نہیں تھا۔ اپنی بے خوفی کی وجہ سے ہاشمی صاحب اور ساتھی طلبہ کئی بار تشدد کا نشانہ بنے۔ جامعات کئی دنوں تک متحارب طلبہ تنظیموں کے مابین میدانِ جنگ بن جاتیں۔ ملک کی کوئی ایسی جامعہ نہ تھی جہاں طلبہ گولیوں کا نشانہ نہ بنے ہوں۔ جامعات میں بھی وہی کچھ ہوا جو غیر جمہوری معاشروں میں ہوتا ہے۔ رواداری، آزادی، احترام اور پُرامن سیاسی مسابقت خواب بن کر رہ گئے۔ ہر جگہ کسی مذہبی یا لسانی تنظیم نے طلبہ کو اسلحہ فراہم کیا، پشت پناہی کی اور اُن کے ذریعے اپنی اجارہ داری کی جنگ لڑی۔
حال ہی میں ملک کے کچھ شہروں میں طلبہ نے اپنے حقوق اور یونینز کی بحالی کے احیا کے لیے یکجہتی مارچ کیا ہے۔ اس وقت ہر سرکاری یونیورسٹی میں طلبہ کی تنظیمیں موجود ہیں، لیکن اُن پر سیاست یا فرقہ پرستی یا لسانیت کی چھاپ ہے۔ کچھ بڑی اور چھوٹی جماعتیں بھی میدان میں ہیں۔ جامعات میں نصف صدی کے تجربہ کی بنیاد پر حکمران طبقے کے سامنے کم از کم تین گزارشات رکھنا چاہتا ہوں۔ پاکستان اور دنیا‘ دونوں تبدیل ہو چکے۔ طلبہ ساری دنیا میں متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ یونینز پر پابندی قائم رکھنا وقت کے دھارے کے خلاف چلنے کے مترادف ہے۔ طلبہ سیاست اس وقت بھی موجود ہے، اسے منظم اور مثبت سمت دینے کی ضرورت ہے۔ جس یونیورسٹی میں خاکسار پروفیسر ہے، وہاں کئی سالوں سے یونین موجود ہے۔ سالانہ انتخابات ہوتے ہیں، اور طلبہ کے نمائندے یونیورسٹی کونسل اور دیگر فیصلہ ساز کمیٹیوں کے رکن ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ کی آواز کو سنا جائے‘ لیکن سیاسی جماعتوں کو اسے دور رکھنا ہو گا تاکہ وہ مداخلت نہ کریں۔ اپنے نظریات، منشور اور پاکستان کی تعمیر کے جو منصوبے بنا رکھے ہیں، یا جن پر وہ عمل کر چکے ہیں، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ جامعات ملک کے سیاسی معاشرے کا جزو ہیں۔ جو ملک میں ہو گا، اُس کا عکس طلبہ سیاست میں بھی دکھائی دے گا۔ معاشرے میں تنائو، کشیدگی اور تقسیم رہی تو یہ لکیریں طلبہ سیاست میں بھی دکھائی دیں گی۔