تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     06-12-2019

The Winter of Discontent

سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی ایک عجیب سی اُداسی آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ دل چاہتا ہے سارا دن دھوپ میں لیٹے رہیں کسی چارپائی پر‘ آنکھوں پر ایک ہاتھ رکھے اور دوسرا ہاتھ سر کے نیچے یا پھر ہاتھوں میں کتاب ہو‘ لتا‘ محمد رفیع کے پرانے گانے کسی ریڈیو پر آپ کو مزید اداس کر رہے ہوں اور آپ ماضی کی یادوں میں گم ہوں۔ کوئی آپ کو نہ بلائے‘ نہ بات کرے۔ بدن سورج کی حرارت سے خود کو گرم رکھنے کی کوشش میں سرگرداں ہو اور سورج کسی بوڑھے مسافر کی طرح زمین سے دور اپنی لڑائی لڑنے میں مصروف۔ سردیوں میں سورج کی کرنیں زمین پر ترچھی پڑتی ہیں۔ زمین کو پوری حرارت نہیں ملتی۔ یوں آپ ڈھیلے ڈھالے رہتے ہیں۔ سردیاں ویسے بھی وچھوڑے کا موسم سمجھا جاتا ہے جب درختوں کے پتے زرد ہو کر زمین پر گر رہے ہوتے ہیں۔ ہر طرف دھند کا راج ہوتا ہے۔ سنتے تھے دسمبر میں دوست بچھڑ جاتے ہیں۔ سوچا کرتا تھا کہ ایسے ہی شاعروں نے اپنی طرف سے یہ شعر کہہ رکھے ہیں ورنہ وچھوڑے کا تو کوئی بھی موسم ہو سکتا ہے؛ تاہم اس وچھوڑے کا دکھ اس وقت محسوس کیا جب پانچ دسمبر2015 کو ڈاکٹر ظفر الطاف چل بسے۔ اٹھارہ برس کا تعلق‘ دوستی‘ ملاپ ایک لمحے میں ختم۔ میں گائوں میں تھا جب رافع الطاف نے فون پر بتایا۔ زندگی کا ایک اہم باب ختم ہو گیا تھا۔
ہر انسان کی زندگی میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کے بارے میں لگتا ہے کچھ بھی ہو جائے وہ آپ سے دور نہیں جائیں گے۔ میرے نزدیک ڈاکٹر ظفر الطاف اور نعیم بھائی ایسے ہی تھے جن کے بارے میں کبھی ذہن میں نہیں آیا کہ وہ اچانک چل دیں گے۔ نعیم بھائی کو فوت ہوئے سات برس ہونے کو ہیں لیکن مجال ہے کبھی یہ خیال آیا ہو کہ وہ نہیں رہے۔ گائوں کے قبرستان جائوں تو بھی یقین نہیں آتا کہ وہ یہیں دفن ہیں۔ وہ میرے پہلے ہیرو تھے اور کوئی اپنے ہیرو کے بارے میں نہیں سوچتا کہ وہ مر جائے گا۔ میرے دوسرے ہیرو ڈاکٹر ظفر الطاف تھے۔
دونوں کی طبیعت بڑی حد تک ملتی تھی۔ ملنگ‘ درویش ٹائپ‘ بہادر لوگوں کی مدد کو ہر وقت تیار اور کتابوں کے رسیا۔ کتنا عرصہ نعیم بھائی کی وفات بعد ڈسٹرب رہا جب تک ایک رات انہیں خواب میں دیکھ نہیں لیا۔ وہی سٹالن سٹائل خوبصورت کالی بڑی مونچھیں‘ سفید کپڑے پہنے میرے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ میں نے گلہ کیا: آپ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے‘ آپ ہمارے بغیر خوش ہیں؟ میرے شکوے میں حیرانی تھی کہ آپ ہمیں کیسے اکیلا چھوڑ کر جا سکتے ہیں؟وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور کوئی لفظ بولے بغیر مونچھوں کے نیچے سے مسکرائے اور سر ہلایا جس کا مطلب تھا کہ ہاں میں جہاں ہوں خوش ہوں۔ ایک لمحے کیلئے مجھے ان سے گلہ سا محسوس ہوا کہ وہ بھلا ہمارے بغیر کیسے خوش رہ سکتے ہیں۔ ہم بھائی بہنوں میں تو ان کی جان تھی۔ اب وہ کہیں دور آسمانوں پر ہمارے بغیر خوش ہیں؟ اچانک میری آنکھ کھل گئی لیکن میں کافی دیر تک لیٹا رہا۔ پہلی دفعہ اطمینان محسوس ہوا کہ چلیں وہ جہاں بھی ہیں خوش ہیں۔ اس رات چھ ماہ بعد پہلی دفعہ میں سکون کی نیند سویا تھا۔
یہی کچھ ڈاکٹر ظفر الطاف کے کیس میں ہوا۔ اٹھارہ برس کا تعلق اور یارانہ۔ کون سا دن ہوتا جب دوپہر کو ان کا فون نہ آ جاتا یا میں خود ان کے پاس نہ ہوتا۔ لنچ اکٹھے کرتے۔ کم از کم درجن بھر دیگر لوگ ہوتے اور میز پر کھانا سجا ہوتا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف ایک ایک کی پلیٹ میں کھانا خود ڈال کر دیتے۔ جب تک ان کی اپنی باری آتی کھانا کم بچتا یا پھر ختم ہو جاتا۔ کئی دفعہ وہ خود انڈہ آلو بنوا کر کھانا کھاتے۔ یہی کچھ سوپ کے ساتھ ہوتا۔ انہیں کچھ پتہ نہ ہوتا کہ آج ان کی میز پر کتنے لوگ کھانے کے لیے ہوں گے۔ وہ اندازے سے آٹھ دس لوگوں کا کھانا روز تیار کراتے۔ اٹھارہ برسوں کے تعلق میں انہیں کبھی اکیلے کھانا کھاتے نہیں دیکھا۔ ایک روز ڈاکٹر صاحب کے ایک عزیز نے اشارتاً کمنٹ کیا: یہ سب لوگ دوپہر کا کھانا کھانے آتے ہیں۔ میں چپ نہ رہ سکا اور کہا: آپ کا خیال غلط ہے‘ یہ سب لوگ جو یہاں دوپہر کو اکٹھے ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر صاحب کی محبت میں آتے ہیں۔ کتنے ریٹائرڈ بیوروکریٹس کے پاس لوگ جاتے ہیں؟ آپ کو پتہ ہے‘ ڈاکٹر صاحب اکیلے کھانا کھا ہی نہیں سکتے۔ انہیں دوسروں کو کھانا کھلا کر سکون ملتا ہے۔ جس دن کوئی بندہ نہ ہو‘ یہ خود انہیں فون کرکے بلاتے اور اہتمام سے کھلاتے ہیں۔ آج کی مصروف دنیا میں کون محض دوپہر کا کھانا کھانے اتنی دور آئے گا؟ ڈاکٹر صاحب نے اپنے عزیز کو گھورا‘ لیکن چپ چاپ بیٹھے سنتے رہے۔
جب پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اور ایم این اے نواب یوسف تالپور نے یا کراچی سے ان کے بڑے بھائی جاوید الطاف نے اسلام آباد آنا ہوتا‘ خصوصی اہتمام کرتے۔ سب سے پہلے مجھے فون کرتے: او بھائی کدھر ہو‘ آج نواب صاحب آ رہے ہیں وقت پر پہنچ جانا۔ یا پھر یہ کہتے: یار جاوید آ رہا ہے اور اس نے کہلوا بھیجا ہے کہ رئوف کو بلانا۔ وہ نواب یوسف تالپور کی بہت عزت کرتے تھے۔ نواب صاحب کی ایک ادا انہیں بھا گئی تھی۔ بینظیر بھٹو دوسری دفعہ وزیر اعظم بنیں تو نواب تالپور کو وزیر زراعت بنایا گیا۔ وہ اپنے ایک سندھی بیوروکریٹ دوست کو زراعت کا سیکرٹری لگوانے بینظیر بھٹو پاس گئے تو بی بی نے کہا: آپ ڈاکٹر زیڈ اے کو جانتے ہیں؟ ان کے ساتھ کچھ دن کام کریں اگر اچھے نہ لگیں تو تبدیل کرا لینا۔ نواب تالپور وزیر اعظم کے دفتر سے سیدھے ڈاکٹر ظفر الطاف کے دفتر آئے اور کہا: میں نے آج آپ کو ہٹوا کر اپنے سندھی دوست کو آپ کی جگہ لگوانے کی کوشش کی تھی‘ بی بی نہ مانیں‘ وہ آپ کو اچھا سمجھتی ہیں‘ اگر وہ سمجھتی ہیں تو یقینا اپ قابل اور اچھے انسان ہوں گے کیونکہ ہر کوئی بی بی کی قابلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ ساری عمر وہ نواب تالپور کی اس مروت کا بدلہ دیتے رہے اور ان کی آمد پر عزت و احترام کا مظاہرہ کرتے۔ آپ کو ان کی میز پر بلوچستان‘ سندھ اور کے پی کے‘ کے دوردراز علاقوں کے بلوچ‘ پختون اور سندھی سب ملتے‘ جنہیں پیار اور محبت ملتی۔ وہ مشرقی پاکستان میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر سروس کر چکے تھے۔ انہیں شدت سے احساس رہتا کہ پاکستان کے اصل مالک یہ عام سندھی‘ بلوچ‘ پختون‘ بنگالی‘ سرائیکی‘ پنجابی ہیں۔ وہ بنگالیوں کے حق میں دیر تک باتیں کرتے۔ بنگال میں جو کچھ ہوا اس پر وہ افسردہ رہتے۔ اپنے جس بیچ میٹ کو وہاں بنگالیوں سے بچایا تھا‘ وہی مرتے دم تک ان کے خلاف سازشیں کرتا رہا لیکن مجال ہے کبھی گلہ کیا ہو۔ کراچی سے اپنے سینئر بیوروکریٹ اے آر صدیقی کی بڑی خدمت کی جب جنرل مشرف دور میں ان پر مقدمہ قائم ہوا۔ ان پر خود جنرل مشرف نے نیب کے ذریعے کئی مقدمات درج کرائے۔ ایک دفعہ تو وارنٹ گرفتاری پر دستخط ہو چکے تھے کہ ہمارے مہربان دوست اقبال دیوان میمن کی ایک قریبی دوست وکیل نے پوری فائل پڑھی تو ان کی وساطت سے وہ سرخرو ہوئے۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ دوست تو چھوڑیں اجنبی تک بھی اگر کوئی فیور مانگتے تو کبھی انکار کیا ہو۔ اکثر میںارشاد بھٹی کے خلاف ان کے کان بھرتا کہ دیکھیں جب کوئی عہدہ آپ کو ملتا ہے تو وہ پہنچ جاتا ہے ورنہ خبر تک نہیں لیتا۔ بھٹی جواب دیتا: میں تو ملتا ہی ان سے ہوں جو سیٹ پر ہوں‘ ریٹائرڈ لوگوں سے ملنا تو رئوف کا کام ہے۔ وہ ہنس ہنس کر دوہرے ہو جاتے اور کہتے: یار تم ارشاد بھٹی کے ایماندارانہ جواب کی داد تو دو۔ ان کی زندگی کے آخری دنوں میں شہباز شریف نے ان پر جھوٹے مقدمے بنوائے تھے تاکہ وہ اپنے بچوں کا دودھ کا کاروبار لاہور میں چلوا سکیں۔ اس بات کا انہیں شدید دکھ تھا کہ ان کے والد اتفاق فائونڈری کے ساری عمر لیگل ایڈوائز رہے تھے‘ لیکن ان بھائیوں نے ستر سال کی عمر میں ان پر جھوٹے مقدمے قائم کرتے وقت ذرا سا بھی پرانے تعلقات کا لحاظ نہیں کیا۔
پہلے سنتا پڑھتا تھا کہ ''کرما‘‘ نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ آپ جو اچھا برا دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں وہ ایک دن آپ کی طرف لوٹ کر آتا ہے۔ جو کچھ شریف خاندان کے ساتھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے اس پر مجھے کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی ان زیادتیوں کی قیمت ادا کر رہے ہیں جو انہوں نے ڈاکٹر ظفر الطاف کے ساتھ ان کے آخری دنوں میں کی تھیں۔
پھر وہی دسمبر اور پھر وہی اداس دن‘ درختوں کی شاخوں سے گرتے زرد‘ رنگین پتے اور باہر بوڑھے سورج کی کمزور کرنوں کی دھوپ میں وچھڑے یاروں کی یادوں کا ایک طویل ہجوم۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved