حکمران سیاسی انتقام میں اندھے ہو چکے ہیں: بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکمران سیاسی انتقام میں اندھے ہو چکے ہیں‘‘ جبکہ ہمارے خلاف ایسے مقدمات بنا دئیے گئے ہیں کہ جو ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہے‘ انہیں ہم سیاسی انتقام کہتے ہیں؛ البتہ یہ آج تک واضح نہیں کر سکے کہ یہ سیاسی انتقام کیسے ہو گئے؟ کیونکہ یہ وہی مقدمات ہیں ‘جو ہمارے خلاف نواز لیگ نے بنوائے اور نواز لیگ کیخلاف سارے مقدمات ہم نے بنوائے؛ چنانچہ یہ سب سیاسی انتقام ہی کے ضمن میں بنائے گئے تھے‘ اس لئے انہیں سیاسی انتقام نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے‘ اس سے زیادہ خوبصورت وضاحت اور کیا ہو سکتی ہے اور لطف یہ ہے کہ نواز لیگ بھی اپنے خلاف مقدمات کو‘ جو ہم نے بنوائے تھے‘ سیاسی انتقام ہی کا نام دے رہی ہے؛ البتہ حکمرانوں کا اس میں اندھا ہو جانا واقعی تشویشناک امر ہے‘ جس سے وہ چلنے پھرنے سے ہی سے محروم ہو گئے ہیں‘ اس لحاظ سے اس حکومت کو مخصوص لوگوں کی حکومت ہی کہا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں جنرل سیکرٹری اقبال شاہ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
دھیلے کی کرپشن نہیں کی‘ گواہی عدالت میں سنی گئی: شہباز شریف
نواز لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''دھیلے کی کرپشن نہیں کی‘ گواہی عدالت میں سنی گئی‘‘ جبکہ اربوں روپوں اور دھیلے میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور یہ جو اربوں کے اثاثوں کی ریل پیل نظر آتی ہے‘ صرف اللہ کی دین ہے‘ جس سے انکار کر کے حکمران توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں؛ حالانکہ اس طرح چھپر پھاڑ کر دینا اللہ میاں کیلئے کون سا مشکل کام ہے‘ حیرت کی بات ہے کہ انہیں اپنی عاقبت کی بھی فکر نہیں ہے؛ چنانچہ اگر یہ لوگ اب بھی توبہ کر لیں تو ان کی کچھ بچت ہو سکتی ہے اور برخوردار حسین نواز نے لندن کی جائیداد کی ملکیت ظاہر کرتے ہوئے جو الحمد للہ کہا تھا تو اس کا مطلب بھی اللہ میاں کی شکر گزاری ہی تھا ‘کیونکہ اس کی قدرت کی کوئی حد ہی نہیں ہے اور جس کا اندازہ اُن شفقتوں سے ہو سکتا ہے ‘جو اللہ میاںنے تھوک کے حساب سے تم پر فرمائی ہیں۔ آپ اگلے روز لندن میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت معیشت کے بعد اداروں کا بیڑا غرق کر رہی ہے: رانا مشہود
مسلم لیگ ن کے رہنما رانا مشہود نے کہا ہے کہ ''حکومت معیشت کے بعد اداروں کا بیڑا غرق کر رہی ہے‘‘ حالانکہ ہم یہ کام نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ پہلے ہی کر چکے اور حکومت کو ہماری نقل اُتارنے کی بجائے کوئی اپنا کام کرنا چاہیے‘ کیونکہ گھوڑے پر کاٹھی ڈالی ہوئی ہو تو اس پر مزید کاٹھی ڈالنے کی تو کوئی گنجائش نہیں ہوتی‘ یعنی جو بیڑا پہلے ہی غرق ہے اور سمندر کی تہہ میں بیٹھا ہوا ہے اور مزید کیا غرق کیا جا سکتا ہے‘ جبکہ اداروں کے پلّے بھی ہم نے کچھ نہیں چھوڑا تھااور اگرکچھ چھوٹ گیا ہے‘ تو یہ تو ان سے پوچھ کر ہی بتایا جا سکتا ہے‘ جبکہ صورت حال یہ ہے ادارے ہم سے ہی پوچھ پوچھ کر ہمیں بے حال کر رہی ہیں اور ان کی پوچھ گچھ کہیں رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہے تھے۔
ایقان
یہ نعیم رضا بھٹی کا مجموعہ غزل ہے ‘جسے انحراف پبلی کیشنز نے چھاپا ہے۔ انتساب دادا حضور حاجی محمد عارف بھٹی مرحوم‘ دادی جان مرحومہ‘ والد محترم حاجی محمد عارف بھٹی‘ والدہ محترمہ ‘ ارمغان احمد اور ایمان فاطمہ کے نام ہے۔ دیباچے ڈاکٹر خورشید رضوی اور فرزاد علی زیرک کے قلم سے ہیں‘ اندرون سرورق ڈاکٹر خضر نوشاہی‘ سید کاشف رضا اور سوزؔ دہلوی نے لکھے ہیں‘جبکہ پس سرورق عارف امام کے قلم سے ہے۔ ابتدا شاعر نے اپنے اس شعر سے کی ہے ؎
تجھ سے مرا وجود سنبھالا نہ جا سکا
میں نے ترا غبار بھی رکھا سنبھال کر
کچھ نمونے کے مزید اشعار پیش خدمت ہیں:
شیشے نے انگڑائی لی
اور خود سے دوچار ہوا
ہمیں دستک کی عادت ہی نہیں ہے
پلٹ آئیں گے اچھے دن ہمارے
اک حسینہ کی گھات میں رہ کر
اپنے نزدیک آ گیا ہوں میں
چلنا ہی دشوار ہوا
رستا جب ہموار ہوا
اور‘ اب آخر میںنعیم ؔضرار کی شاعری:
کیا ضروری ہے کہ ہر بات کی تصدیق بھی ہو
وہ جو نزدیک نظر آتا ہے نزدیک بھی ہو
کیسے ممکن ہے کہ روشن بھی ہو تاریک بھی ہو
جانے اس دور میں ایسی کوئی تکنیک بھی ہو
تم اگر صاحب رائے ہو تو لازم تو نہیں
تم جسے ٹھیک سمجھتے ہو وہی ٹھیک بھی ہو
میرا انجام بھی ہونا ہے کسی ایک طرف
ایک ہی دل میں محبت بھی ہو تشکیک بھی ہو
جل بجھی آتشِ اظہار مرے اندر ہی
کوئی شعلہ مری دیوار سے آگے نہ گیا
دل کو بکنا تھا بہرحال کسی قیمت پر
اس لئے پہلے خریدار سے آگے نہ گیا
ایک لمحے میں پھیر کر نظریں
ساری خیرات چھین لیتے ہیں
بستی بستے ہی کناروں سے نکل کر دریا
لوٹ جاتا ہے وہی نقل مکانی دے کر
آج کا مطلع
دُور و نزدیک بہت اپنے ستارے بھی ہوئے
ہم کسی اور کے تھے اور تمہارے بھی ہوئے