تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     05-12-2019

تقرریوں‘ تبادلوں سے کب تک کام چلے گا؟

حکومتی اور بیوروکریسی کی سطح پر تبدیلیوں کا ایسا چکر چل رہا‘ جس کی لپیٹ میںکوئی بھی کسی وقت بھی آسکتا ہے۔ آج کسی وزیر کو عہدے پر لگایا جاتا ہے‘ تو چند دنوں بعد اُس کی عہدے سے علیحدگی کی خبرآجاتی ہے۔کچھ روز مزید گزرتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ موصوف پھر سے اپنی وزارت پر واپس آچکے ہیں۔ بیوروکریسی میں بھی یہی عالم ہے۔ گزشتہ دنوں ہی پنجاب بھر میں کچھ نہیں کچھ نہیں تو کوئی 128کے قریب سول اور پولیس افسران تبادلوں کے بھنور میں آئے۔ حکومتی سطح پر گمان کیا جارہا تھا کہ بیوروکریسی کی ناقص کارکردگی پر حکومت کو ہدف تنقید بننا پڑ رہا ہے۔ایک تاثر یہ بھی پایا جارہا تھا کہ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بوجوہ ‘ بیوروکریسی نے گو سلو کی پالیسی اختیار کیے رکھی ۔اس روئیے کے باعث نا صرف حکومت کی سبکی ہورہی ہے ‘بلکہ یہ رویہ ترقیاتی منصوبوں پر بھی اثر انداز ہورہا ہے۔ ان تبدیلیوں کا عندیہ تو تب ہی مل گیا تھا‘ جب وزیراعظم عمران خان کی طرف سے پہلی بار پنجاب حکومت کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار سامنے آیا تھا۔اس کے بعدجب وزیراعظم نے 30نومبر کو لاہور آنے کے بعد پھر اپنے تحفظات ظاہر کیے تو یہ بات کنفرم ہوگئی تھی کہ تقرریوں اور تبادلوں کا ریلا آنے والا ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے بھی کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے ہاں تو یوں بھی اپنی بری کارکردگی کا ذمہ دوسروں کے سر تھوپنے کا چلن عام ہے۔اتنے بڑے پیمانے پر تو نہیں‘ لیکن تبادلوں کے چھوٹے موٹے ریلے پہلے بھی آچکے ہیں۔ اس کے باوجودمعاملات بہتر نہ ہونے پر بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کا فیصلہ کیا گیا ۔اسی کے نتیجے میں 14ماہ کے دوران تیسرے چیف سیکرٹری کو تعینات کیا گیا ہے۔ امن و امان کی صورت حال کی صورت حال کو بھی ناقص گمان کرتے ہوئے 14ماہ کے دوران پنجاب میں پانچویں انسپکٹر جنرل کو پولیس کی کمان تھما دی گئی ہے۔ اظہار تو ایسے عزائم کا بھی سامنے آرہا ہے کہ اگلے مرحلے میں تبدیلی کا یہ عمل نچلی سطح تک جائے گا۔ اللہ کرے کہ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں گڈگورننس کی خواہشات پوری ہوجائیں اور صوبے کے معاملات میں بہتر ی آجائے۔نئے چیف سیکرٹری اور آئی جی اوردیگر افسران کو جن توقعات کے ساتھ لایا گیا ہے‘ وہ پوری ہوسکیں اور بیوروکریسی دوبارہ سے پوری طرح متحرک ہوجائے۔ 
اب ‘اگر یہ مان لیا جائے کہ حکومت نے قابل افسران کو فیلڈ میں لانے کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی ہے تو کیا جانے والے افسران قابل نہیں تھے؟ظاہر ہے وہ افسران جہاں بھی جائیں گے ‘ حکومتی مشینری کے کل پرزے ہی رہیں گے۔ مطلب یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اگر کسی افسر کو ناقص کارکردگی پر لاہور سے ہٹا کر نارووال میں تعینات کیا گیا ہے تو کیا وہاں جا کر اُس کی کارکردگی میں نکھار آجائے گا؟یہ ایک عجیب پریکٹس ہوتی ہے کہ جہاں بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے تو معاملے کو کول ڈاؤن کرنے کے لیے وہاں سے فوری طور پر افسران کو تبدیل کردیا جاتاہے۔ آج تک ایسے اقدامات کا صرف یہی نتیجہ نکلا ہے کہ افسران کو تبدیل کرنے سے کسی حد تک عوام کا غصہ کم ہوجاتا ہے۔ فوری طور پر ایسا اقدام اُٹھانے کا حکومتی مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناقص کارکردگی پر فوری تبادلے کے زد میں آنے والے افسران جلد ہی کسی دوسری جگہ فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں۔دوبارہ تعیناتی پر بھی یہ افسران ملک میں ہی کہیں تعینات ہوتے ہیں۔جہاں یہ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں‘ وہاں بھی پاکستانی عوام ہی بستے ہیں تو پھر اُن کا کیا قصور کہ نااہل افسران کو ان پر لگا دیا جائے۔یاد رکھنے کی بات ہے کہ جو بھی افسر مروجہ طریقہ کار کی چھلنی سے چھن کر آگے آتا ہے ‘ وہ قابل ہی ہوتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ہر ایک کے کام کا طریقہ کار اورانداز الگ الگ ہوتا ہے۔بے شک یہ حکومت کا اختیار ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی افسر کی کارکردگی سے خوش نہیں تو اُسے تبدیل کرسکتی ہے لیکن یکدم تبادلوں کی اتنی بڑی آندھی چلادینے کے اچھے نتائج کم ہی برآمد ہوتے ہیں۔ خصوصاً اس صورت میں کہ جب بیوروکریسی پہلے ہی بوجوہ کافی دباؤ میں ہے۔ بنیادی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ کون سی حکومت کتنے مضبوط قدموں پر کھڑی ہے۔خود اُس میں اپنے افسران سے کام لینے کی کتنی اہلیت موجود ہے۔اس حقیقت سے انکار بہرحال ممکن نہیں کہ موجودہ حکومت بہت کم ووٹوں کے مارجن سے اقدار کی کرسی پر براجمان ہے۔ اپنے اتحادیوں کی سفارشات کو ماننا بھی اُس کی مجبوری ہے۔ اُس پر اگر افسران کو پیشیاں بھگتنے پر بھی لگا دیا جائے‘ تو اچھے نتائج سامنے آنے کی توقع کم ہی رکھی جانی چاہیے۔ مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی کی بے جا حمایت کی جائے۔ نکتہ صرف اتنا سا ہے کہ کارکردگی میں بہتری کے نام پر اتنے بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کو احسن اقدام قرار دیا جاسکتا ہے؟ابھی تک تو یہی صورت حال سامنے آئی ہے کہ ہر دوچار ماہ گزرنے کے بعد افسران اور حکومت کے درمیان کوئی نہ کوئی تنازع پیدا ہوجاتا ہے اور نتیجہ افسران کے تبادلوں کی صورت برآمد ہوتا ہے۔ 
اس تمام معاملے میں اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ گویاٹیم میں تو بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں ‘لیکن کپتان پرانا ہی رہے گا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے کافی عرصے سے یہ شکوہ کیا جارہا تھا کہ بیوروکریسی اُس کے ساتھ تعاون نہیں کررہی ۔ ایسی ہی شکایات کے تناظر میں پہلے بھی بیوروکریسی میں تبدیلیوں کا عمل جاری رہا‘ لیکن محدود پیمانے پر۔ اس مرتبہ وزیراعلیٰ کی مشاورت سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی تبدیلیاں اس بات کا اشارہ بھی ہیں کہ پنجاب حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے کا بھرپوراور شایدآخری موقع فراہم کیا گیا ہے۔ اب یقینا اُس کے پاس یہ جواز نہیں ہوگا کہ کہ بیوروکریسی اُس کے ساتھ تعاون نہیں کررہی۔ اب تو پہلی صف کے تمام افسران ہی وزیراعلیٰ کی مشاورت سے لائے گئے ہیں‘ اسی تناظر میں صوبائی حکومت کی طرف سے یہ موقف بھی سامنے آیا تھا کہ تبدیل کیے جانے والے افسران میں سے 95فیصد کی ہمدردیاں جانے والی حکومت کے ساتھ تھیں‘نئے افسران کے آنے سے حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے میں آسانی میسر آئے گی۔ یقینا ہمیشہ اچھے کی اُمید ہی رکھی جانی چاہیے‘ لیکن سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس سب کے باوجود بھی حکومت اپنی کارکردگی میں بہتری نہ لاسکی تو پھر کیا ہوگا؟کیا ایک مرتبہ پھر سے تبدیلیوں کا ریلا آئے گا یا پھر حکومتی سطح پر تبدیلیاں لانے پر غور کیا جائے گا۔ اب‘ اگر وزیراعظم عمران خان کی رضامندی سے اتنے بڑی پیمانے پر بیوروکریسی میں تبدیلیاں کی گئی ہیں توایسا کرنے سے پہلے کارکردگی میں بہتری کی یقین دہانی بھی تو حاصل کی گئی ہوگی۔خصوصاً جب پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر بہت سی دوسری نظریں بھی جمی ہوئی ہیں۔ یہ باتیں تو اب پرانی ہوچکیں کہ حکومتی معاملات کے حوالے سے پردے کے پیچھے سے بھی بہت سے ہاتھ متحرک رہتے ہیں۔ 
ضروری ہے کہ اب اگر اپنے من پسند افسران کو آگے لایا گیا ہے تو اُن پر اعتماد بھی کیا جائے۔ افسران کے بارے میں عمومی طور پر یہ رائے رکھنا کہ وہ جان بوجھ کر کام نہیں کررہے ‘بہرطور اچھی بات نہیں ہے۔ ہر ایک کے بارے میں یہ منطق بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ وہ جانے والوں کا ہمدرد ہے۔ یہ سچ کہ افسران کی کوشش ہوتی ہے‘ وہ حکومت کے ساتھ بنا کررکھیں ‘لیکن بنیادی طور پر وہ ریاست کے ملازم ہوتے ہیں۔ ریاست اُنہیں ملازمت کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ جو بھی برسراقتدار ہوتے ہیں‘ لامحالہ افسران کو اُن کے ساتھ ہی کام کرنا ہوتا ہے۔ دونوں کے درمیان ‘اگر اعتماد کی فضا موجود ہو تو ورکنگ ریلیشن شپ بہت بہتر ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت اور بیوروکریسی کے درمیان پہلے دن سے ہی اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔ بلاشبہ حکومت کو اعتماد کی فضا پیدا کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بہت اچھی شخصیت کے مالک ہیں۔ اُن سے زیادہ ملاقات تو نہیں‘ لیکن جتنے بھی مواقع پر اُن سے ملنے یا گفتگو کرنے کا اتفاق ہوا ہے ‘اُنہیں مثبت شخصیت کا مالک پایا ہے۔ وہ مسائل حل کرنے میں بھی سنجیدہ دکھائی دئیے ۔ اُن کے روئیے کے حوالے سے بھی کبھی کوئی شکایت سامنے نہیں آیا۔ اتنی مثبت شخصیت کے برسراقتدار ہونے کے باوجود ‘اگر حالات کار میں مطلوبہ بہتری نہیں آرہی تو اس کے دوسرے عوامل کو بھی تلاش کیا جانا چاہیے۔
میری نظر میں وجہ سیدھی اور صاف ہے کہ تبادلے ‘ تقرریوں سے زیادہ دیر تک کام چل نہیں پائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved