تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     06-12-2019

سول ملٹری چپقلش ‘ایک المیہ

ترقی پذیر ممالک ‘خاص طور پرپاکستان میں فوج کا کردارچاہنے اور نہ چاہنے کے باوجود انتہائی اہم رہا ہے‘ مگر فوجی حکمرانوں کے ادوار میں ہونے والی تعمیرو ترقی اورمعاشی خوشحالی کو فراخ دلی سے کبھی تسلیم نہیں کیا جاتا‘بالکل اسی طرح جیسے فوجی حکمران سیاستدانوں کے ادوار کو بْرابھلا کہتے نظرآتے ہیں۔
پاکستان میں سول اورفوجی قیادتوں کی باہمی مخاصمت کی وجہ سے یہاں ادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے۔ ریاست سیاسی و معاشی اعتبار سے داخلی اور خارجی سطح پر وہ عزت و وقار حاصل نہ کرسکی جو مقام اس کی ہم عصر ریاستوں نے حاصل کیا ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اور تو اور دنیا کی آٹھویں اوراُمتِ مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت ہونے کے ناتے پاکستان سپر طاقتوں اور مغربی ممالک کی آنکھوں میں تو کھٹکتا ہی ہے ‘مسلم ممالک بھی دل و جان سے ہمارے اتحادی نہ بن سکے‘ بلکہ وہ ہم سے زیادہ ہمارے دشمنوں کے دست و بازو بن بیٹھے۔ ہمارے سول ملٹری اداروں کے مابین اس چپقلش کاسب سے زیادہ فائدہ غیروں نے اٹھایااور نیشنل سکیورٹی کے منصوبے اور قومی مفاد کی پالیسیوں اورمخفی سٹریٹیجک اقدامات‘جن کاکھل کراظہار ہرگز نہیں کیا جاسکتا‘ایسے تمام کے تمام اقدامات کو ہماری قیادتوں نے محض غیروں کے دباؤ میں آکرغیروں پر احسان کرتے ہوئے اس لیے ادھورا چھوڑ دیا کہ اپنے اقتدار کو دوام بخشا جاسکے اورسپر طاقتوں کی نظروں میں خود کواچھا ظاہر کیا جاسکے۔حالانکہ ان میں سے چند ایک اقدامات تو ایسے تھے کہ اگر ان پر سول اور فوجی قیادتوں کا اتفاق و اتحاد ہوجاتا تو آج خطے کا جغرافیہ کْچھ اور ہوتا۔ بدقسمتی اور ندامت کی انتہا یہ ہے کہ ہماری قیادتوں نے بلا تفریق ایک دوسرے کے خلاف غیروں کو اس طرح شکایات کیں اور ایک دوسرے کے خلاف ایسے مدد مانگی جیسا کہ یہ باہم دشمن ہوں اور غیروں نے اس نفاق کا خوب خوب فائدہ اٹھایا۔
ہماری سول اور فوجی قیادتوں کے مابین افراط و تفریط کو ختم کروانے کے لیے بھی دوسرے ملک مداخلت کرتے ہیں اور پھر باری باری ان کو اپنے ہاں بلاتے اور ٹھہراتے ہیں ۔ہمارے حکمرانوں کو اربوں روپے انعام کے طور پر دیتے ہیں‘ ان کو واپس بھیجنے اور اپنے ہاں بلانے کے لیے شاہی طیارے آتے ہیں جو یقیناً پوری قوم کے لئے باعثِ شرم ہے۔ حصولِ اقتدار و اختیار کی اس رسہ کشی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی انا پرستی نے ہمیں دنیا بھر میں تماشا بنا دیا ہے۔ہمارے حکمران اقتدار کے مزے پاکستان میں لْوٹتے ہیں‘ لیکن دولت کے انبار دوسرے ملکوں میں جمع کرتے ہیں۔حکمرانی کے وقت وہ پاکستان میں وزٹ پر آتے ہیں اور اقتدار کے خاتمے پر وہ بیرونِ ملک اپنی مستقل سکونتوں میں چلے جاتے ہیں۔ اب یہ کلچر تمام اشرافیہ کا ہوچکا ہے‘ خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبے یا ادارے سے ہو۔
علمِ سیاست کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ فوج کوبراہ راست سیاست اور امورِ مملکت چلانے سے کوسوں دور رہنا چاہیے۔ سیاستدانوں اور غیر سیاسی حکمرانوں کے مابین عدم اعتماد کی یہ فضا گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے اور دونوں قیادتیں اپنی اپنی جگہ پر اس بات پر مُصر ہیں کہ امور ِمملکت چلانے کی صرف وہی اہلیت رکھتی ہیں۔ فوج کا دعویٰ ہے‘جو کسی حد تک درست بھی ہے کہ ان کے پاس تنظیم ہے‘ اہلیت ہے اور ادارہ جاتی طور پر وہ زیادہ مضبوط بھی ہیں‘ لیکن کیا کیاجائے کہ اس سب کے باوجود اس کی براہ راست مداخلت اور اقتدار پر قابض ہونے کو دستورِ پاکستان اور دنیا تسلیم نہیں کرتی۔ دوسری جانب سیاستدانوں کا یہ دعویٰ‘ جو اپنی جگہ درست ہے ‘کہ امورِمملکت چلانا ان کا حق ہے اور دستور اِن کو یہ حق دیتا ہے اور دنیا ان کے حق کو تسلیم کرتی ہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں اورسیاسی قیادتوں کی باہمی لڑائیوں نے ان کی کارکردگی اور استعدادِ کار کو بُری طرح متاثر کیا ہے اور یہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور اقتدار تک پہنچنے کے لیے واشنگٹن یاترا کے ساتھ ساتھ راولپنڈی کی آشیرواد اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کرتے نظرآتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے لیے پاور شیئرنگ کے فارمولے اور یقین دہانیوں کے بعد اقتدار حاصل کرتے ہیں اور پھر بدعہدی کے مرتکب ہونے پر فراغت کی راہ ناپتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی حالتِ زار کا سامناایک فوجی حکمران کو بھی کرنا پڑتا ہے ۔وہ ایک سیاسی جماعت کا اقتدار ختم کرکے جب خود براجمان ہوتا ہے تو کئی دوسری سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ جس کے نتیجے میں اس کو ان سیاسی قائدین کی بعض شرائط ماننے کے ساتھ ساتھ پاور شیئرنگ بھی کرنا پڑتی ہے اور کْچھ لو اور کچھ دو پر معاملات طے ہوتے ہیں۔سیاست کے میدان میں بہرحال سیاستدانوں کا پلڑا بھاری رہتا ہے‘ وہ وقتی طور پر فوجی حکمران کا ساتھ بھی دیتے ہیں ‘اس کے اقتدار کے مزے لْوٹتے ہیں‘ مال بھی بناتے ہیں اور جیسے ہی فوجی حکمران کمزور ہوتا ہے فوراً واپس اپنی سیاسی برادری کے ساتھ مل کر اسے چلتا کرتے ہیں۔ اکیلا فوجی حکمران غاصب ‘ آئین شکن اور غدار گردانا جاتاہے‘ جبکہ اس فوجی حکمران کے ساتھ حکومت کے مزے لْوٹنے والے سیاستدان‘کابینہ اور حکومتی مشینری پَوتّر ٹھہرتے ہیں۔ آج تک جو جو فوجی حکمران ان سیاستدانوں کے ہتھے چڑھا وہ غاصب ٹھہرا‘ان میں جنرل ایوب خان‘ جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیاالحق شہید اور جنرل پرویز مشرف شامل ہیں اور ان فوجی حکمرانوں کے ادوار میں پلنے بڑھنے اور اقتدار کے مزے لْوٹنے والے سیاستدان جمہوری لیڈر کہلاتے ہیں۔آئین شکنی اور غصب کے جرم سے بھی بَری الذمہ ہیں۔ان میں بھٹو خاندان‘ شریف خاندان اورچوہدری خاندان سمیت پارلیمنٹ میں موجود تقریباً اسی فیصد ارکان شامل ہیں۔
سیاستدان ان فوجی حکمرانوں کے ساتھ شریک ِاقتدار بھی ہوتے ہیں‘ لیکن شریکِ جرم نہیں ٹھہرائے جاتے‘ یہی حال ان ججز کا ہے جو فوجی حکمرانوں کے شریکِ سفر تو ہوتے ہیں‘ لیکن شریک ِجرم نہیں مانے جاتے۔ وہ ججز جو اِن فوجی حکمرانوں کے اقتدار کو جائز قرار دیتے ہیں اور وہ ارکانِ پارلیمان جو فوجی حکمرانوں کے ''سیاسی جرائم‘‘ کو جواز بخشتے ہیں‘ وہ مجرم قرار نہیں پاتے‘ بلکہ مجرم فرد واحد قرار پاتا ہے ۔اس لیے سیاستدان بہرحال بہترین چال باز کہلانے کے مستحق ہیں۔
فوجی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ ہر بار سیاستدان ان سے ہاتھ کر جاتے ہیں‘ آخر ایسا کیوں ہے؟ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے کم وبیش نوسال تک مملکتِ خداداد پاکستان کے کروڑوں عوام پر حکمرانی کی‘ وہ جنرل ہوتے ہوئے طاقتور ترین حکمران تھے‘ سیاہ وسفید کے مالک ٹھہرے‘ جو سوچتے تھے ‘ تحریر کرتے تھے اور فرماتے تھے وہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قانون کہلاتا تھا۔پرویز مشرف جہاز میں سوار بلندیوں پر تھے تو ان کے ساتھی ان کے لیے اختیارِ کْل (اقتدار) کا بندوبست کررہے تھے۔ جب تک مکمل کنٹرول حاصل نہ ہوا اپنے جرنیل کو نیچے نہیں اترنے دیا‘ لیکن ان دنوں بستر علالت پر ہیں اور رحم کی اپیل کررہے ہیں کہ وہ غدار نہیں ‘ان کا بیان آکر ریکارڈ کرلیا جائے۔ لیکن قانون اندھا ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ جو لوگ شریکِ اقتدار تھے وہ اب بھی ارکانِ پارلیمان اور وزرا کی شکل میں اقتدار میں ہیں۔جن لوگوں کو این آر او دیا‘ معافی دی وہ آج مجرم ہونے کے باوجود لیڈر جانے جاتے ہیں۔ نہ ریاست نہ ریاستی نظام ان کو پکڑ سکتا ہے‘ جبکہ ایک فوجی حکمران رحم کی اپیل کرتا نظر آتا ہے اور اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
اگرتمام ادارے آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کرلیں اور متعین کردہ آئینی کردار تک محدود رہیں تو نہ صرف پاکستان مثالی ریاست بن سکتا ہے بلکہ این آر او دینے کی ضرورت نہ لینے کی ‘ نہ قانون کی گرفت نہ رحم کی اپیل۔ جس دن سول اور فوجی قیادت نے خالصتاً پروفیشنل بنیادوں پر مل کر کام کرنا شروع کر دیا وہ دھرتی ماں پاکستان کی ترقی کا پہلا دن ہو گا۔ انشااللہ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved